بہت نکلے میرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

8؍ سال قبل 26؍ مئی 2014 کو وزیر اعظم نریندر مودی کی پہلی بار حلف برداری ہوئی تھی ۔ انہوں نے چونکہ اپنے آپ کو ایک عام چائے والے کے طور پر پیش کیا تھا اس لیے ملک کا ہر غریب مسکین یہ محسوس کررہا تھا کہ ان میں سے ایک بلکہ وہ خود وزیر اعظم بن گیا ہے۔ نریندر مودی نے اقتدار سنبھالنے کے بعد مارگ درشک منڈل ( رہنما مجلس) قائم کرنے کا انقلابی فیصلہ کیا۔ اس مجلس میں 75؍ سال یا اس سے زیادہ کے سارے رہنماوں کو بھیج دیا گیا ۔ اس فیصلے کو پارٹی اور حکومت میں نیا خون لانے کا غماز ٹھہرایا گیا لیکن وقت کا پہیہ رکتا کہاں ہے ؟ فی الحال مودی جی کی عمر بھی 72 سال ہوچکی ہے۔ 2 برس بعد ہونے والے انتخاب کے ساتھ وزیر اعظم اور مارگ درشک منڈل کے درمیان صرف ایک سال کا فاصلہ رہ جائے گا ۔ اب سوال یہ ہے کہ پارٹی اور قوم کی خاطر جو کچھ مودی جی نے اپنے استاد لال کرشن اڈوانی اور دیگر لوگوں کے لیے پسند کیا تھا کیا اس اصول پر خود کاربند ہوں گے؟ اس سوال کا جواب طے کرے گا کہ وہ زبان کے کتنے پکےّ ، اپنی پارٹی کے کیسے وفادار اور ملک و قوم کے کس قدر خیر خواہ ہیں ۔ مذکورہ منافقت کے کھلنے کا وقت دور نہیں الاّ یہ کہ وہ انتخاب ہار جائیں اور مٹھی بند کی بند رہ جائے ۔

وزیر اعظم نے ابھی حال میں یعنی 12/مئی 2022 کو ایک تقریر کی اس سے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ سینٹرل وسٹا میں ان کا جو محل تعمیر ہورہا ہے اس سے نکلنے کا وہ ارادہ نہیں رکھتے ۔ انہوں نے اپنے خطاب میں فرمایا ’’ آج ملک میں ہماری حکومت کے آٹھ سال پورے ہورہے ہیں اور جب آٹھ سال پورے ہورہے ہیں تو ہم ایک نئے عزم کے ساتھ، نئی توانائی کے ساتھ آگے بڑھنے کے لئے تیاری کرتے ہیں‘‘ ۔ اس جملے میں کوئی قابلِ اعتراض بات نہیں کیونکہ اگلے تین سال تک کا م کرنے کی خاطر بھی اس بڑھاپے میں عزم و توانائی کی بہت ضرورت پڑتی ہے۔ اس کے بعد وزیر اعظم نے ایک قصہ کی مدد سے اپنے من کی بات کچھ اس طرح بیان کی کہ ’’مجھے ایک دن ایک بہت بڑے لیڈر ملے ۔ ویسے ہماری مسلسل سیاسی مخالفت بھی کرتے رہے ہیں۔ لیکن میں ان کا احترام بھی کرتا رہا ہوں۔ کچھ باتوں کے سبب ان کو تھوڑا شکوہ و گلہ تھا‘‘۔ مودی جی نے اشارے کنائے میں ظاہر کردیا کہ وہ شرد پوار کا ذکر کررہے ہیں کیونکہ وہی سنجے راوت کے خلاف ای ڈی کی شکایت لے کر وزیر اعظم سے ملے تھے۔

