گیان واپی مسجد کا قضیہ : گڑے مردے اکھاڑے جارہے ہیں

سنا ہے پرانی شراب میں زیادہ نشہ ہوتا ہے لیکن اسے بازار میں بیچنے کے لیے نئی بوتل میں بھر کر لانا پڑتا ہے۔ گیا ن واپی مسجد قضیہ میں بی جے پی یہی کررہی ہے ۔ وہ ایک پرانی سازش کو نئے انداز میں پیش کرکے پھر سے اپنے سیاسی مقاصد کو حاصل کرنے میں جٹ گئی ہے۔ ’نیا جال لائے پرانے شکاری ‘ تو سبھی نے سنا ہے لیکن اب تو نئے شکاری پرانا جال لے کر آئے ہیں ۔ بابری مسجد کے خلاف چلائی جانے والی رام مندر تحریک میں ایودھیا کے اندر مودی ، یوگی اور شاہ کہیں نظر نہیں آتے ۔ اس وقت ان کے استاد اڈوانی ، اویدیہ ناتھ اور جوشی دکھائی دیتے تھے۔ وقت کے ساتھ کہانی کے کردار تو بدل گئے لیکن نہ شکار بدلا اور نہ جال میں کوئی تبدیلی ہوئی ۔ اس طرح کی سیاسی سازش کا براہِ راست شکار مسلمان ہوتے ہیں جن کے خلاف نفرت پھیلا کر ان سے عبادتگاہ چھین لی جاتی ہے۔ اس بالواسطہ شکار ہندو ہوتے ہیں جن کا جذباتی استحصال کرکے بنیادی مسائل کو حل کیے بغیر ان کا ووٹ پر ڈاکہ ڈال کر اقتدار پر قبضہ کیا جاتا ہے۔ بار بار ایک ہی تیر سے شکار ہونے والی احمق اکثریت پر یاسین ضمیر کا یہ شعرصادق آتا ہے؎
کس سے کروں میں اپنی تباہی کا اب گلہ
خود ہی کماں بہ دست ہوں خود ہی شکار میں

ملک میں رائج جمہوری سیاسی نظام کا المیہ یہ ہے کہ اکثریت کی حماقت کی قیمت اقلیت چکاتی ہے اور اس کا منافع سیاستدانوں کو ہوتا ہے۔ افسوس کہ ایک گھسے پٹے جال سے بار بار رائے دہندگان کا شکار کیا جاتا ہے اور وہ ہر بار اس میں بصد شوق پھنس جاتے ہیں۔ اِدھر انتخاب ختم ہوا اُدھر مفت راشن میں سے گیہوں غائب ہوگیا۔ مہنگائی پچیس سال میں سب سے اوپر پہنچ گئی۔ ایسے میں ٹھگے گئے عوام کی توجہ اس دھوکہ دھڑی سے ہٹانے کی خاطر گیان واپی مسجد کے اندر شیولنگ کے ملنے کی افواہ اڑا دی گئی۔ بس پھر کیا تھا لوگ گیہوں اور مہنگائی کو بھول کر مسجد کو مندر بنانے کے لیے فکر مند ہوگئے اور پانچ سو روپیہ فی لیٹر پٹرول خریدنے پر رضامندی کا اظہار کردیا۔ اس طرح اربابِ اقتدار کے تئیں ناراضی کا خطرہ ٹل گیا اور خزانہ بھی بھرنے لگا تاکہ پیٹ پر پتھر باندھ کر ’مندر وہیں بنائیں گے‘ کا نعرہ لگانے والوں کو لوٹ کو حکمراں طبقہ عیش کر سکے ۔

مسجدوں کے خلاف تحریک چلا کر اپنی سیاست چمکانے والے جال کے تانے بانے چار دھاگوں سے بنتے ہیں ۔ سب سے پہلے کچھ شر پسند مسجد کے اندر مورتیاں نصب اور دریافت کرتے ہیں۔ انتظامیہ ان کو ہٹانے کے بجائے مسجد کو بند کردیتا ہے۔ نچلی عدالت اپنے آقاوں کے اشارے پر پہلے سے تیار شدہ نامعقول فیصلہ آناً فاناً فریق ثانی کو سنے بغیر صادر کردیتی ہیں۔ اس کی بنیاد پر سیاستداں عوام کے درمیان نفرت انگیزی کی مہم چلا کر انتخابی کامیابی حاصل کرلیتے ہیں ۔ بابری مسجد کے معاملے میں تو عدالتِ عظمیٰ سے آستھا (عقیدت) کی بنیاد پر اس ظلم و زیادتی کی توثیق بھی کرالی گئی تھی ۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں بابری مسجد کے شہید کرنے کو جرم قرار دیا مگرنچلی عدالت سے اس کے مجرمین کو ثبوت کی عدم موجودگی کے بہانے رہا کروالیا گیا۔ جس مندر کا شیلا نیاس پہلے دو مرتبہ ہوچکا تھا اس کا پھر سے وزیر اعظم کے ہاتھوں سنگِ بنیاد رکھوایا گیا لیکن جب یہ سب کرنے کے باوجود رام مندر کے نام پر ووٹ ملنامشکل ہوگیا تو گیان واپی مسجد کا نیا قضیہ کھڑا کردیا گیا تاکہ پرانی شراب کو اس نئی بوتل میں بیچا جاسکے ۔

