عمران خان حکومت خاتمہ کے وقت معاشی طور پر بدحال مملکت
اسلامی جمہوریہ پاکستان کی اکثریت نے سکھ کا سانس لیا اور اس امید کا اظہار
کیا کہ پاکستان کی تجربہ کار سیاسی جماعتوں بشمول پاکستان مسلم لیگ ن پر
مشتمل اتحادی حکومت مملکت کو معاشی بحرانوں سے نکال باہر کرے گی، ڈالر کو
نکیل ڈالے گی، داخلی و خارجی محاذوں پر مملکت کی کھوئی ساخت کو بحال کرے
گی۔ مگر کیا ہے کہ الٹی ہوگی سب تدبیریں۔ موجودہ حکومت کی حالت زار یہ ہے
کہ عمران حکومت کی جانب سے ملکی معیشت کیساتھ کیا گیا کھلواڑ نہ صرف اپنے
گلے میں ڈلوا لیا ہے بلکہ پاکستانی عوام کی اکثریت کی تنقید کا براہ راست
نشانہ بھی بن رہی ہے۔ دوسری طرف وہی عمران خان اور انکے ہمنوا جو اپنی
حکومت کے خاتمہ سے چند دن پہلے تک پاکستان کو دنیا کا سستا ترین ملک قرار
دیتے تھے اور اسی طرح مختلف قسم کے کیلکولیٹرز کے ساتھ پاکستانی پٹرولیم
مصنوعات کو دنیا کے ترقی یافتہ ممالک سے بھی زیادہ سستی ثابت کررہے ہوتے
تھے، وہی عمران خان اور انکے ہمنوا آج پاکستانی عوام کو دنیا کا مہنگا ترین
ملک ثابت کرنے کی بھرپور کوشش کررہے ہیں۔ اس میں کچھ شک نہیں ہے کہ موجودہ
اتحادی حکومت مملکت میں پائے جانے والے سنگین معاشی بحران پر قابو پانے میں
مسلسل ناکام ہورہی ہے۔ ریاست پاکستان کی تمام معاشی سرگرمیوں چاہے وہ
برآمدات ہوں یا پھر درآمدات ان سب کا دارومدار امریکی ڈالر پر منحصر ہوتا
ہے۔ امریکی ڈالر اک آزاد پنچھی کی طرح اپنی پرواز بلند سے بلند کئے جارہا
ہے جبکہ حکومت وقت کی جانب سے ڈالر کنٹرول کرنے کے لئے کسی قسم کے ٹھوس
اقدامات کہیں نظر نہیں آرہے۔ خارجی محاذ کی بات کی جائے تو وزیراعظم شہباز
شریف نے سوائے سعودی عرب کسی اور دوست ملک کا سرکاری دورہ نہیں کیا۔ حکومت
وقت کی جانب سے مصیبت کی ہر گھڑی میں پاکستان کا ساتھ دینے والے اور
پاکستان کے سب سے مضبوط دوست چین کا سرکاری دورہ ابھی تک نہیں کیا گیا۔
حالانکہ وزیراعظم شہباز شریف کو پاکستان کا عظیم دوست ملک چین بہت ہی زیادہ
قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے چین کا دورہ
ابھی تک نہ کرنے کی منطق سمجھ سے بالاتر ہے۔ عمران خان حکومت میں سی پیک
جیسے عظیم منصوبے کے ساتھ ہونے والے نارواں سلوک کی وجہ سے چینی حکومت
پاکستان سے پہلے ہی نالاں ہے، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ وزیر اعظم شہباز
شریف سعودی عرب کے دورہ کے بعد سب سے پہلے چین کا دورہ کرتے اور اس دورہ
میں پاکستان کو معاشی بدحالی سے نکالنے کے لئے چین سے خصوصی مدد کی درخواست
کی جاتی۔ افسوس ایسا نہ ہوسکا۔ ایک طرف پاکستان معاشی بدحالی اور
خدانخواستہ معاشی طور پر دیوالیہ پن کا شکار ہوتا دیکھائی دے رہا ہے، دوسری
