امام خمینی کی برسی

ایرانی انقلاب کے حامی چار جون کو ہر سال کی طرح دنیا بھر میں امام خمینی کے یوم وفات کی تقریبات منعقد کر رہے ہیں۔ حضرت سید روح اللہ موسوی خمینی المعروف امام خمینی رح 24 ستمبر 1902 کو خمین میں پیدا ہوئے اور تین جون 1989 کو تہران میں وفات پائی۔ اس وقت میں برطانیہ میں ایک سیاسی قیدی کی حیثیت سے غیر معینہ مدت کے لیے خفیہ سزا بھگت رہا تھا۔ برطانوی میڈیا کے رد عمل کے مطابق امام خمینی کی وفات کے ساتھ ہی ایرانی انقلاب کو بھی موت ا گئی تھی مگر 33 سال بعد بھی برطانوی میڈیا کی پیشنگوئی درست ثابت ہوتی ہوئی نظر نہیں آ رہی۔

خمین ایران کے روحانی شہر قم سے 160 اور دارالحکومت تہران سے 325 کلو میٹر دور واقع ہے۔ان کے والد آغا مصطفی کے خاندان نے کشمیر سے ایران ہجرت کی۔ انکی خاندانی نسبت سید علی شاہ ہمدانی سے ملتی ہے ان کی والدہ کا نام خانم حاجیہ تھا۔ امام کی عمر ابھی صرف پانچ ماہ تھی جب امام کے والد محترم مقامی لینڈ لارڈ کے حکم پر قتل کر دیے گے تھے۔ مستقبل کے امام خمینی اور اسلامی انقلاب کے قائد کی پرورش پہلے انکی والدہ اور خالہ نے کی اور ان دونوں کی وفات کے بعد امام خمینی کے بڑے بھائی مرتضی نے کی جنہوں نے اسلامی اداروں میں انکو ابتدائی تعلیم دلوائی۔ 1922 میں امام خمینی نے قم میں سکونت اختیار کی جہاں فلسفہ کے ایک سکالر مرزاعلی اکبر یزدی انکے استاد تھے۔ 1929 میں محترم یزدی کی وفات کے بعد جاوید اغا مالکی تبریزی اور رفیع قازوینی کی زیر سرپرستی امام خمینی کا تعلیمی سفر جاری رہا۔ 1930 تک امام خمینی ایک نامور سکالر کی حیثیت اختیار کر چکے تھے۔ یہی وہ وقت تھا جب انہیں خمین سے تعلق کی وجہ سے خمینی کا لقب دیا گیا۔ قم میں امام کی تحقیقی و تخلیقی صلاحیتیں ابھر کر سامنے آئیں۔ ادارہ راہ حق نے انکی موجودگی میں کافی ترقی کی جس سے طلباء کی بھاری تعداد فیضیاب ہوئی جس نے آگے چل کر اسلامی انقلاب کی آبیاری کی۔ قانون، فلسفہ اور اخلاقیات امام خمینی کے اہم قلمی موضوعات تھے لیکن جس چیز نے انہیں پہلے قومی اور بعد میں عالمی سطح کی انقلابی شخصیت کے طور ہر متعارف و مشہور کیا وہ امام خمینی کا شاہ ایران کی اندرونی و خارجہ پالیسیوں کی مخالفت تھی۔ امام خمینی نے شاہ ایران کی مغرب پرستی اور سفید انقلاب کی ڈٹ کر مخالف اور اسلامی پاکیزگی کی کھل کر حمایت کی۔ 1950 میں امام خمینی کو آیت اللہ اور 1960 میں عظیم أیت اللہ کے خطابات ملے۔ 1953 میں شاہ ایران کے جرنیلوں نے قوم پرست وزیر اعظم محمد مصدق کا تختہ الٹ کر تودہ پارٹی کے ہزاروں کارکنوں کو تہ و تیغ کیا تو ایرانی علماء نے اس کا سخت نوٹس لیتے ہوئے خود کو مزید منظم کیا۔

