دنیائے صحافت کے روشن چراغ: شیریں ابو عاقلہ اور رعنا ایوب

 صحافت کی دنیا میں حق گوئی و بیباکی کے ساتھ اپنی دلیری کا پرچم لہرانے والی الجزیرہ نیوز چینل کی رپورٹر شیریں ابو عاقلہ کو غربِ اردن میں اسرائیلی کارروائی کے دوران گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا ۔ 51 سالہ شیریں ابو عاقلہ کو اسرائیلی فوجیوں نے 'جان بوجھ کر' گولی ماری اور الجزیرہ کے پرڈیوسر سمیت یروشلم سے شائع ہونے والے قدس اخبار کے فلسطینی صحافی علی سمودی کو بھی پیٹھ میں گولی ماری لیکن ان کی حالت فی الحال مستحکم بتائی جاتی ہے۔ شیریں ابو عاقلہ تین جنوری سن 1971 کویروشلم کے اندر فلسطینی عرب مسیحی خاندان میں پیدا ہوئی ۔ مشرقی یروشلم کی رہائشی ابو عاقلہ نے اردن یونیورسٹی برائے سائنس اور ٹیکنالوجی میں آرکیٹیکٹ کی تعلیم حاصل کی ۔ امریکی شہریت کے باوجود وہ سن 1997 میں الجزیرہ سے منسلک ہوئیں اور فلسطینی علاقوں سے رپورٹنگ کرتی تھیں۔ شیرین کی حب الوطنی انہیں سن 2008، 2009، 2012، 2014 اور 2021 میں غزہ پر اسرائیلی حملوں کے دوران میدان جنگ میں لے گئی۔ اس کے برعکس ہندوستان میں دیش بھگتی کے نام پر سرکار کی چاپلوسی کرکے جیب بھرنے والے بھول کر بھی لداخ نہیں جاتے اسی لیے ان نامردوں کی دنیا میں کوئی پذیرائی نہیں ہوتی۔

اسرائیل فی الحال غربِ اردن میں فلسطینی حملوں کے خلاف چھاپے ماررہا ہے۔ جینن میں پناہ گزین کیمپ طویل عرصے سےغاصب اسرائیل کے نشانے پرہیں ۔شیرین کی ہلاکت کے بعد اپنی غلطی کا اعتراف کرنے کے بجائے اسرائیل کے وزیر اعظم نے الٹا قتل کا الزام فلسطینیوں پر لگاتے ہوئے کہا 'امکان ہے فائرنگ تبادلے کے دوران اُنھیں فلسطینی بندوق برداروں نے ہی گولی مار دی ہو‘۔ یہ نیفتالی کی بزدلانہ منافقت ہے۔ اس میں اگر ہمت ہوتی تو کہہ دیتا کہ ہم نے ابو عاقلہ کو موت کے گھاٹ اتارا ہے لیکن ہندوتوا یا صہیونیت کے حاملین سے اس کی توقع نہیں کی جانی چاہیے ۔ ایک خاتون کی دلیرانہ رپورٹنگ نے ان بزدلوں کو آئینہ دکھا دیا اور وہ خود اس میں اپنا کریہہ چہرا دیکھ کر یہ ڈر گئے ۔ اسرائیلی وزیر اعظم نیفتالی بینٹ کی اس جھوٹ سے بات نہیں بنی اور دنیا بھر میں زبردست بدنامی ہونے لگی تو انہوں نے اس معاملے کی تفتیش کے لیے اسرائیل اور فلسطین دونوں کی مشترکہ تفتیشی ٹیمیں تشکیل دینے کی پیش کش کی ہے۔ یہ دراصل اپنے جرائم کی لیپا پوتی کرنے کی ایک سازش ہے اس لیےفلسطینیوں نے اسے قبول نہیں کیا۔ ایک طرف الزام تراشی اور دوسری جانب تفتیش کی پیش کش خود بتاتی ہے کہ ان کی نیت ٹھیک نہیں اور یہ ناٹک غیر جانبدارانہ نہیں ہوسکتا ہے۔ اس کے باوجود یہ اس مذکورہ پیشکش نے اسرائیل کے بلند بانگ دعووں کی پول کھول دی ہے اور وہ عالمی دباو میں اپنی مدافعت کرنے پر مجبور ہوگیا ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم نیفتالی کی لیپا پوتی اس وقت کھل گئی جب شیریں ابو عاقلہ کے جنازے میں شریک ہزاروں افراد پراسرائیلی پولیس نے حملہ کیا یہاں تک کہ تابوت بھی گر گیا۔ مقامی ریڈ کراس کمیٹی کے مطابق پولیس کے دھاوے سے کم از کم تینتیس افراد زخمی ہوئے اور عالمی برادری نے اس سانحہ کو انتہائی افسوس ناک قرار دیا ۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ اسرائیلی پولیس نے اس پر معافی مانگنے کے بجائے الٹا چھ فلسطینیوں کو گرفتار کرلیا۔ شیریں ابو عاقلہ کی الوداعی میموریئل سروس فلسطینی صدر محمود عباس کی رہائش گاہ واقع راملہ میں ادا کی گئی اور سرکاری سطح پر آخری رسومات کی ادائیگی کے بعد ہی ان کے تابوت کو یروشلم منتقل کیا گیا تھا۔ فلسطینی رہنما حنان اشروی کے بقول،'' تابوت برداروں پر بھی اسرائیلی پولیس کی کارروائی اسرائیل کے غیر انسانی رویے کی عکاس ہے۔‘‘