بنارس وزیر اعظم کا حلقۂ انتخاب ہے۔ عوام کو خوش کرنے کی خاطر جاپان کے سیاحتی شہر کیوٹو کے طرز پر اس کی تعمیر نو کی گئی۔ کاشی وشوناتھ کازبردست کاریڈور بنایا گیا تاکہ دنیا بھر کے سیاح وہاں آئیں تو انہیں عالمی سطح کی سہولیات مہیا ہوں ۔ وارانسی میں مذہبی سیاحت کے فروغ سے خوشحالی آئے۔ وزیر اعظم نے بڑے طمطراق سے اس کاریڈور کا افتتاح کیا۔ اس سے بات نہیں بنی تو گنگا میں ڈبکی لگائی اور اپنے سارے وزرائے اعلیٰ کو شہر میں بلا کر دربار سجایا اور خوب تشہیر کی ۔ اس کے باوجود وارانسی کی تین میں سے ایک کینٹ اسمبلی حلقہ میں بی جے پی کو صرف دس ہزار ووٹ سے کامیابی ملی یعنی وزیر اعظم کے حلقۂ انتخاب کے ایک حصے میں ہار کا خطرہ لاحق ہوگیا۔ اس کے بعد قانون ساز کونسل کے انتخابات میں صوبائی سطح پر بی جے پی نے 36میں سے 33 نشستوں پر کامیابی درج کرائی مگر وارانسی میں سماجوادی پارٹی کے بعد تیسرے نمبر پر رہی اور ایک آزاد امیدوار جیت گیا۔
قانون ساز کونسل کے انتخاب کا پیغام یہ تھا کہ عوام کو کاشی وشوناتھ مندر کی تعمیر میں دلچسپی نہیں ہے ۔ ان کا جذباتی استحصال مسجد کی تخریب میں الجھا ئے بغیر ممکن نہیں ۔ گیان واپی مسجد کا قضیہ دراصل 2024 کی کامیابی کو یقینی بنا نے کے لیے ہے ۔ مسجد کے خلاف ایک سازش کے تحت کچھ خواتین نے مسجد میں پوجا پاٹ کی اجازت مانگی ۔ اس پر نچلی عدالت نے سروے کے لیے کمیشن مقرر کردیا۔ انجمن انتظامیہ یعنی مسجد کی مینجمنٹ کمیٹی کی طرف سے الٰہ آباد ہائی کورٹ میں نچلی عدالت کے جاری کردہ سروے کےحکم کو 1991 کے پلیسز آف ورشپ ایکٹ کے خلاف ہونے کی عرضی داخل کی گئی۔ اس معاملے میں پچھلے تیس سالوں سے ایک اسٹے بھی موجود ہےجس کی خلاف ورزی ۔ نچلی عدالت نہیں کرسکتی ۔ عدالت کا کام قانون بنانا نہیں بلکہ اسے نافذ کرنا ہے اس کے باوجود آئین کو پامال کرتے ہوئے ہائی کورٹ نے انجمن انتظامیہ مسجد کی عرضی کو خارج کردیا ۔ اس طرح گویا عدالتی سانٹھ گانٹھ کے ساتھ وہ گھناونا کھیل پھر سے شروع ہوگیاجس کا ذکر راجیش ریڈی کے اس شعر میں ہے ؎
نئی لاشیں بچھانے کے لیے ہی
گڑے مردے اکھاڑے جارہے ہیں

اس معاملے عدالت کے معاندانہ رخ اختیار کرتے ہوئے مسلم فریق کے ایڈووکیٹ کمشنر اجئے مشرا پر جانبداری کا الزام کے باوجود نہیں ہٹایا۔ ویڈیوگرافی کی خاطر چابیاں دستیاب نہ ہوں تو تالے توڑنے کی اجازت دی اور رخنہ پیدا ڈالنے والوں کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے کی بھی ہدایت دی ۔ عدالت کے اندر سروے رپورٹ 17 مئی تک پیش ہونا تھا ۔ اتفاق سے اسی دن سپریم کورٹ میں جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ اور پی ایس نرسمہا کی بنچ کے سامنے اس معاملے کی سماعت بھی ہونی تھی اس لیے درمیان میں ایک نیا ڈرامہ کھیلا گیا۔ انجمن انتظامیہ کے وکیل رئیس احمد انصاری کے مطابق ہندو فریق کا ہری شنکر جین آخری دن کے سروے میں نہیں آیا ۔ ان کے بیٹے وشنو جین نے بتایا کہ والدبہت بیمار ہے لیکن اس نے فون کرکے وضو خانے کے فوارے کو شیولنگ قرار دے دیا ۔ یہ سن کروشنو جین عدالت پہنچ گئے اور وضوخانہ سیل کرنے کی عرضی لگا دی ۔

