مخلصانِ قوم

حالیہ بحران آیا اور ٹل گیا ۔لیکن اپنے اثرات بہرطور چھوڑ گیا۔جن کو دیکھ کر گمان گزرتا ہے کہ ابھی خاموش لہروں میں کوئی طوفان پوشیدہ ہے۔لیکن چہرے پر طمانیت سجائے خوش پوش لوگ محو خواب ہیں کہ اب تاریکی کا دور دورہ ہو گا۔ایسا نہیں ہے چونکہ وہ سینتیس صفوں کی کتاب میں سے صرف اپنے کام کا ہی نقطہ تلاش کر پائے ہیں اسی واسطے خوش فہمی میں مبتلا ہیں ۔بقول شاعر
قطر ے میں دجلہ دکھائی نہ دے اور جزو میں کل
کھیل لڑکوں کا ہوا دیدہ بینا نہ ہوا

حالات کی سنگینی کا اندازہ لگانے کیلئے محض تخت و تاج کافی نہیں ہوتے ۔معاملات کے فہم و ادراک کیلئے عیاری کام نہیں دیتی ۔اہل دل و اہل نظر ہونا چاہیئے ۔زور ِبازو و شمشیر کی نہیں ذوق نظر و قوت مشاہدہ کی ضرورت ہوتی ہے ۔حکمران نہیں رہنماءہونا ضروری ہے۔خدا نہ کرے عدلیہ و جمہوریت(گھسی پھٹی ‘ٹوٹی پھوٹی) کو کوئی گزند پہنچے۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بالاآخر یہ گزند ہر مرتبہ قوم کے ماتھے کی ہی زینت کیونکر بنتا ہے؟تریسٹھ برس سے زائد عرصئہ گزر گیا لیکن منزل ابھی تلک سراب میں گم ہے۔ارض وطن کے سب سے بڑے شہر کراچی میں گھنٹوں ‘منٹوں نہیں سیکنڈ والی سوئی کی حرکت کے ساتھ لاشے گر رہے ہیں۔دہشت گردی عروج پر ہے ۔ہر نوع کے منافرتی بیج تناور درخت بن کر پھل دے رہے ہیں۔انسان نما جنگلی درندے سرپٹ دوڑ کر زندگی کا حسن برباد کر رہے ہیں۔ایسے میں آپ ہی بتائیے کون ادھر سرمایہ کاری کرے گا؟غیر ملکی تو کجا ‘ملکی تاجر بھی سرمایہ نکال کر بھاگ رہے ہیں۔اس پر مستزاد یہ کہ عنان اقتدار کے رسیا خواہ وہ مسند اقتدار پر ہوں یا اس کے خواہش مند سب ہی اپنے اثاثے بیرون ملک رکھنے پر مصر ہیں۔شاید وہ اس ملک کو محفوظ نہیں سمجھتے ۔۔؟ اس لیئے تو بلٹ پروف جیکٹس پہنتے ہیں ‘بلٹ پروف جیپ چلاتے ہیں ۔بیرون ملک پانچ ارب ڈالر کی جائیداد بناتے ہیں ۔اور ایسا کریں بھی کیوں نہیں کہ جس ملک کی معیشت سو ارب ڈالر کی خاطر طوق غلامی پہننے پر مجبور ہو‘جس کی ڈیڑھ کروڑ بچیوں کے سروں میں محض اس لیئے چاندی آگئی ہو کہ اُن کے والدین کے پاس جہیز کے لیئے پیسے نہ ہوں‘جس کے لاکھوں بچوں کے پاس پہننے کیلئے جوتے نہ ہوں‘جس کے کروڑوں بچوں کے پاس تن کو ڈھانپنے کیلئے شلوار یا قمیض میں سے ایک کا انتخاب کرنا ضروری ہو‘جس کے پاس بارشوں کے تسلسل میں اپنے باسیوں کی حفاظت کیلئے کوئی انتظام نہ ہو‘مدت گزر جانے کے باوجود جس کے سیلاب وزلزلہ زدگان کے پاس رہنے کے لیئے سائبان اور کھانے کے لیئے دو نوالے تک نہ ہوں‘جس کے پاس معتبر ترین مہینہ میں مہنگائی کی کھنڈی چھری سے ذبح