11 دسمبر 2019 کو سی اے اے (شہریت ترمیمی ایکٹ) منظور ہو
اور اس کے خلاف ملک گیر تاریخی احتجاج نے حکومت کی چولیں ہلا دیں۔ شاہین
باغ تحریک کی کامیابی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے این آر سی کے
خلاف ملک کی گیارہ ریاستوں نے قانون سازی کی جن میں بی جے پی کی مدد سے
قائم بہار اورکیجریوال کی دہلی سرکار بھی شامل تھی۔ اس وقت کرونو لوجی
بتاکر مسلمانوں کو ڈرانے کی کوشش کرنے والے وزیر داخلہ جب خود ڈر گئے تو
انہوں نے اپنی مدافعت میں کہنا شروع کردیا کہ اس قانون کا ہندوستان
کےمسلمانوں سے کوئی تعلق ہی نہیں ہے ۔ یہ تو پڑوسی ممالک کی مظلوم اقلیتوں
کوپناہ دینے کے لیے بنایا گیاہے۔ ان کی یہ بات درست ہوتی اگر پڑوسی ممالک
کی فہرست سے سری لنکا ، میانمار اور چین کو خارج نہیں کیا جاتا اور اقلیتوں
کے اندر سے مسلمانوں کو نکالا نہیں جاتا۔ وہ دراصل مسلم ممالک کو بدنام
کرکے ہندو رائے دہندگان کو احمق بنانے کی ایک چال تھی۔ اس کے سبب میانمار ،
سری لنکا اور چین کے ہندو اور بودھوں کے ساتھ بھی ناانصافی ہوئی تھی لیکن
اس عدم مساوات کے خلاف آواز اٹھانے کا بیڑہ مسلمانوں نے اٹھایا اور سرکار
کو اسے ٹھنڈے بستے میں ٖڈالنے مجبور کردیا لیکن راجستھان سے ہندووں کی
پاکستان واپسی نے مودی سرکار کو پوری طرح برہنہ کردیا۔
سی اے اے قانون کی ترمیم کے بعد جنوری 28, 2020 کو نئی دہلی میں نیشنل کیڈٹ
کور کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے کہا تھا کہ
نہرو لیاقت معاہدہ کہتا ہے کہ اقلیتوں کو تحفظ فراہم کیا جائے اور مہاتما
گاندھی کی بھی یہی خواہش تھی۔ حکومت نے شہریت ترمیمی قانون متعارف کرا کے
ان وعدوں کو پورا کیا ہے۔ یہ وعدہ اگر پورا کیا گیا ہوتا تو راجستھان سے
ہندو مہاجر کیوں لوٹتے؟ وزیر اعظم نے متنازع شہریت قانون کا دفاع کرتے ہوئے
یہاں تک کہا تھا کہ حکومت نے شہریت ترمیمی ایکٹ کے ذریعے تاریخی ناانصافی
کو درست کیا ہے حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس قانون کے بغیر جو کچھ کانگریس کی
حکومت نے ان کو پناہ گزینوں کے لیے کیا تھا وہ بھی یہ منافق حکومت نے چھین
لیا ۔ اس قانون کا مقصد تو صرف سیاسی فائدہ اٹھانا تھالیکن اس میں بھی وہ
ناکام رہی ۔ دہلی کے ریاستی انتخاب میں لاکھ کوشش کے باوجود اسے اوندھٖے
منہ گرنا پڑا۔
مودی سرکار کے اس پاکھنڈ پر اگر جزب اختلاف اعتراض کرتا تو اسے سیاسی
مخاصمت کا نام دیا جاسکتا تھا لیکن بھلا ہو سبرا منیم سوامی کا کہ انہوں نے
ٹویٹ پر ببانگ دہل اپنی ہی پارٹی کی حکومت کو بے نقاب کردیا۔ موصوف ایوان
بالا میں بی جے پی کے رکن ہیں اور اپنے آپ کو کسی ہندو ہردیہ سمراٹ سے کم
نہیں سمجھتے ۔ انہوں نے لکھا بی جے پی سرکار کے لیے یہ کتنے شرم کی بات ہے
کہ پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی کا شکار تقریباً 800 لوگوں کو جو
ہندوستانی شہری بننے کی امید میں یہاں آئے تھے ،مودی سرکار کی سی اے اے پر
غیر کارروائی سے دھوکہ ملا ہے ۔ وہ بے حد غمزدہ ہوکر پاکستان چلے گئے۔ ویسے
اس پیغام کا آخری حصہ سوامی جی کے ذہن کی اختراع ہے کیونکہ کون خوشی یا
ناراضی سے کیا کرتا ہے اس بابت وہی بتا سکتا ہے اس کا وکیل یا ایسا حامی
