وطن کی فکر کر ناداں ! مصیبت آنے والی ہے

 سیاست کہنے کو تو فلاحی، سماجی اور معاشرتی خدمت کا نام ہے مگر وطنِ عزیز میں سیاست کرنا ایک ایسے سائنس کا نام ہے جس میں ذاتی اور جماعتی مفاد کو ہمیشہ پہلی ترجیح دی جاتی ہے ۔باایں وجہ بعض دفعہ ایسی غلطی بھی سر زد ہو جاتی ہے کہ لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں اور ذرّا سی غلطی پورے کے پورے ایکسپیریمنٹ کو برباد کر کے رکھ دیتا ہے ۔ پی ڈی ایم میں شامل تقریبا ایک درجن سیاسی جماعتوں سے بھی ایسی ہی غلطی سر زد ہوئی کہ اب وہ نہ آگے جا سکتے ہیں نہ پیچھے۔ عمران خان کو نکال کر کر انہوں نے جو خوشی کے شادیانے بجائے تھے اب وہ ماتمی غزلوں میں ڈھل گئے ہیں ۔اب ان کو یہ احساس ہورہا ہے کہ عمران خان کو نکال کر انہوں نے خسارے کا سودا کیا ہے ۔ پاکستان کی معیشت اس وقت اتنی خراب ہے کہ ملک کے ڈیفالٹ ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے ۔ ڈالر کی اونچی اڑان جاری ہے ، سٹاک ایکسچینج میں مندی کا رجحان ہے ۔ اشیائے ضرورت کے نرخ عوام کے قوتِ خرید سے باہر ہوتے جا رہے ہیں ۔ گرمی کا موسم اور بجلی بحران نے عوام کا سر چکرا کے رکھ دیا ہے ۔

عمران خان کو پانچ سال حکومت کرنے دیتے تو حالت بالکل مختلف ہوتی کیونکہ عمران خان کے پاس بھی جادو کی چھڑی نہیں تھی ۔ معیشت کو سنبھالنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں تھا ۔ مگر مسلم لیگ(ن) ،پیپلز پارٹی اور ان کے اٹحادیوں کو اقتدار میں آنے کی بہت جلدی تھی انہوں نے گرم گرم کھانے کا مزہ لینے میں اپنا منہ ہی جلا دیا ۔ اب ان کا یہ رونا کام نہیں آئے گا کہ عمران خان نے معیشت تباہ کر دی ہے اور اب کی ساری خراب معاشی صورتِ حال عمران خان کا کیا کرایا ہے ۔ کیونکہ اب حکومت ن لیگ اور ان کی اتحادیوں کی ہے اور حالات کو ٹھیک کرنا بھی انہی کیٔ ذمہ داری ہے کیونکہ انہوں نے جان بوجھ کر، سوچ سمجھ کر عمران خان کے خلاف عدم اعتماد پیش کر کے ملک کی بھاگ ڈورسنبھالی ہے ۔ اﷲ کرے کہ موجودہ حکومت ملک کو سنگین خراب صورتِ ھال سے نکال سکے مگر حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حکومت چونکہ ایک سوچ رکھنے والے افراد کے ہاتھ میں نہیں ہے بلکہ حکومت میں شامل اہم عہدوں پر فائز افراد مختلف سوچ کے حامل ہیں ۔وزیر اعظم شہباز شریف مگر اختیار نواز شیف کے پاس ہے ۔اس پر طرہ یہ کہ زیادہ تر با اختیار اور مشرف بہ اقتدار افراد کو ملک سے زیادہ ذاتی مسائل اور اپنا الّو سیدھا کرنے کی پڑی ہے ۔اس لئے قوم کو مستقبل قریب میں بہت مشکل صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ عمران خان کے بڑے بڑے جلسوں نے نہ صرف یہ کہ موجودہ حکمرانوں کو سیاسی چیلنج سے دوچار کیا ہے بلکہ سب سے بڑ ا چیلنج اس وقت معیشت کا ہے ۔ اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ موجودہ زمانے میں جنگ کے ذریعے کسی ملک کو برباد کرنا یا کمزور کرنے کا فلسفہ دم توڑ چکا ہے ،اب کسی ملک کو تباہ کرنا ہو تو اس کی معیشت کو تباہ کیا جاتا ہے ۔ اور ہمارے ساتھ یہی کچھ ہو رہا ہے ۔ پاکستان ایک ایٹمی ملک ہے ۔افواجِ پاکستان دنیا کی بہترین فوج ہے ، لہذا ملک دشمن قوتیں پاکستان کو تباہ کرنے کے لئے معاشی جنگ لڑ رہے ہیں ۔ اس فلسفہ کو سمجھنے کے لئے کسی سائنس کی ضرورت نہیں ۔ غور کیجئے ، پاکستان کی صنعت کاری کی بجائے صنعتیں ختم ہوتی جا رہی ہیں ۔آئی ایم ایف ہمیں حکم دیتا ہے کہ پٹرول کی قیمت بڑھاؤ، بجلی کی قیمت بڑھاؤ، گیس کی قیمت بڑھاؤ، اگر یہ سب کچھ آئی ایم ایف ہی نے کرنا ہے تو پھر پاکستان کا اﷲ ہی حافظ ہے اور پھر معیشت کا سنبھالنا مشکل ہی نہیں ، ناممکن ہے ۔ ہمارے حکمرانوں اور حکومتی اخراجات بھی شتر بے مہار ہیں، اس طرح کے اللّے تللّے تو ترقی یافتہ ممالک کے حکمران بھی نہیں کرتے جس طرح ہمارے حکمران قومی خزانے کو خرچ کرتے ہیں۔ اس کی ایک زندہ مثال موجودہ وزیراعظم اور پوری کابینہ کا لندن یاترہ ہے ۔ملکی معیشت سسکیاں لے رہا ہے اور ہمارے حکمران لندن میں مہنگے ہوٹلوں میں رہائش پذیر ہیں ۔ غریب لوگوں کو دو وقت کی روٹی میسر نہیں اور ہمارے وزیروں، مشیروں اور ان کے پورے خاندانوں کو مفت بجلی، مفت پٹرول، مفت گیس ، مفت علاج معالجے کی سہولتیں اور اس کے علاوہ بھی بہت کچھ دیا جا رہا ہے ۔ مایوسی گناہ ہے مگر حقیقت سے منہ موڑنا بھی بہت خطر ناک عمل ہے اور آج یہ ایک حقیقت ہے کہ وطنِ عزیز کو اس وقت بیک وقت متعدد چیلنجز کا سامنا ہے ۔ عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد بننے والی مخلوط حکومت سے استدعا کی جاسکتی ہے کہ ‘‘
’’ وطن کی فکر کر ناداں ! مصیبت آنے والی ہے ۔۔۔تیری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں ‘‘
 

roshan khattak
About the Author: roshan khattak Read More Articles by roshan khattak: 300 Articles with 284979 views I was born in distt Karak KPk village Deli Mela on 05 Apr 1949.Passed Matric from GHS Sabirabad Karak.then passed M A (Urdu) and B.Ed from University.. View More