آئین کے آرٹیکل 63-اے کی تشریح سے متعلق سپریم کورٹ کا
فیصلہ جمہوریت کی مضبوطی کی جانب بڑا قدم ہے لوٹاکریسی کلچر کے خاتمے سے ہی
قوم کا جمہوریت پر اعتماد بحال ہو گا سیاسی جماعتیں فیصلے پر اس کی روح کے
مطابق عمل کریں اور اپنے اندر جمہوریت بھی لائیں اس وقت اکثر سیاسی جماعتوں
میں خاندانی اجارہ داریاں اور ون مین ڈکٹیٹرشپ قائم ہے جاگیرداروں، وڈیروں
اور کرپٹ سرمایہ داروں نے ملک کو یرغمال بنایا ہوا ہے پاکستان 75برسوں سے
سسک رہا ہے اور دو فیصد اشرافیہ اسے کھوکھلا کرنے میں مصروف ہیں اسکے ساتھ
ساتھ غربت،مہنگائی ،بے روزگاری،بددیانتی،کرپشن اورمعاشی عدم استحکام جیسے
سنگین مسائل نے ملک کا دیوالیہ نکال دیاہے مختلف ٹیکس لگاکر عوام کے خون
پسینے کی کمائی کو دونوں ہاتھوں سے لوٹاجارہا ہے حکمرانوں کی غیر
دانشمندانہ اقدامات اور قرضوں کی دلدل نے ملکی معیشت کو تباہی کے دھانے پر
لاکھڑاکیاہے ملکی قرضوں کا کل حجم 122ارب ڈالر سے تجاوز کر گیا ہے ڈنگ ٹپاؤ
کابینہ عوام کے مسائل کو حل کرنے میں سنجیدہ دکھائی نہیں دیتی محض عہدوں کی
بندر بانٹ اور سرکاری خرچ پر غیر ملکی دوروں سے عوام کو ریلیف نہیں مل
سکتاایسا محسوس ہوتا ہے جیسے عوام کا کوئی پرسان حال نہیں یہاں سبھی کو
اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے لندن کی بیکر سٹریٹ پر ایک ہوٹل میں ایسے پاکستانیوں
کا اڈہ ہے جہاں پر سبھی لٹیرے اور فراڈیے بیٹھ کر پاکستان کے خلاف سازشیں
کرتے رہتے ہیں اور پھر یہاں پر اپنے مقامی کارندوں کے زریعے ان سازشوں پر
عمل درآمد کرواتے ہیں انکے غلام یہاں پر بیٹھ کر آئی ایم ایف کی غلا می اور
دیگرعاقبت نا اندیش فیصلوں کی بدولت پاکستان کی آزادی خود مختاری اور
سلامتی کے لئے سوالیہ نشان بن کر ڈالر وں کے حصول کی خاطر پاکستان کی خود
مختاری کو فروخت کر رہے ہیں حکمران عوام کے خون پسینے کی کمائی کو دونوں
ہاتھوں سے لوٹ کر توانائی بحران کی آڑ میں کرپٹ افراد اپنی تجوریوں کو بھر
ر ہے ہیں حکمرانوں سمیت کسی کو بھی عوام کے مسائل اور ان کے حل سے کوئی
سروکار نہیں ماضی کے منافع بخش ادارے اب قومی خزانے پر بھاری بوجھ بن چکے
ہیں ہر ادارے میں کرپشن اور بد عنوانی کی لمبی داستانیں دکھائی دیتی ہیں
آئے روز اسکینڈلز سامنے آرہے ہیں قومی اداروں کو بہتراورفعال بنانے کے لیے
ضروری ہے اور اس سلسلہ میں ہماری عدالتیں بہترین کام کرسکتی ہیں جس طرح چیف
جسٹس آف پاکستان عمرعطا بندیال نے حکومتی شخصیات کی جانب سے احتساب کے عمل
میں مداخلت کا نوٹس لیتے ہوئے کہا تھا کہ افسروں کے تبادلوں اور تحقیقات
میں مداخلت سے نظام انصاف میں خلل پڑسکتاہے حکومتی مداخلت سے شواہد ضائع
ہونے اور پراسیکیوشن پر اثرانداز ہونے کا خدشہ ہے احتساب قوانین میں تبدیلی
نظام انصاف کو نیچا دکھانے کے مترادف ہے اعلیٰ حکومتی شخصیات کی مداخلت سے
ریکارڈ ٹیمپرنگ کا بھی خدشہ ہے چیف جسٹس کا یہ اقدام قانون کی عملداری اور
رول آف لا کے ضمن میں ایک بہت بڑا قدم ہے امید ہے ایف آئی اے اور نیب جیسے
اداروں میں مقدمات کو تباہ کرنے کا کام اب نہیں ہو سکے گاپنجاب میں سیاسی