ہوتی بے زبان عوام کی درد ناک آہیں سننے کو سوا کوئی چارہ نہ ہو‘جس کی افراط زر روز بروز دگرگوں ہوں‘جس کے ہسپتالوں میں مریضوں کو موت ملتی ہو‘جس کے مسیحا کسی قصائی سے کم نہ ہوں(کم و بیش)‘جس کے سکولوں میں بھیڑ بکریاں باندھی جاتی ہوں‘جس کے تھانہ ‘کچہری میں مجرم جنم لیتے ہوں‘جس کے ہاں انصاف ناپید ہواور انتقام وافر مقدار میں‘جس کے معماران قوم درسی کتب تک اٹک اٹک کے پڑھتے ہوں‘جس کے بچوں کے ننھے و معصوم ہاتھوں میں قلم کی جگہ پلاس ‘اینٹ اور بم ہو وہ ملک ہاں وہ ملک ان مخلصان ِقوم(سیاستدانوں) کو کیسے تحفظ فراہم کرے گا؟نہیں دے سکتا ہرگز نہیں دے سکتا۔اس لیئے یہ انسانی حقوق کے چارٹر کے مطابق اپنی جان ومال کو تحفظ پہنچانے کا حق محفوظ رکھتے ہیں(رہ گئی عوام تو اس بیچاری پر تو موروثیت کے دلدادہ صرف حکومت کرنے کے واسطے تشریف لاتے ہیں)۔پارٹی مفادات بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔تب ہی تو آئین کے ٹھیکیدار ہر سو اپنی پارٹی کے مفادات کی نگہبانی پر مامور نظر آتے ہیں ۔اور اس راہ میں قانون‘عدالتیں ‘جمہوریت‘الغرض دولت واقتدار کے سوا قریبًا ہر شہ قربان کردینے سے نہیں چونکتے۔اسی نظریے سے ملتے جلتے ان کی پارٹیوں کے منشور ہیں ۔یاد رکھئے ملک قوموں کے ہوتے ہیں ‘سیاستدانوں کی فقط پارٹیاں ہوتی ہیں۔سیاسی اداکارپارٹی کے جیالے ہوسکتے ہیں لیکن شہیدِ وطن ہرگز نہیں۔اسی لیئے جب تک کوئی قوم اپنے ذاتی مفادات سے مبرا ہو کر کوئی فیصلہ نہیں کرتی اسوقت تک اس سرزمین پر عدلیہ(مصنفوں)اور جمہوریت(حکمرانوں)میں کسی نہ کسی صورت میں رسہ کشی جاری رہتی ہے۔اور وہاں کے باسی من حیث القوم معاشی غلامی کے جال میں پھنستے پھنساتے دفاعی غلامی تک چلے جاتے ہیں۔اور خدا نہ کرے ہمارے ساتھ ایسا ہو۔

سلامتی و معیشت ایک سڑک کی مانند ہیں اور عدلیہ و جمہوریت اس کے کنارے ہیں۔جس طرح روٹی کی خوبصورتی اسکے معیاری و گول کناروں سے قائم ہے۔عین اسی طرح سلامتی و معیشت کی ترقی و تنزلی کا انحصار عدلیہ و جمہوریت کی متوازن پالیسیوں سے تعلق رکھتا ہے۔جب بھی کوئی ایک کنارہ بوسیدہ یا کھردرا ہونے لگتا ہے بوجھ دوسری جانب سرک جاتا ہے اور وزن ایک ہی پلڑے میں ہونے کی وجہ سے عدم توازن لازمی امر بن جاتا ہے۔جس سے ملکی حالات نا ساز ہو جاتے ہیں ۔وفاق مخالف قوتیں سر اُٹھانے لگتی ہیں اور دشمن للچائی نظروں سے ہماری سرحدوں کی جانب دیکھنے لگتا ہے۔
sami ullah khan
About the Author: sami ullah khan Read More Articles by sami ullah khan: 155 Articles with 174809 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.