طرف داخلی طور پر پاکستان میں پائے جانے والا سیاسی بحران کسی صورت قابو
میں آتا دیکھائی نہیں دے رہا۔ پاکستانی عوام کی اکثریت کو عمران خان حکومت
کے خلاف مبینہ امریکی سازش یا مداخلت سے زیادہ اپنے گھر کے معاشی حالات کو
ٹھیک کرنے کی فکر لاحق ہے، عمران خان حکومت کی نالائقیوں کی وجہ سے
پاکستانی عوام کی اکثریت عمران خان سے نالاں تھی مگر شہباز شریف کی اتحادی
حکومت کی جانب سے معیشت کے لئے کسی بھی قسم کے ٹھوس اقدامات نہ لئے جانے کی
بناء پر پہلے سے زیادہ بدحالی کا شکار پاکستان مزید بدحالی کا شکار ہوچکا
ہے۔ عوام الناس کی اکثریت جس کی شہباز شریف سے بہت ہی زیادہ تواقعات تھیں
انتہائی مایوس ہوچکی ہے۔ بظاہر عمران خان حکومت کا پونے چار سالہ معاشی گند
اس وقت شہباز شریف حکومت کے گلے کا ہار بن چکا ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ
مسلم لیگ ن کی سابقہ حکومت کے خاتمہ کے وقت ڈالر 115 روپے تک پہنچا تھا اور
عمران خان کو اقتدار ملنے والے دن ڈالر ریٹ 125 تھا۔ اسی طرح عمران خان
حکومت کے خاتمہ والے دن ڈالر ریٹ 189 روپے تھا۔ مگر افسوس موجودہ حکومت کے
چند دنوں ہی میں ڈالر 200 کا ہندسہ عبور کرچکا ہے۔ راقم سابقہ حکومت میں
عمران خان حکومت کی جانب سے ڈالر کنٹرول نہ کرنے کی بناء پر عمران خان
حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتا رہا ہے۔ حکومت وقت موجودہ معاشی بحران
پر عمران خان حکومت کو الزامات دیکر بری الذمہ قرار نہیں دی جاسکتی ہے۔
میاں شہباز شریف صاحب اس وقت حکومت آپکے پاس ہے۔ ڈالر کو کنٹرول کرنا آپکی
ذمہ داری ہے۔کیونکہ ڈالر کنٹرول تو ملکی معیشت بھی کنٹرول۔ جمہوری ممالک
میں حکومت کیساتھ ساتھ اپوزیشن جماعتیں شیڈو کابینہ بنا کر رکھتی ہیں یعنی
حکومت وقت کے ہر غلط فیصلہ پر تنقید کے ساتھ ساتھ حکومت وقت کو مجوزہ طور
پر مفید اور قابل عمل مشورہ بھی دیتی ہے۔ یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ
موجودہ اتحادی حکومتی پارٹیوں نے عمران خان حکومت کے خلاف ہر محاذ پر کھل
کر تنقید کی اور پی ڈی ایم کی جانب سے عمران خان حکومت کے خلاف چلائی جانے
والی آخری تحریک کا موضوع ہی مہنگائی مارچ تھا۔ کیا موجودہ حکومتی جماعتوں
نے عمران خان کو اقتدار کو ہٹانے کے بعد پاکستان کو معاشی بدحالی سے نکالے
کے لئے کسی قسم کی منصوبہ بندی تیار نہیں کی تھی؟ ایک طرف مہنگائی کا نہ
ختم ہونے والا سونامی دوسری طرف شدید گرمی کے موسم میں بجلی کی شدید
لوڈشیڈنگ نے عوام الناس کا جینا حرام کردیا ہے۔ پاکستانی عوام کی اکثریت کی
زبان پر اب یہ بات آچکی ہے کہ میاں صاحب ڈالر اور مہنگائی کو کنٹرول کریں
ورنہ مسند اقتدار کو چھوڑ دیں اور گھر بیٹھ کر اللہ اللہ کریں۔
|