اس عرضی کافوراً تیار ہوجانا اور بارہ بجے سے قبل عدالت کا اس پر حکمنامہ جاری کردینا بتاتا ہے کہ یہ سب ایک طے شدہ سازش کا حصہ تھاکیونکہ عام طور پر دوپہر دو بجے کے بعد فریق ثانی کو اپنا موقف پیش کرنے کا موقع دیا جاتا ہے مگر اس کے بغیر تابڑ توڑ فیصلہ ملی بھگت کا اشارہ ہے۔عدالت نے یہ پھرتی اس روز دکھائی جس دن کوئی حکمنامہ جاری نہیں کرنے کی تجویز پاس ہوچکی تھی۔ اس کا منشا بظاہر عدالتِ عظمیٰ کے حکم سے قبل مسجد کا وضوخانہ بند کرکے نمازیوں کی تعداد بیس تک محدود کرنا تھا ۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں نہ تو سروے کو غیر قانونی قرار دیا اور نماز میں افراد کی پابندی کو درست ٹھہرایا۔ اس طرح توازن قائم کرنے کی کوشش کی۔ اترپردیش حکومت کی جانب سے سولیسیٹر جنرل نے شیولنگ کا ذکر کیا مسلم فریق نے اعتراض کیا تو عدالت نے اگر کے ساتھ اسے محفوظ رکھنے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ یہ مالکانہ حق کا معاملہ نہیں ہے یعنی ہندو فریق مسجد کو مندر بنانے پر اصرار نہیں کرسکتا۔

ایک طرف یہ سازش چل رہی تھی اور دوسری جانب اترپردیش کی یوگی سرکار نے ایک ایسی عرضی لگا دی جس پر یقین کرنا مشکل ہورہا ہے۔ ڈی جی سی سوِل مہندر پانڈے نے سوِل جج ڈویژن روی کمار دیواکر کی عدالت میں تین مطالبات کی گزارش داخل کی ۔ پہلے مطالبے میں کہا گیا کہ جس تالاب( حوض) کو سیل کیا گیا ہے اس کے چاروں طرف پائپ لائن اور نل ہیں ۔ اس کا استعمال نمازی وضو کے لیے کرتے ہیں ۔ تالاب کا علاقہ سیل ہونے کی وجہ سے نمازیوں کے لیے باہر انتظام کیا جائے۔ نمازیوں کےاستنجا خانہ کا بھی متبادل انتظام کیا جائےنیز تالاب کی مچھلیوں کو کہیں اور پانی میں چھوڑدیا جائے ۔ اب ذرا تصور کریں کہ اگر یہی مطالبات سماجوادی پارٹی یا کسی دوسری پارٹی کی سرکار کرتی تو بی جے پی والے اس پر کیسے آسمان سر پر اٹھا لیتے ؟

بابری مسجد کے تنازع سے موازنہ کیا جائے اس میں نیا یہ ہے کہ جس نفرت انگیز جھوٹ کو پھیلانے کی خاطر لال کرشن اڈوانی کو ائیر کنڈیشنڈ رام رتھ میں پورے ملک کا دورہ کرنا پڑا تھا وہ ذرائع ابلاغ کی مدد سے بیٹھے بٹھائے ہوگیا۔ اب اس جھوٹ کا پردہ فاش کرنا امت کی ذمہ داری ہے ۔ اسے اس ظلم کے خلاف آواز اٹھاکر اپنا احتجاج درج کرانا ہےنیز عدالتی چارہ جوئی بھی کرنی ہے ۔اس کے علاوہ ایسا نظام عدل قائم کرنے کی جدوجہد کرنا ہے جس میں اس طرح کی ناانصافی کسی کے ساتھ بھی نہ ہو۔ وہ نظامِ عدل و مساوات دین اسلام کے سوا کسی اور نظریہ کی بنیاد پر قائم نہیں ہوسکتا ۔ یہ آخری کام اگر نہیں کیا گیا تو یکے بعد دیگرے اس طرح کی سازشیں ہوتی رہیں گی اور ہماری حالت زار پریہ شعرصادق آتا رہے گا؎
نتیجہ پھر وہی ہوگا سنا ہے چال بدلے گا
پرندے بھی وہی ہوں گے شکاری جال بدلے گا

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449102 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.