نئے صوبے

پنجاب میں نئے صوبوں کا جادو سر چڑھ کر بولنے لگا ہے ،ملتانی وزیراعظم آئے روز سرائیکی صوبہ کی خوشخبری سنانااپنا فرض منصبی سمجھتے ہیں، انہوں نے یہ ڈیوٹی گزشتہ برس ہی سنبھالی ہے، حکومتی ترجمانی کا فریضہ بابر اعوان اور فردوس عاشق اعوان نے بھی نبھانے کا فیصلہ کیا ہوا ہے ، اب وہ بھی سرائیکی صوبہ کو آئینی تقاضا قراردے رہے ہیں، اور مسلم لیگ ق نے تو پی پی حکومت کے ساتھ تعاون ہی جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کی شرط پر کیا ہے۔یہ سرائیکی صوبہ کے نام سے بنتا ہے یا جنوبی پنجاب یا کسی اور نام سے ، اس کی تو کسی کو خبر نہیں، لیکن اب شور ایسا اٹھا دیا گیا ہے کہ کوئی اور بات سنائی نہیں دیتی۔

پی پی حکومت اور ق لیگ نے آخر اس صوبہ کو یکدم اس شدت سے اہم ترین مسئلہ کیوں بنا لیا ہے؟ اس کی سب سے بڑی وجہ تو یہی نظر آتی ہے کہ مسلم لیگ ن چونکہ پنجاب میں کسی بھی نئے صوبے کی مخالف ہے ، اس لئے پی پی اور ق لیگ نے وہی کام کرنا ہے جس سے ن لیگ کو ذہنی تکلیف ہو۔ق لیگ کی وفاقی حکومت میں شمولیت بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے،(ن لیگ کے قائد بھی اسی قسم کے شوق فرمانے کے عادی ہیں)پنجاب چونکہ آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے ،اس لئے یہ ملکی سیاست پر زیادہ اثر انداز ہوتا ہے، اور یہ بھی حقیقت ہے کہ پنجاب میں ن لیگ کی مقبولیت کا گراف بہرحال دوسروں سے بہتر ہے۔

گزشتہ دو برس سے صوبوں کی تحریک میں ایسے ہی جان آگئی ہے جیسے صحرا میں بارش کے بعد زندگی لوٹ آتی ہے، اور بے جان ریت سبزے کا منظر پیش کرنے لگ جاتی ہے۔ بہت سی جماعتیں یا تو بہاول پور صوبہ کی بحالی کی حامی تھیں یا پھر سرائیکی صوبہ کی، مگر ن لیگ کے ممبرا ن اسمبلی اور کارکن کسی بھی واضع حکمت عملی کے اعلان سے گریزاں تھے ، مقامی قیادت یا ان کے کارکنان اندرسے تو صوبوں کے حامی ہیں ، مگر اپنی مرکزی قیادت کے فیصلے کی وجہ سے وہ کھل کر اپنی رائے کا اظہار نہیں کرسکتے تھے، میاں برادران صرف خاموش ہی نہ تھے بلکہ موقع ملنے پر مخالفانہ بیان دے کر اپنے جذبات کا اظہار بھی کرلیتے تھے، ابھی گزرے ہفتے ہی میاں شہباز شریف نے اپنے دوسرے وطن لندن میں یہ جذباتی بیان جاری کیا ہے کہ وفاقی حکومت اپنی کرپشن کو چھپانے کے لئے صوبوں کا شوشہ چھوڑ رہی ہے۔

مگر جب میاں برادران نے دیکھا کہ اب صوبوں کی ہوا ایک طوفان کا روپ دھار رہی ہے، اور ممکن ہے کہ اس طوفان میں سب کچھ بہہ جائے تو اب ن لیگ کی ایک خصوصی کمیٹی نے بھی انتظامی لحاظ سے صوبوں کے قیام کی حمایت کردی ہے، اور کہا ہے کہ لسانی بنیادوں پر ہونے والے کسی ایسے کام کی حمایت نہ کریں گے۔گویا ن لیگ بھی اس اٹھائے گئے طوفان کی نذر ہوگئی۔اب صوبے بنانے کا مرحلہ آئے گا،آئین میں گنجائش ہے ، مگر جس صوبہ میں دوسرا بنے گا ، اس کی اسمبلی سے اور پھر ایوان زیریں اور بالاسے دو تہائی کی اکثریت سے اس کی منظوری دی جائے، تو یہ بیل منڈھے چڑھے گی۔

کس اسمبلی میں کس کے پاس یہ اکثریت ہے، کب یہ مطلوبہ اکثریت حاصل ہوگی، اور کب یہ صوبے وجود میں آئیں گے، بہاول پور کا مقدمہ مختلف بیان کیا جاتا ہے، کہ وہ نیا نہیں ، بلکہ اس کی تو صرف بحالی کا مرحلہ درپیش ہوگا، مگر حکمران اگر سرائیکی صوبہ بنانا چاہتے ہیں، تو بہاول پور صوبہ کا کیا بنے گا؟ گویا یہ صوبوں کے نعرے کارِ آسان نہیں، ان کے لئے قانونی جنگ بھی لڑنی پڑے گی اور حق کے لئے سڑکوں پر بھی آناپڑے گا۔دیکھئے حکمران نعروں کی سیاست کرتے ہیں یا ان کا کوئی نتیجہ بھی برآمد ہوتا ہے؟اور صوبے بننے کی صورت میں ان علاقوں کے لوگوں کو کوئی ریلیف بھی ملے گا یا یہ روایتی سیاستدانوں کے چنگل میں ہی الجھے رہیں گے؟
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 431623 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.