نہیں جس کا کوئی مفاد وابستہ ہو۔ آگے چل کر واپس جانے یہ انکشاف بھی
کرسکتے ہیں کہ ملک میں بڑھتی بیروزگاری اور مہنگائی نے انہیں اپنی غلطی کا
احساس دلایا اور اچھے دنوں کے تئیں مویوسی انہیں واپس لے گئی ۔ خیر وجہ جو
بھی جو ہونا تھا سو ہوچکا ساتھ سرکار کی بدنامی بھی ہوگئی۔
اس معاملہ نے آسام کے اندر تیار کیے جانے والے قومی شہری اندراج (این
آرسی) کی یاد تازہ کردی ۔ آسام میں ہزاروں کروڑ روپے کے اخراجات سے جو این
آر سی تیار کیا گیا اس کے مطابق 19 لاکھ افراد لوگوں کو اس میں جگہ نہیں
ملی ۔ ایسے لوگوں کو آگے چل کر بنگلا دیش بھیجا جانا تھا لیکن اگر وہ
انہیں قبول کرنے سے انکار کردے تو ان کے لیے عقوبت خانے تیار کیے جاچکے تھے
لیکن اس رجسٹر کو کوڑے دان کی نذرکرنا پڑا۔ اس کی وجہ پورے ملک میں اس کے
خلاف ہونے والا احتجاج نہیں تھا بلکہ یہ انکشاف تھا کہ ان 19 لاکھ بدنصیب
لوگوں میں سے 13 لاکھ ہندوتھے۔ اس سے شاہ جی کے قدموں تلے سے زمین کھسک گئی
۔ وہ پروپگنڈا کے بنگلا دیشی مسلمانوں نے آسام میں دراندازی کی ہے جھوٹا
ثابت ہوگیا اور سرکار کی زبردست رسوائی ہوئی ۔ مشرق کےآسام میں این آر سی
کے حوالے سے ذلت ہا تھ آئی تھی اورمغربی راجستھان میں سی اے اے نے مسکنت
کا شکار کیا ۔
ہندوستان میں پاکستانی اقلیتی پناہ گزینوں کے مفادات کے لیے کام کرنے والی
سماجی تنظیم ’سیمانت لوک سنگھٹن‘ (ایس ایل ایس) کے صدر ہندو سنگھ سوڈھا کو
خدشہ ہے کہ پاکستانی ایجنسیاں ان لوٹنے والوں کا استعمال ہندوستان کو بدنام
کرنے کے لیے کریں گی۔ انہیں میڈیا کے سامنے لاکر ایسے بیانات دینے پر مجبور
کیا جائے گا کہ ہندوستان کے اندر ان کے ساتھ بہت برا سلوک کیا گیا لیکن اس
میں کیا غلط ہے؟ ان کے ساتھ تو وعدہ خلافی کی گئی اگر مودی سرکار اپنا عہد
پورا کرتی تو وہ لوٹ کر کیوں جاتے؟ہندوستان کی وزارت داخلہ نے سن 2018ء میں
شہریت کے حصول کے لیے آن لائن درخواستیں وصول کرنے کا سلسلہ شروع کیا ۔ سات
ریاستوں میں 16ضلعی کلکٹروں کو پاکستان، افغانستان اور بنگلہ دیش سے آنے
والے ہندوؤں، سکھوں، مسیحیوں، پارسیوں ،جین اور بدھ مت کے ماننے والوں کو
بھارتی شہریت دیئے جانے کی ذمہ داری سونپی گئی ۔ مئی 2021ء میں گجرات،
چھتیس گڑھ، راجستھان، ہریانہ اور پنجاب کے مزید 13 اضلا ع کے حکام کو یہ
اختیارات دیئے گئے لیکن کوئی اپنی ذمہ داری کرے تو عوام کا بھلا ہو۔
آن لائن ویب پورٹل کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ درخواست دہندگان کے ایسے پاکستانی
پاسپورٹ تسلیم نہیں کرتاہے جن کی مدت ختم ہو چکی ہے۔ اس وجہ سے ان ہندو
پاکستانیوں کو اپنے پاسپورٹ کی تجدید کے لیے دہلی میں پاکستانی ہائی کمیشن
جا کر بھاری فیس ادا کرنی پڑتی ہے۔ آن لائن درخواست دینے کے باوجود متعلقہ
کلکٹر کے پاس جاکر بھی دستاویزات جمع کرانا پڑتے ہیں، جو کہ ایک اضافی بوجھ
ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وزارت داخلہ کو دسمبر 2021ء میں ایوانِ پارلیمان کے اندر
بتانا پڑا، آن لائن طریقہ کار کے مطابق اس وزارت کے پاس 10365 درخواستیں
زیر التوا ہیں۔ ان میں سے 7306درخواستیں پاکستانی درخواست دہندگان کی ہیں
