فلسطینی صحافی کا قتل صہیونی بربریت کا بھیانک چہرہ

 اسرائیل کی سیاہ تاریخ حیوانیت و بربریت سے بھری پڑی ہے۔ پہلے صہیونی فوج اپنے فرض کی ادائیگی میں مصروف ایک نہتی خاتون صحافی شیرین ابو عاقلہ کا گولی مار کر قتل کردیتی ہے اور اس کے بعد مرحومہ کے جنازے میں شامل سوگواروں کو بھی ظلم و ستم کا نشانہ بناتی ہے اور ان کی میت کی بے حرمتی بھی کی جاتی ہے۔ بے شک اپنی موت کے بعد شیرین ابو عاقلہ فلسطینی قوم پرستی کی ایک نئی علامت بن کر ابھری ہیں۔ اسرائیلی فوج کی تمام زیادتیوں اور پابندیوں کے باوجود ہر دلعزیز فلسطینی رہنما یاسر عرفات کے جنازے سے بھی زیادہ لوگ شیرین ابو عاقلہ کے جنازے میں شامل تھے۔ وزیر اعظم نفتالی بینیٹ نے دنیا کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی خاطر ابو عاقلہ کے قتل کی ذمہ داری پہلے جینن کے ان فلسطینی حریت پسندو ں پر ڈال دی جن کے خلاف جاری فوجی آپریشن کے دوران اس ہولناک جرم کا ارتکاب کیا گیا۔لیکن جب چشم دید گواہوں اور خود اسرائیلی انسانی حقوق کی تنظیموں نے ویڈیو اور تصاویری شواہد سے یہ ثابت کردیا کہ جس جگہ ابو عاقلہ کو گولی ماری گئی وہاں دور دور تک کسی فلسطینی جنگجو موجود نہیں تھا اور نہ ہی وہاں کوئی جھڑپ ہوئی تھی تو اسرائیل نے پینترا بدل ڈالا۔ واشنگٹن پوسٹ کے انکشاف کے مطابق اسرائیلی حکومت اندرونی طور پر یہ تحقیقات کررہی ہے کہ ابو عاقلہ کی موت کس فوجی کے رائفل کی گولی سے ہوئی۔ لیکن اسرائیل کے ہی مقبول روزنامہ ’’ہارٹیز‘‘ نے اپنے ایک اداریہ میں یہ سوال اٹھایا ہے کیا یہ ممکن ہے کہ اسرائیل ڈیفنس فورسز خود اپنے جرم کی ایمانداری سے تحقیقات کرے گی۔ فلسطینی صحافی شیرین ابوعاقلہ کی موت پر امریکی کانگریس کے اراکین نے رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے اسرائیل پر شدید تنقید کی۔کانگریس اراکین آندرے کارسن اور الہان عمر نے امریکی حکومت پر زور دیا کہ وہ صحافی شیرین ابو عاقلہ کے مجرمانہ قتل پر اسرائیلی حکومت کو جوابدہ قرار دے کر اس واقعے کی عالمی سطح پر تحقیقات کرائے۔ درایں اثناء امریکی کانگریس کی مسلمان رکن الہان عمر نے اسرائیلی فوج پر الجزیرہ کی رپورٹرکے دانستہ قتل کا الزام عائد کرتے ہوئے اسرائیل کو دی جانے والی سالانہ 3 ارب 8کروڑ ڈالر کی امریکی فوجی امداد بند کرنے کا مطالبہ کیا۔انہوں نے کہا کہ امداد ایسے وقت میں جاری ہے جب اسرائیل فلسطینیوں کے گھروں کو مسمار کرتے ہوئے انہیں بے گھر کر رہا ہے۔ اس کے علاوہ ایک ہزار کو مغربی کنارے سے نکالنے کا منصوبہ بنا رہا ہے جو1947ء کے بعد سے سب سے بڑی اجتماعی بے دخلی ہے۔ انہوں نے سوال قائم کیا کہ کیا اس کے بعد بھی اسرائیلی ریاست کا انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں پر مواخذہ نہیں ہوگا۔ امریکی ایوان نمائندگان کی ڈیموکریٹک اسپیکر نینسی پیلوسی نے اس قتل کو ایک ’خوفناک سانحہ‘ قرار دیتے ہوئے’’مکمل، بامقصد اور فوری تحقیقات‘‘ کا مطالبہ کیا۔پیلوسی نے کہا کہ’’کانگریس دنیا بھر میں پریس کی آزادی کے دفاع کے لئے پرعزم ہیاور ہر صحافی، خاص طور پر جنگ زدہ علاقوں میں پیشہ وارانہ خدمات انجام دینے والے میڈیا کارکنوں کے تحفظ کے لئے پرعزم ہے۔‘‘جبکہ اسرائیلی استبداد کی بھینٹ چڑھنے والی ابو عاقلہ پہلی صحافی شہید نہیں ہیں۔ مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں صحافیوں کی زندگی ہر وقت داوپر لگی رہتی ہے۔ پچھلے دہائیوں میں اسرائیلی فوج نے 50 سے زائدفلسطینی صحافیوں کو شہید کیا۔ مہاجر فلسطینیوں کی گھر واپسی کے لئے منعقد کئے گئے مارچ کی رپورٹنگ کررہے دو صحافیوں احمد ابو حسین اور یاسر مرتضیٰ کوبھی اسرائیلی فوج نے ابو عاقلہ کی طرح جان بوجھ کر بغیر کسی اشتعال انگیزی کے قتل کر دیا تھا۔ انٹرنیشنل فیڈریشن آف جرنلسٹس،انٹر نیشنل سینٹر آف جسٹس فار فلسطین اور فلسطینی جرنلسٹس سنڈیکیٹ (پی جے ایس) نے انٹرنیشنل کریمنل کورٹ (آئی سی سی) میں اسرائیل کے خلاف فلسطینی صحافیوں کو سلسلے وار طریقے سے نشانہ بنانے کی شکایت درج کرائی ہے۔ گزشتہ دنوں الجزیرہ کی نمائندہ ابو عاقلہ جینن رفیوجی کیمپ میں جاری اسرائیلی فوجی آپریشن کی رپورٹنگ کے لئے موجود تھیں۔ انہوں نے بلٹ پروف جیکٹ اور ہیلمٹ پہن رکھا تھا جن پر روشن حروف میں ’’پریس‘‘ لکھا ہوا تھا۔ شاید اسی لئے ظالموں نے گولی تاک کے کان کے نیچے گردن کے اس حصے میں ماری جوہیلمٹ سے باہر تھا۔ ابو عاقلہ کے ایک ساتھی صحافی کو بھی گولی ماری گئی لیکن وہ خوش قسمتی سے زندہ بچ گیا۔ چونکہ سچ کے آئینے میں اسرائیل کو اپنا بدنما چہرہ دیکھنا پسند نہیں ہے اس لئے اسرائیل نے ابو عاقلہ کو راستے سے ہٹادیا۔ الجزیرہ سے اسرائیل کو خاص طور پر دشمنی ہے۔ اس نیوز چینل کا ہیڈ کوارٹر قطر میں واقع ہے لیکن اس کی عربی اور انگریزی نشریات دنیا بھر میں دیکھی جاتی ہیں۔ مشرق وسطیٰ اور خصوصاً فلسطین کے حوالے سے اپنی دیانت دارانہ فیلڈ رپورٹنگ کی وجہ سے الجزیرہ کا شمار دنیا کے معتبر ترین ذرائع ابلاغ میں کیا جاتا ہے اور اس کا کافی کریڈٹ ابو عاقلہ کی شاندار صحافتی کارکردگی کو جاتا ہے۔ شیرین ابو عاقلہ نے خود اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے صحافت کا پیشہ فلسطینیوں کے دکھ درد سے دنیا کو آگاہ کرنے اور ان کو انصاف دلانے کے مقصد سے اختیا رکیا تھا۔ وہ پچھلے پچیس برسوں سے مکمل ایمانداری اور بے خوفی سے فلسطینیوں پر ڈھائے جانے والے قابض اسرائیلی فوج کے تمام مظالم کی داستان الجزیرہ کے ذریعہ دنیا کو دکھا رہی تھیں۔ مغربی کنارہ میں فلسطینی زمین چرا کر ان پر یہودی آبادکاروں کے لئے بستیوں کی تعمیر ہو یافلسطینیوں کے گھروں کو منہدم کرکے ان کے سروں سے چھت چھین لینے کی سازش، غزہ میں فضائی بمباری ہو یا جینن میں فوجی کارروائی، ابو عاقلہ کی رپورٹوں نے اسرائیل کی ریاستی دہشت گردیوں اور نسلی تعصب کو دنیا کے سامنے پوری طرح بے نقاب کرکے رکھ دیا۔انہوں نے وائس آف فلسطین ریڈیو، عمان سیٹیلائٹ چینل وغیرہ میں بھی کام کیا۔ بعد ازیں وہ 1997ء میں الجزیرہ میڈیا نیٹ ورک سے وابستہ ہوگئیں۔ 2000ء میں دوسرے فلسطینی انتفادہ کی بیباکانہ رپورٹنگ سے انہوں نے شہرت حاصل کی۔شیرین کو اپنے وطن اور اپنے لوگوں کی فکر تھی، اپنے ایک پرانے ویڈیو انٹرویو میں اس کا ذکر انہوں نے یوں کیا تھا کہ :’’ میں نے صحافت کا انتخاب اسلئے کیا کہ لوگوں سے قریب ہوسکوں۔ حقیقت کو بدلنا آسان نہیں ہے ، لیکن کم ازکم میں اتنا کرسکتی ہوں کہ ان کی آواز کو دنیا تک پہنچاسکوں۔ ‘‘ شیرین ابوعاقلہ نے لبنان جنگ کے بعد غزہ جنگ کی رپورٹنگ بھی جراتمندی اور ایمانداری کے ساتھ کی۔ شیرین ابو عاقلہ رومن کیتھولک عقیدے کی عیسائی تھیں لیکن ان کے دل میں تمام فلسطینیوں کیلئے اتھاہ محبت اور ہمدردی کا دریا موجزن تھا۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی فلسطینیوں کے حق کی آواز بلند کرنے کیلئے وقف کردی تھی اور جان بھی اسی مقدس کاز کیلئے دے دی۔صہیونی حکومت نے انہیں اس لئے مروادیا کیونکہ وہ ان کی سچی رپورٹوں کی تاب نہیں لاسکی۔ لیکن اسرائیلی حکومت نے اگر یہ سمجھا تھا کہ شیرین ابو عاقلہ کا سفاکانہ قتل کرکے وہ ہمیشہ کیلئے ان کی زبان بند کرنے میں کامیاب ہوگئی ہے تو وہ سخت غلط فہمی کا شکار تھی۔ الجزیرہ کی دلیر صحافی مقبوضہ فلسطین میں پچیس برسوں پر محیط اپنی بے خوف، دیانتدارانہ رپورٹنگ کی وجہ سے پہلے صرف مشرق وسطیٰ کی ایک جانی پہچانی شخصیت تھیں لیکن پچھلے ہفتے اسرائیل ڈیفنس فورسز کے ہاتھوں شہید کئے جانے کے بعد وہ پوری دنیا میں مشہور ہوگئی ہیں۔ اسرائیل نے مغربی کنارہ اور غزہ سے کسی کو بھی جنازے میں حصہ لینے کی اجازت نہیں دی۔ اسکے باوجود فلسطینی قومی پرچم میں لپٹے ان کے جسد خاکی کو کندھا دینے کیلئے یروشلم میں ہزاروں مسلم اور عیسائی باشندے گھروں سے نکل آئے تھے۔

 

Haji Latif Khokhar
About the Author: Haji Latif Khokhar Read More Articles by Haji Latif Khokhar: 141 Articles with 112962 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.