امریکا کے وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ خاتون صحافی کے جنازے کے جلوس میں اسرائیلی پولیس کی مداخلت قابلِ افسوس ہے۔ بلنکن نے مزید کہا کہ ہر خاندان کا یہ حق ہے کہ وہ اپنے مرحوم کی آخری رسومات کو محبت اور احترام کے ساتھ ادا کرے۔اس صورتِ حال پر امریکی صدر جو بائیڈن نے وائٹ ہاؤس کی ایک میٹنگ میں غورو خوض کیا اور اس کے بعد میں ا س اردنی حکمران شاہ عبداللہ ثانی کے ساتھ کی گفتگو بھی کی۔یورپی یونین کی جانب سے ایک ٹویٹ میں کہا گیا کہ،''سینٹ جوزف ہسپتال کے پرتشدد مناظر قابلِ افسوس ہیں اور ایسے موقع پر اسرائیلی پولیس کا طاقت و قوت کا غیر ضروری استعمال بھی غیر مناسب تھا۔ فرانسیسی قونصل جنرل نے بھی ہسپتال میں پولیس کے تشدد کو انتہائی افسوسناک قرار دیا۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انٹونیو گوٹیرش کے ترجمان نے بتایا کے اسرائیلی پولیس کی کارروائی سے عالمی ادارے کے سربراہ کو صدمہ پہنچا ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے بھی شیریں ابو عاقلہ کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے اس واقعے کی فوری طور پر شفاف اور غیر جانبدار تفتیش کا مطالبہ کیا ۔

اسرائیل کو دنیا کی سمارٹ ترین جمہوریت کے طور پر جانا جاتا ہے لیکن آزادیٔ صحافت کے باب میں اس کا ریکارڈ شرمناک ہے۔وہ ہمیشہ الجزیرہ کی تنقید کرتا رہا ہے کیونکہ اس چینل کے بہادر صحافی برابر اس کے جھوٹ کو بے نقاب کرتے رہے ہیں ۔گذشتہ سال یروشلم میں ایک مظاہرے کے دوران الجزیرہ کے ایک رپورٹر کو حراست میں لیا گیا تھا۔ الجزیرہ کے مطابق حراست میں نامہ نگار گیوارا بودیری کا ہاتھ ٹوٹ گیا تھا۔ اس سے قبل سن 2018 میں غزہ کے اندرپرتشدد مظاہروں کی خبر دینے والے ایک صحافی کو بھی اسرائیلی سکیورٹی فورسز نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ گذشتہ برس مئی میں اسرائیلی فضائی حملے میں غزہ میں ایک کثیر المنزلہ عمارت کو تباہ کر دیا جس میں کئی غیر ملکی نیوز چینلز کے دفاتر تھے۔ سوال یہ ہے کہ اسرائیل آخر ذرائع ابلاغ کا دشمن کیوں ہے؟ اس سوال کا صرف ایک جواب ہے کہ یہ اس کے ان ظالمانہ اقدامات کی پردہ پوشی ہے جس کو یہ صحافی مہذب دنیا تک پہنچاتے ہیں اور اس کے پاکھنڈ کو بے نقاب کرتے ہیں ۔ اسرائیل نے 1967 سے غربِ اردن پر غاصبانہ قبضہ کررکھا ہے ۔ اس علاقے میں تقریباً 30 لاکھ فلسطینی آباد ہیں مگر اسرائیل نے وہاں 130 سے زیادہ بستیاں آباد کرکے تقریباً پانچ لاکھ سے زیادہ یہودیوں کو بسادیا ہے۔ یہ ساری زمینیں فلسطینیوں سے چھین کر لی گئی ہیں اور گزشتہ سترّ سالوں سے آزادی کے متوالےاس ناپاک شجر کو جڑ سے اکھاڑنے کی جدو جہد کررہے ہیں جسے عالمی طاقتیں کھاد اور پانی دے رہی ہیں اور ان کی مدد سے یہ ٹکا ہوا ہے۔