لیکن سوڈھا کہتے ہیں کہ بہت سارے لوگوں براہِ راست درخواست دی یا دی ہی
نہیں ۔ ان کی تعداد جوڑیں تو صرف راجستھان میں ہی 25 ہزار پاکستانی ہندو
شہریت کے منتظر ہیں۔ ان میں سے بعض تو گزشتہ دو دہائیوں سے انتظار میں ہیں۔
نئے قوانین کے مطابق دسمبر 2014ء یا اس سے قبل مذہب کے نام پر زیادتیوں کی
وجہ سے بھارت آنے والے غیر ملکی تارکین وطن کے قیام کو قانونی کیا جاچکا
ہے۔ ایسے غیر ملکیوں کو پاسپورٹ کی مدت ختم ہو نے کے باوجود ضابطوں میں
رعایت دی گئی ہے لیکن واپس جانے والوں نے ان کو ٹھکرا دیا۔ ان لوگوں کی
آزمائش کا سلسلہ نیا نہیں ہے ۔ ستمبر 2012 میں بھی وہ ہندوسنگھ سودھا کی
قیادت میں احتجاج کرچکے ہیں ۔اس وقت راجستھان کے وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت نے
ان کے مسائل کے حل کا یقین دلایا تھا لیکن وہ وعدۂ فردا بنا رہا۔ شہریت
ترمیمی قوانین کے بعد ان بیچاروں نے بڑا جشن منایا لیکن ان کے ہاتھ مایوسی
ہی آئی۔ نومبر 2019 کو سندھ کے تھار پارکر سے۶ ؍ سال قبل آ کر بسنے والے
تین پناہ گزینوں کو واپس جانے کا نوٹس پکڑا دیا گیا۔ اس خاندان کی ایک
دوشیزہ پوجانے جس کی شادی طے ہوچکی تھی کہا کہ میں مر جاوں گی لیکن واپس
نہیں جاوں گی۔ پرمیشوری نے دھمکی دی تھی کہ اگر ان کے شوہر کو بھیجا گیا تو
پورا خاندان خودکشی کرلے گا۔ ان کاکہنا تھا کہ اگر ہم نے قانون کی خلاف
ورزی کی ہے تو ہمیں جیل میں ڈالو مگر وپس نہ بھیجو۔ اب سوال یہ ہے کہ دو
سال میں ایسا کیا ہوگیا کہ لوٹنے لگے ؟ اس سوال کا جواب مودی جی کو دینا
ہوگا۔
پاکستان کے اندر پچھلے سال ایک مندر کی بے حرمتی کا معاملہ پیش آیا تھا ۔
عدالت نے اس پر سخت سرزنش کی ۔ اس موقع پر سابق وزیر فواد چودھری نے کہا
تھا ’’پاکستان ، ہندوستان نہیں ہے۔ یہاں کوئی فسطائی نظریہ حکومت نہیں
کرسکتا۔ہمارے لیے سفید رنگ بھی سبز کے برابر کی اہمیت کا حامل ہے۔ ہمارے
پرچم میں سفید رنگ پاکستان میں بسنے والے اقلیتوں کے حقوق کی نمائندگی کرتا
ہے۔ پاکستان کا مستقبل ایک ایسے ترقی یافتہ ملک کا ہے جہاں اقلیتوں کے حقوق
پوری طرح محفوظ ہوں‘‘ ۔اس طرح کا دعویٰ اگر امیت شاہ کر دیں تو سننے والوں
کا ہنس ہنس کر پیٹ پھول جائے۔راجستھان میں جو کچھ ہوا اس کی ابتدا منموہن
سرکار کے زمانے میں ہوئی تھی ۔ سال 2011 میں کانگریس کے تحت یوپی اے حکومت
نے خاموشی کے ساتھ بغیرکسی شور شرابے کے پاکستان میں مظالم کا شکار لوگوں
کو طویل المدتی ویزا دینے کا فیصلہ کیا تھا ۔ اس دوران اور مابعد کثیر
تعداد میں ہندو اور سکھ سماج کے لوگ ہندوستان میں نقل مکانی کرکے آن بسے ۔
ہندوستان میں پاکستانی اقلیتی پناہ گزینوں کے مفادات کے لیے کام کرنے والی
سماجی تنظیم ایس ایل ایس کے مطابق شہریت کے حصول کے لیے اپنی درخواستوں پر
کئی برسوں تک کوئی پیش رفت نہ ہونے کے سبب بیشتر پاکستانی ہندو واپس وطن
لوٹ رہے ہیں۔ یعنی مودی سرکار نے ایک متنازع قانون بنا کر اس کا سیاسی
فائدہ تو خوب اٹھایا مگر جن ہندووں کو کانگریس نے بسایا تھا انہیں اجاڑ
دیا۔ یہ ہے اصل ’گھر واپسی ‘ جس کا سہرا اکھنڈ بھارت بنانے کا خواب دیکھنے
والی آر یس ایس کے بغل بچہ مودی سرکار کے سر ہے۔
|