مولانا عبدالحامد بدایونی اور نواب بہادر یار جنگ

مولانا عبدالحامد بدایونی اور نواب بہادر یار جنگ
انتخاب:محمداحمد ترازی
مولانا عبدالحامد بدایونی اور نواب بہادر یار جنگ
انتخاب:محمداحمد ترازی

مولانا محمد الحامد بدایونی (1898ء۔1970ء) محسن ملک و ملت، عاشق رسولﷺ،بے مثال خطیب اور تحریک پاکستان کے سرگرم رہنما تھے۔برصغیر پاک و ہند میں برطانوی استعمار کے خلاف مسلمانان ہند نے علم حریت بلند کیا اور مسلمانوں کو ہندو بنانے کی شرمناک سازش کی تو وہ سینہ سپر ہوکر میدان میں آگئے اور اپنی شعلہ بیاں تقاریر سے مسلمانوں کے خوابیدہ جذبات کو بیدار کیا اور اس سازش کا پوری طرح سے سد باب کیا۔ مولانا عبدالحامد بدایونی تحریک پاکستان کے شروع ہونے سے قبل ہی دو قومی نظریہ کے حامی اور پُرجوش مبلغ تھے۔تحریک خلافت تحریک پاکستان اور تحر یک فلسطین میں انہوں نے نمایاں حصہ لیا۔ وہ قائد اعظم کے خاص رفقاء میں سے تھے ۔
مولانا عبد الحامد بدایونی نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز1914ء میں تحریک خلافت سے کیا اورملکی سیاست میں عملی طور پر حصہ لینا شروع کیا۔ اس تحریک میں مولانامحمد علی جوہر مولانا شوکت علی اور نواب محمد اسماعیل خان کے ساتھ کام کیا۔ ہندوستان بھر کا دورہ کر کے مسلمانوں کے خفتہ جذبات کو بیدار کیا۔ وہ آل انڈیامسلم لیگ کے اجلاس میں پہلی مرتبہدسمبر1918ء میں شریک ہوئے۔ یہ اجلاس مولانا عبدالباری فرنگی محلی کے زیر صدارت منعقد ہوا تھا جس میں مولانا بدایونی نے بھی خطاب کیا ۔ اس کے بعد1937ء کے لکھنو کے سیشن میں انہوں نے با قاعدہ عملی طور پر حصہ لیا اورتقسیم ہند تک آل انڈیا مسلم لیگ کےرکن رہے۔جب قائد اعظم نے مسلم لیگ کو مسلمانان ہند کی ایک موثر جماعت بنانے کا پروگرام بنایا تو اس میں بھی انہوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اپنی سابقہ روایات کو برقرار رکھتے ہوئے مسلم لیگ کا بھر پور ساتھ دیا۔ 1940ء میں منٹو پارک لاہور میں قرار داد پاکستان کے سلسلے میں جو اجلاس منعقد ہوا تھا مولانا عبدالحامد بدایونی نے علماء مشائخ اہل سنت کی نمائندگی کرتے ہوئے اس اجلاس میں شرکت کی اورقائد اعظم کی زیر صدارت قرار داد پاکستان کی حمایت میں تاریخی اجتماع سے جو خطاب کیا وہ ہمیشہ یادگار رہے گا ۔
تحریک پاکستان کے دوران مولانا عبدالحامد بدایونی اور بہادر یار جنگ کے درمیان گہرے دوستانہ مراسم قائم ہو گئے تھے۔ قائد اعظم ان دونوں رہنماؤں پر بہت اعتماد کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ صوبہ سرحدکے ریفرنڈم میں آل انڈیا مسلم لیگ کے وفد میں بہادر یار جنگ کے ساتھ ساتھ مولا تا بدایونی بھی شامل تھے۔ اس موقع پر ان دونوں ساتھیوں کی بے مثال خطابت نے سرحد کے مسلمانوں کو مسلم لیگ کی حمایت پر کمر بستہ کر لیا۔ اس جرم میں حکومت نے مولا نابدایونی کو نا پسندیدہ عناصر کی فہرست میں شامل کرلیا لیکن وہ تمام خطروں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستان کے لیے کام کرتے رہے۔ قائد اعظم نے ان کی خدمات جلیلہ کا اعتراف کرتے ہوئے انہیں "فاتح سرحد" کا خطاب دیا۔ اسی طرح انہوں نے قائداعظم کے ساتھ دورہ کر کے سیالکوٹ میں احراریوں کا زورتوڑا اور احراریوں کے لچھے دار تقریریں ان کی شعلہ نوائی کے سامنے بے کار ثابت ہوئیں۔
1940ء میں نوابزادہ لیاقت علی خان نے مولانا بدایونی کو حیدر آباد دکن بھیجا تا کہ وہ نظام دکن میر عثمان علی خان (1886ء۔1967ء) اور قائد اعظم کی ملاقات کے لیے راہ ہموار کر یں کیوں کہ ان دونوں رہنماؤں کے اختلافات ملت اسلامیہ کی جد و جہد پر اثر انداز ہورہے تھے۔ میر عثمان علی خان آخری تاجدار دکن علماء کے بہت قدردان تھے اور وہ مولانا بدایونی کی علمیت و خطابت کے بڑے مداح تھے اس یہ مولانا بدایونی کو شرف باریابی حاصل کرنے میں کوئی دقت نہ ہوئی۔ نظام دکن سے مولانا کی کافی بحث ہوئی اور جب وہ وہاں سے رخصت ہوئے تو نظام دکن قائداعظم سے ملاقات کے لیے راضی ہو چکے تھے۔