اسرائیل سے دوستی پر فخر کرنے والی حکومتِ ہند کا حال بھی بہت زیادہ مختلف نہیں ہے ۔ اس کا سب سے بڑاثبوت بیباک صحافی رعنا ایوب سے اس کی خوفزدگی ہے۔ رعنا ایوب کی ہراسانی کا الزام کسی للو پنجو نے نہیں بلکہ ا قوام متحدہ کے انسانی حقوق کی کونسل نے ہندوستانی سرکار پر لگایا ہے۔اقوام متحدہ کے ادارے یو این ایچ آر سی نے رعنا ایوب کے خلاف درج مقدمات کو ہراسانی کی کارروائی قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’’ایک تحقیقی صحافی اور انسانی حقوق کی کارکن رعنا ایوب دائیں بازو کے ہندو قوم پرست تنظیموں کی طرف سے آن لائن حملوں اور دھمکیوں کا نشانہ بن رہی ہیں۔ ان پر یہ حملے ملک میں مسلم اقلیتوں کو متاثر کرنے والے موضوعات پر بات کرنے، کورونا وبا سے ٹھیک سے نہ نمٹنے پر حکومت پر نکتہ چینی کرنے اور حال ہی میں حجاب پر پابندی جیسے معاملات پر تبصروں کی وجہ سے ہو رہے ہیں۔انہیں جان سے مار دینے تک کی دھمکیاں دی گئی ہیں۔‘‘بیان میں رعنا ایوب کے خلاف حالیہ قانونی کارروائی کی بابت یہ کہا گیا کہ حکام رعنا کو قانون کی آڑ میں پریشان کر رہے ہیں۔ فراڈ اور منی لانڈرنگ کے بے بنیاد الزامات لگا کر چھ ماہ میں دوسری مرتبہ ان کے بینک اکاونٹ اور دیگر اثاثے منجمد کر دیئے گئے‘‘۔ اقوام متحدہ کی جانب یہ سخت تبصرہ جہاں حکومت ہند کے لیے شرمناک ہے وہیں رعنا ایوب کی خاطر باعثِ فخر ہے ۔

معروف امریکی روزنامہ 'واشنگٹن پوسٹ‘ نے بھی رعنا ایوب کی حمایت میں پورے صفحے پر ایک بیان شائع کیا ہے، جس میں 'ہندوستان کے اندرآزاد پریس پر حملے‘ کا ذکرکرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ انہیں 'تعصب پر مبنی تفتیش‘ کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔رعنا کے لیے یہ کوئی اعزاز سے کم نہیں ہے ورنہ ارنب جیسے راگ درباری الاپنے والوں کو کون پوچھتا ہے؟ رعنا ایوب بھارتیہ جنتا پارٹی حکومت کی پالیسیوں کی سخت ناقد تو ہیں ہی لیکن انہوں نے گجرات فسادات اور فرضی اِنکاونٹرس پرآٹھ ماہ کا اسٹنگ آپریشن کرکے 'گجرات فائلز‘ کے نام کی کتاب لکھی جس کے مختلف زبانوں میں تراجم ہوئے اور دنیا بھر میں ہزاروں کی تعداد میں فروخت ہوئی ۔ اس کتاب میں نریندر مودی اور امیت شاہ کے حوالے سے کیے جانے والے انکشافات حکومت کے گلے کی ہڈی بنے ہوئے ہیں۔ اسی لیے 'ہندو آئی ٹی سیل‘ نامی ایک این جی او نے ان پر کورونا سے متاثرین کے لیے جمع کی جانے والی رقم میں خرد برد کا الزام لگایا اور اس کے بعد حکومتی ادارے انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ نے بینک میں جمع 1.77 کروڑ روپے منجمد کر دیئے۔ یہ انہیں بدنام کرنے کی منصوبہ بند سازش تھی جس کی عالمی پیمانے پر مذمت ہوئی۔

رعنا ایوب کے مطابق اُنہیں نہ صحافت کی اجازت دی جا رہی ہے اور نہ ہی وہ معمول کی زندگی گزار پا رہی ہیں۔ اس کا ایک ثبوت اس وقت سامنے آیا جب وہ لندن کے اندر انٹرنیشنل سینٹر فار جرنلسٹس (آئی سی ایف جے) کے زیرِِ اہتمام ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے جا رہی تھیں۔ وہاں اُنہیں سوشل میڈیا پر ٹرولنگ جیسے موضوعات پر اظہارِ خیال کرنا تھا۔ لندن کے بعدانہیں اٹلی جا کر بین الاقوامی صحافتی میلے میں شرکت کرنا تھی اورہندوستان میں جمہوریت کے موضوع پر اظہارِ خیال کرنا تھا لیکن ممبئی ایئرپورٹ پر امیگریشن حکام نے روانگی سے قبل ان کو جہاز میں سوار ہونے سے روک دیا ۔وہ اس مذموم کوشش میں ناکام رہے کیونکہ بعد میں عدالت نے اجازت دے دی اور عالمی فورم میں انہوں نے کھل کر حکومت پر تنقید کی ۔ ان کی تقریر کی ویڈیو دنیا بھر میں خوب وائرل ہوئی جو اپنے آپ میں ایک دستاویز کی حیثیت رکھتی ہے۔ شیرین ابو عاقلہ ہوں یا رعنا ایوب یہ دنیائے صحافت کے ایسے روشن چراغ ہیں جن ڈرایا اور دھمکایا نہیں جاسکتا ۔ انہیں جیسے صحافیوں نے حق گوئی اور بیباکی کی شمع روشن کررکھی ہے۔
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1448937 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.