مودی کے الفاظ میں آگے کی حکایت یوں ہے’’وہ (پوار) ایک دن ملنے آئے۔ تو کہا مودی جی ،دو دو بار آپ کو ملک نے وزیر اعظم بنادیا۔ اب کیا کرنا ہے‘‘۔ کاش کہ شردپوار یہ بھی کہہ دیتے کہ ہندو تہذیب کے مطابق اب آپ کے سنیاس (سبکدوشی)لینے کا وقت قریب آلگا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ پوار کی اس نصیحت کو مودی جی حذف کردیا ہو خیر ان کے درمیان کیا بات چیت یہ تو وہ دونوں ہی جانتے ہیں ۔ اس کے جواب میں وزیر اعظم کہہ سکتے تھے کہ میرا کیا ہے ۔ وقت آنے پر میں جھولا اٹھا کر چل دوں گا اور پھر کسی اسٹیشن پر چائے کی دوکان کھول لوں گا لیکن انہوں نے یہ نہیں کہا بلکہ جوکچھ بولے اس سے ساری دنیا حیران رہ گئی۔ مودی جی کے بقول ’’ ان (شرد پوار ) کو لگتا تھا کہ دو مرتبہ وزیر اعظم بن گیا مطلب بہت کچھ ہوگیا۔ ان کو پتہ نہیں ہے کہ مودی کس مٹی بنا کا ہے؟ گجرات کی سرزمین نے اس کو تیار کیا ہے اور اس لئے جو بھی ہوگیا اچھا ہوگیا، چلو اب آرام کرو، نہیں میرا خواب ہے – سیچوریشن(saturation)‘‘۔وزیر اعظم کا یہ بیان سن کر بے ساختہ غالب کا یہ مشہور شعر یاد آگیا؎
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے

اپنے آپ کو چائے فروش کہنے والے نریندر مودی کو خود کے کسی خاص مٹی سے بنے ہونے کا احساس وزیر اعظم بننے کے بعد ہوا۔ اقتدار کا سرورجب چڑھتا ہے تو اس سے برضا و رغبت دستبردار ہونا تقریباً ناممکن ہوجاتا ہے۔ اس لیے مودی جیسے لوگ حیلہ بہانہ ڈھونڈ کر کہتے ہیں ’’ اب آٹھ سال کے اس اہم موقع پر، ایک بار پھر کمر کس کے، سب کا ساتھ لے کر، سب کی کوشش سے آگے بڑھنا ہی ہے اور ہر ضرورت مند ہو، ہر حق دار کو اس کا حق دلانے کے لئے جی جان سے لگ جانا ہے۔ میں نے پہلے کہا کہ ایسے کام مشکل ہوتے ہیں، لیڈر بھی ان کو ہاتھ لگانے سے ڈرتے ہیں۔ لیکن میں سیاست کرنے کے لئے نہیں، میں صرف اور صرف اہل وطن کی خدمت کرنے کے لئے آیا ہوں‘‘۔ یہ اچھی خدمت ہے کہ جس میں ایک ایسے ملک کے اندر جہاں بھکمری کا شکارافراد کی سب سے بڑی آبادی موجود ہے وہاں کا سربراہ مملکت دس لاکھ کا لباس زیب تن کرتا ہے اور ساڑھے آٹھ ہزار کروڈ کے جہاز میں سفر کرتا ہے۔ وزیر اعظم کے الفاظ چغلی کھا رہے ہیں کہ ’مارگ درشک منڈل‘ نامی سیاسی کوڑے دان میں جانے کا ان کا ارادہ نہیں ہے۔ اس میں دوسروں کو بھیجناتو آسان ہےلیکن خود جانا نہایت مشکل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر سیاست کی دنیا کو خیرباد کہنے والے لوگوں پر یہ شعر صادق آتا ہے؎
نکلنا خلد سے آدم کا سنتے آئے ہیں لیکن
بہت بے آبرو ہو کر ترے کوچے سے ہم نکلے

وزیر اعظم باتوں کے دھنی ہیں۔ ان کے خوش کن کلمات کو سن کر انسان سر دھنتا رہ جاتا ہے ۔ مثلاً انہوں نے اپنے خطاب میں بڑی محبت سے کہا ’’ان منصوبوں میں جن بہنوں کو، جن کنبوں کو فائدہ ملا ہے وہ میرے آدیواسی سماج کے بھائی بہن، میرے دلت ، پسماندہ طبقے کے بھائی بہن، میرے اقلیتی سماج کے بھائی بہن، اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ معلومات کی عدم دستیابی کے سبب متعدد لوگ اسکیموں کے فائدے سے محروم رہ جاتے ہیں۔ کبھی کبھی تو اسکیمیں کاغذ پر ہی رہ جاتی ہیں۔ کبھی کبھی اسکیموں کا فائدہ بے ایمان لوگ اٹھا لے جاتے ہیں، لیکن جب ارادہ ہو، نیت صاف ہو، نیکی سے کام کرنے کا ارادہ ہو اور جس بات کو لے کر میں ہمیشہ کام کرنے کی کوشش کرتا ہوں، وہ ہے – سب کا ساتھ – سب کا وکاس کا جذبہ، جس سے نتیجے بھی برآمد ہوتے ہیں‘‘۔ ان چکنی چپڑی باتوں میں سرکاری اسکیموں سے بے ایمان لوگوں کے مستفید ہونے کے علاوہ کسی کا حقیقت سے کوئی دور کا بھی واسطہ نہیں۔ جس گجرات میں وزیر اعظم سب کا وکاس (ترقی) کی بات کررہے ہیں وہیں چند سال قبل ’وکاس پاگل ہوگیا ہے‘‘ کا نعرہ بھی لگا تھا ۔

وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں اقلیت اور پسماندہ طبقات کی فلاح و بہبود کا نام لے کر ذکر کیا اس لیے اس کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ مرکز کا اقتدار سنبھالنے سے قبل بارہ سال نریندر مودی گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے ۔ اس دوران یہ دعویٰ کیا جاتا تھا کہ گجرات ایک آدرش ( مثالی) صوبہ ہے ۔ گجرات کے اندرمودی جی کے زیر نگیں ہونے والے ’سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘ کا اندازہ نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو کے اعداد و شمار سے لگایا جاسکتا ہے۔ این سی آر بی کے مطابق، 2014میں ختم ہونے والی دہائی کے اندر گجرات میں دلتوں کے خلاف مجرمانہ مقدمات کےسزا کی شرح 5فیصد اور قبائلیوں کے خلاف یہ شرح 4.3فیصد رہی جبکہ قومی اوسط باالترتیب سے 29.2فیصد اور 25.6فیصد تھا ۔ یہ کوئی معمولی فرق نہیں ہے یعنی 100میں سے 95 ملزم بری ہو جاتے تھے جبکہ تعزیرات ہند کی دفعہ کے تحت درج تمام فوجداری مقدمات میں سزا کی اوسطاًقومی شرح 2014میں 45.1فیصد تھی۔ یہ تھی مودی جی کے ’سب کا ساتھ سب کا وکاس ‘ کی حقیقت جو صوبائی سطح سے اٹھ کر اب پورے ملک پر محیط ہوگئی ہے۔

مودی جی نے گجرات کے اندر پہلا انتخاب جیتنے کی خاطر گودھرا کی سابرمتی ایکسپریس میں لگی آگ کے بہانے سے جس فرقہ وارانہ فسادات کی سرپرستی اس کی مثال نہیں ملتی لیکن اگر کوئی سمجھتا ہے کہ ان کے دہلی چلے جانے سے یہ سلسلہ بند ہوگیا تو وہ اس کی غلط فہمی ہے۔ امسال رام نومی کے موقع پر گجرات کے تین شہروں میں تشدد ہوا اور اس کے بعد مسلمانوں کو خوفزدہ کرنے کی خاطر کھمبات میں بلڈوزر بھی چلایا گیا ۔ کیا اسی کا نام سب کا ساتھ اور سب کا وکاس ہے؟ گجرات کے ایک دلت رکن اسمبلی جگنیش میوانی کو بلا وجہ گرفتار کرکے آسام لے جایا گیا ۔ اس پر جھوٹی ایف آئی درج کروائی گئی ۔ وہ وہاں سے ضمانت پر رہا ہوکر لوٹے تو تین ماہ کی سزا سنوا دی گئی ۔ وزیر اعظم نے اپنے خطاب میں جو اقلیتوں اور دلتوں کے وکاس کی بات کی ہے کیا وہ اس طرح کیا جاتا ہے؟ سیاست دانوں کی کتھنی اور کرنی میں فرق ایک عام بات ہے لیکن وزیر اعظم کو اس معاملے میں سب پر امتیاز حاصل ہے اس کے باوجود ان کا یہ کہنا کہ وہ الگ مٹی سے بنے ہوئے ہیں اس لیے ان کا صرف دوبار وزیر اعظم بننا کافی نہیں ہے اور آسانی سے مارگ درشک منڈل میں نہیں جائیں گے بالکل درست ہے۔ استاد ذوق نے کیا خوب کہا ہے (ترمیم میں معذرت کے ساتھ)؎
اے ذوقؔ اقتدار کو منہ نہ لگا ئیو
چھٹتی نہیں ہے منہ سے یہ کافر لگی ہوئی
 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1448734 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.