مولانا بدایونی نے بہادر یار جنگ کے ساتھ مل کر مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے قیام پاکستان کے حصول کے لیے بیش بہا خدمات انجام دیں۔ برصغیر پاک و ہند میں ان دونوں رہنماؤں نے دو قومی نظریہ کی تشہیر اور فروغ میں ایک مبلغ کا کردار ادا کیا۔ ان کا تعلق صرف آل انڈیا مسلم لیگ کے جلسوں کی محدود نہ تھا بلکہ حیدرآباد دکن کی ساری اور مذہبی تنظیم مجلس اتحادالمسلمین کے اجلاس میں بھی بہادر یار جنگ مولانا بدایونی کو خاص طور پر مدعو کیا کرتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان دونوں کے درمیان خط و کتابت سلسلہ بھی جاری رہتا تھا جس سے بہادر یار جنگ اور مولانا بدایونی کے دوستانہ مراسم کا اندازہ بخوبی کا جاسکتا ہے۔ اس حوالہ سے بہادر یار جنگ کا ایک خط جو انہوں نے مولانا بدایونی کو15دسمبر 1941ء میں لکھا تھا۔ ملاحظہ کیے۔
"گرامی نامہ پہنچا۔ اس سے پہلے رہبر میں آپ کی مساعی جمیلہ کا حال پڑھ چکا ہوں ۔آپ کو جو مسرت ہوئی ہوگی اس کا مجھے کافی اندازہ ہے کیونکہ میں آپ کو ہمیشہ اپنے قلب و روح سے قریب تر پاتا رہا ہوں۔ اللہ آپ کو جزائے خیر ہے۔ آپ کی اس دعا میں شریک ہوں کہ خدا ان حالات کو استحکام و استقرار عطا کرے۔ آپ کا مشورہ پیش نظر ہے۔ اگر ناگپور کے بعد آپ حیدرآباد تشریف لائیں تو پروگرام کے مسئلہ میں آپ کے تجربہ سے بھی استفادہ کر سکوں گا۔ اتحادالمسلمین کا جلسہ سالانہ اب کی مرتبہ اورنگ آباد سے قریب شہر جالنہ میں ہورہا ہے۔ اس کے اجلاس12اور 13 ذی الحجہ کو مقرر ہوں گے۔ ناگپور سے میرے ساتھ حیدر آباد آیئے اور میری عید کی مسرتوں کو بڑھایئے۔ پھرمیرے ساتھ جالنہ چلے اور جلسے کی رونق میں اضافہ کیجئے۔"
مولانا عبدالحامد بدایونی بہادر یار جنگ کی قومی اورملی خدمات کو اپنے مضمون "بے مثال خطیب" میں ان الفاظ میں خراج تحسین پیش کرتے ہیں:
"بہادر یار جنگ ہی وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے اپنی خطابت و تقاریر کی عام مقبولیت سے حیدرآباد کا نام روشن کیا وہ تحریک پاکستان کے ان قائدین میں تھے کہ تاریخ پاکستان لکھنے والے مورخ تاریخ پاکستان میں نواب بہادر یار جنگ کونہیں بھلاسکتا۔ نواب بہادر یار جنگ کے آخری دور میں جو مسلم لیگ کے لیے صوبہ سرحد میں اجلاس ہوا۔ میں اور نواب صاحب ہفتوں ساتھ رہے تھے۔ نواب صاحب کو بہت سی بار دیکھا اور ساتھ رہا کر صوبہ سرحد میں نواب بہادر یار جنگ کا اعلی کردار و اخلاق، اخلاص و محبت کے صحیح جو ہر کھلے وہ اوّل و آخر پاکستانی تھے۔ مسلم لیگ کے اسٹیج پر بغیر نواب بہادر یار جنگ کے رفیق نہ تھی۔ نواب صاحب کی یوں توہرتقریر بہترین ہوتی لیکن کراچی کی مسلم لیگ کانفرنس میں بہادر یار جنگ نے جو تاریخی شاہپارے پیش فرمائے وہ یادگاری نوعیت کے ہیں ۔ وہ اپنی گراں قدر خدمات کے لحاظ سے ایک ایسے فرد کامل تھے جن کی یاد انتقال کے بعد برابر جاری رہے گی ۔"
("جدوجہد آزادی اور تشکیل پاکستان میں نواب بہادر یار جنگ کی خدمات کا تحقیقی مطالعہ"پی ایچ ڈی مقالہ از:۔ڈاکٹر شاہانہ بیگم،صفحہ 190 تا 193،،ناشر بہادر یار جنگ کوآپریٹو ہاؤسنگ سوسائٹی لمیٹیڈ کراچی،سن اشاعت 2022ء)
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 316 Articles with 312425 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More