1960 میں شاہ ایران نے سفید انقلاب کے نام پر مزہبی حلقوں کو نشانہ بنا کر اپنے پائوں پر کلہاڑی ماری۔ شاہ کی ان پالیسیوں نے ایران کی معیشت اور انسانی حقوق کی بری طرح پامالی کی۔ 1963 میں امام خمینی کو ان پالیسیوں کی مخالف کی وجہ سے گرفتار کر لیا گیا اور چار نومبر 1964 کو شاہ نے امام خمینی کو ملک بدر کر دیا۔ امام خمینی نے قم کے ہم پلہ عراقی شہر النجف کو اپنا مسکن بنایا جہاں انہوں نے اپنا روحانی اور اسلامی بیداری کا مشن جاری رکھا۔ النجف میں امام خمینی کا نیٹ ورک مضبوط ہونا شروع ہوا تو عراق کے اسوقت کے صدر صدام حسین نے چھ اکتوبر 1978 کو ملک چھوڑنے پر مجبور کیا۔ امام خمینی کویت بارڈر پر پہنچے جہاں ان سے پاسپورٹ طلب کیا گیا تو انہوں نے کہا ایک مسلمان کو ایک اسلامی ملک سے دوسرے اسلامی ملک میں داخلے کے لیے پاسپورٹ اور ویزے کی کیا ضرورت ہے۔ بد قسمتی سے مسلمان ممالک کے درمیان ان پابندیوں میں کمی کے بجائے دن بدن اصافہ ہی ہوتا جا رہا ہے۔ امام خمینی کے ساتھیوں نے امام کی پیرس نقل مکانی کے انتظامات کیے مگر جوں جوں امام خمینی ایران سے دور ہوتے گے توں توں انقلاب ایران قریب آتا گیا۔ پیرس سے امام خمینی کی ٹیپ ریکارڈڈ تقاریر انکی عوام تک ایران پہنچتی رہیں۔ پھر وہ وقت آ گیا جب شاہ ایران کے لیے ایران کی دھرتی تنگ ہونا شروع ہوئی۔ عوام شاہ کے خون کی پیاسی ہو گئی۔ 16 جنوری 1979 کو شاہ ایران ملک سے فرار ہو گے۔ وہ امریکہ جانا چاہتے تھے لیکن امریکہ نے یہ خطرہ مول لینے سے انکار کر دیا۔ یکم فروری 1979 کو امام خمینی باوقار طریقے سے ایران واپس لوٹے اور 11 فروری کو انہوں نے اسلامی حکومت کے قیام کا اعلان کیا۔

1979 وہ سال تھا جب کم عمری کے باعث راقم کی سیاسی بیداری کے سفر کا باقاعدہ آغاز نہیں ہوا تھا کہ اسی سال کے جون میں راقم نے اپنے بڑے بھائی نزیر راجہ صاحب کے پاس ہالینڈ جانے کے لیے یورپ کا رخت سفر باندھا۔ یورپ پہنچ کر حیرت ہوئی کہ جمہوریت کا حامی مغرب ایران کے جمہوری اسلامی انقلاب کا مخالف تھا۔ اپنے ملکوں میں جہاں اہل مغرب عوامی راج کے حامی تھے وہاں وہ ایران اور پاکستان میں جمہوریت کے مخالف تھے۔ ایران میں انہیں شاہ کی شکل میں اور پاکستان میں ایک فوجی ڈکٹیٹر کی شکل میں حکمرانوں کی ضرورت تھی جسکی وجہ سے دور سے میں جس مغرب سے متاثر تھا اسے قریب سے دیکھ کر کچھ مایوسی ہوئی۔ ایران پر امریکہ نے فوری طور پر اقتصادی پابندیاں عائد کروا دیں۔ تین سال قبل میں ایران گیا جہاں قم میں بیت خمین جانے کی دیرینہ خواہش پیدا ہوئی۔ بیت خمین کی مٹی کی دیواریں اپنی اصلی حالت میں ہیں لیکن اس کے در و دیوار بتا رہے تھے کہ کسی دور میں یہاں کوئی بڑی شخصیت رہی ہے۔ ہمیں وہ تمام کمرے دکھائے گے جہاں امام خمینی مطالعہ، درس و تدریس کے فرائض سر انجام دینے ،آرام کرنے کے علاؤہ مہمانوں سے ملا کرتے تھے۔ بیت خمین کے انچارج کو جب پتہ چلا کہ ہمارا تعلق کشمیر سے ہے تو اس نے مجھے امام خمینی کی وہ گفتگو سنائی جس میں وہ کہتے تھے کہ کس طرح انکے خاندان کو ھندوستان نے کشمیر چھوڑنے پر مجبور کیا مگر جب وہ قائد انقلاب کی حیثیت سے ایران واپس آئے تو وہی ھندوستان انہیں خمینی ھندی کے نام سے پکارنے لگا۔

ایران مسلسل عالمی اقتصادی پابندیوں کا مقابلہ کرتا ا رہا ہے۔ ایرانی عوام اسلامی انقلابی حکومت کے ساتھ محض اسلیے کھڑی ہے کہ انکے اندر اسلامی بیداری کی بے مثال قوت موجود ہے ورنہ چار دہائیوں سے زائد اقتصادی پابندیوں کی موجودگی میں زندہ رہنا ناممکن تھا۔ ایرانی عوام نے اپنے عمل سے دنیا میں ثابت کیا کہ کسی غیرت مند قوم کو بلیک میل نہیں کیا جا سکتا۔ اکثر مسلمان ملکوں کے بر عکس امام خمینی نے موروثی سیاست کو فروغ نہیں دیا بلکہ ایک مضبوط اسلامی جمہوری ریاست کی بنیاد رکھ کر اپنے اقتدار کی منتقلی کی بہترین مثال قائم کی۔ یہی ایرانی انقلاب کی کامیابی کا راز ہے۔ ایرانی عوام امام خمینی کے جانشین آیت اللہ خامنئ کے ساتھ چٹان کی طرح کھڑے ییں۔

 

Qayuum Raja
About the Author: Qayuum Raja Read More Articles by Qayuum Raja: 55 Articles with 41189 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.