صورتحال کو دیکھتے ہوئے الیکشن کمیشن پنجاب نے اپنی تیاریں مکمل کرنا شروع
کردی ہیں غیر حتمی ابتدائی انتخابی فہرست عوام الناس کے معائنہ کے لئے
ڈسپلے سینٹرز میں آویزاں کردی گئی ہیں الیکشن کمیشن نے پنجاب کے 37اضلاع
میں 12039 ڈسپلے سینٹرز قائم کئے گئے ہیں۔ڈسپلے سینٹرز 21مئی تا 19جون2022
تک عوام کیلئے موجود رہیں گے ووٹرز اپنے اندراج کی تفصیلات اورمندرجات میں
کسی غلطی کی صورت میں درستگی کروا سکیں ووٹ درج کروانے کیلئے فارم نمبر 15
اعتراض دائر کرنے کیلئے فارم 16 اور کوائف کی درستگی کیلئے فارم 17 ہے ووٹ
کا اندراج، اعتراض اور درستگی کیلئے متعلقہ فارم ڈسپلے سنٹر انچارج کے پاس
جمع کروایا جا ئے گا ووٹرز اپنا شناختی کارڈ نمبر 8300پر بھیج کر اپنے
کوائف کے متعلق آگاہی بھی حاصل کرسکتے ہیں شکایات کی صورت میں الیکشن کمیشن
کے ہیلپ لائن نمبر ز یا ضلعی الیکشن کمشنر کے رابطہ نمبرز پررابطہ کیا جا
سکتا ہے الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ویب سائٹ پر تمام ضروری معلومات موجود
ہیں۔ آخر میں اپنے ان پڑھنے والوں کا بھی شکر گذار ہوں جو اپنی رائے اور
تجاویز سے نوازتے رہتے ہیں میں نے اپنے پچھلے ایک کالم میں لکھا تھا کہ اگر
ہمیں آگے نکلنا ہے تو اس فرسودہ ،جاہلانہ اور لوٹ گھسوٹ والے نظام سے جان
چھڑوانے کے لیے اپنی چونچ توڑنا پڑے گی تو بہت سے قارئین نے پوچھا کہ اس کا
کیا مطلب ہے تو ان کی خدمت میں عرض کیے دیتا ہوں کہ علامہ اقبال نے جس
شاہین کاذکر کرتے ہوئے کہا تھا کہ
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک جہاں میں
شاہین کا جہاں اور کرگس کا جہاں اور
اسی شاہین کی دلچسپ حقیقت سے آگاہ کرتا ہوں کہ ایک عقاب چالیس سال کی عمر
میں کیا کرتا ہے؟ عقاب جسکی عمر 70سال کے قریب ہوتی ہے اس عمر تک پہنچنے کے
لیے اسے سخت مشکلات سے گزرنا پڑتا ہے جب اس کی عمر چالیس سال ہوتی ہے تو اس
کے پنچے کند ہو جاتے ہیں جس سے وہ شکار نہیں کر پاتا اسی طرح اس کی مظبوط
چونچ بھی عمر کے بڑھنے سے شدید ٹیڑھی ہو جاتی ہے اس کے پر جس سے وہ پرواز
کرتا ہے بہت بھاری ہو جاتے ہیں اور سینے کے ساتھ چپک جاتے ہیں جس سے اڑان
بھرنے میں اسے سخت دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے ان سب مشکلات کے ہوتے ہوئے
اس کے سامنے دو راستے ہوتے ہیں ایک وہ موت کو تسلیم کر لے یا پھر 150 دن کی
سخت ترین مشقت کے لیے تیار ہو جائے چنانچہ وہ پہاڑوں میں جاتا ہے اور سب سے
پہلے اپنی چونچ کو پتھروں پہ مارتا ہے یہاں تک کہ وہ ٹوٹ جاتی ہے کچھ دن
بعد جب نئی چونچ نکلتی ہے تو وہ اس سے اپنے سارے ناخن جڑ سے کاٹ پھینکتا ہے
پھر جب اس کے نئے ناخن نکل آتے ہیں وہ وہ چونچ اور ناخن سے اپنا ایک ایک
بال اکھاڑ دیتا ہے اس سارے عمل میں اسے پانچ ماہ کی طویل تکلیف اور مشقت سے
گزرنا ہوتا ہے پانچ ماہ بعد جب وہ اڑان پھرتا ہے تو یوں محسوس ہوتا ہے جیسے
اس نے نیا جنم لیا ہو اس طرح وہ تیس سال مزید زندہ رہ پاتا ہے بعض اوقات
ہمارے لیے اپنی زندگی کو بدلنا بہت ضروری ہوجاتا ہے تاکہ ہم اس سے بہتر
زندگی گزار سکیں اگرچہ اس میں ہمیں سخت مشکلات سے بھی گذرنا پڑتا ہے ۔ |