ہم ایٹمی قوت ہیں دشمن ہم سے ڈرتا ہے اور دنیا حیران و
پریشان تھی کہ ایسا ملک جہاں غربت اپنے عروج پر تھی سیاسی عدم استحکام
تھاہم لوگ سوئی تک نہیں بنا سکتے تھے مگر ایٹم بم بنا ڈالا نہ صرف ایٹم بم
بلکہ ناقابل یقین زمین سے زمین تک مزائل اور جے ایف تھنڈر جنگی جہاز بھی
بنا لیا مگر بدقسمتی سے آج بھی ہم بجلی ،صحت اور پانی جیسی بنیادی سہولیات
سے بہت دور ہیں اور جس نے پاکستان کو ایٹمی ملک بنایا اسکا جو حشر ہم نے
کیا وہ بھی سب کے سامنے ہے مجھے محسن پاکستان کے ساتھ کافی وقت گذارنے کا
موقع ملا ان پر لکھنے سے پہلے میں ایٹمی ملک کی تازہ دو خبریں لکھنا چاہتا
ہوں پہلی یہ کہ ایٹمی ملک کے سب سے بڑے صوبے کے ضلع لیہ کے نواحی علاقے ٹبہ
سلطان پور کے رورل ہیلتھ سینٹر گڑھ موڑ میں میں طبی عملے کی بے حسی اور
غفلت کے باعث حاملہ خاتون نے واش روم میں بچے کو جنم دے دیا بروقت آکسیجن
نہ ملنے کے باعث نومولود بچہ جاں بحق ہوگیا ہسپتال عملے نے خاتون کو طبی
امداد دینے کے بجائے اپنے کمرے کا دروازہ بند کر سوئے رہے دوسری خبر صوبائی
دارالحکومت لاہور کی ہے جہاں سے باپ وزیراعظم اور بیٹا وزیر اعلی ہے اور اس
شہر کے باسی پینے والے صاف پانی کو ترس رہے ہیں کئی علاقوں میں فلٹریشن
پلانٹ بند ہونے پر مسلم لیگ( ن)کی رکن سعدیہ تیمورنے پنجاب اسمبلی میں قرار
داد جمع کرواتے ہوئے لکھا ہے کہ ہربنس پورہ،تاج باغ،داروغہ
والا،شالیمار،مغلپورہ،گڑھی شاہو سمیت لاہور کے کئی علاقوں کے فلٹریشن پلانٹ
بندپڑے ہیں جسکی وجہ سے شہری پینے کے صاف پانی کی بوند کو ترس گئے ہیں
پاکستان کو ایٹمی طاقت بنے 24برس مکمل ہو گئے بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے
جواب میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے دورِ حکومت میں پاکستان نے 28 مئی 1998
کو بلوچستان کے علاقے چاغی کے مقام پر 5 کامیاب ایٹمی دھماکے کیے جس کے بعد
اس دن کو ’’یوم تکبیر ‘‘کے نام سے منایا جاتا ہے ہاں یاد آیااس دن کو یوم
تکبیر کا نام دینے والا ہمارا دوست مجتبی رفیق ابھی تک اس انعام کا منتظر
ہے جو اس وقت کی حکومت نے نام تجویز کرنے پر دینا تھا اس ایٹمی پروگرام کا
خالق ڈاکٹر عبدالقدیر خان تھا جو اب ہم میں نہیں رہا اﷲ تعالی انہیں جنت
الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے (آمین)ڈاکٹر صاحب نے جب اپنی ایک سیاسی
جماعت تحریک تحفظ پاکستان بنائی تو مجھے انہوں نے اس میں چار عہدے دیے
مرکزی ایڈیشنل سیکریٹری اطلاعات ،سیکریٹری اطلاعات پنجاب، انچارج میڈیا سیل
پنجاب اور بعد میں اپنا اور پارٹی ترجمان کا عہدہ بھی دیدیا اس حوالہ سے
میر ڈاکٹر صاحب سے قربت کافی بڑھ گئی الیکشن کے دنوں میں سپر مارکیٹ کے
سامنے نواب کیفی نے اپنی کوٹھی ڈاکٹر صاحب کو بطور دفتر استعمال کرنے کے
لیے دیدی جہاں پر میرے شب روز گذرنے لگے الیکشن کی مصروفیت کے باعث ڈاکٹر
صاحب سے تقریبا ہر روز ملاقات انکے گھر میں ہوتی تھی جہاں پر مختلف سیاسی
رہنماؤں سے ملاقات کا شیڈول بنتا تھا اس وقت بھی ڈاکٹر صاحب تقریبا اپنے
گھر پر نظر بندی کی زندگی گذار رہے تھے الیکشن میں جہاں لوگوں نے اپنے محسن
کو ووٹ نہیں دیا وہی پر ہمارے میڈیا ہاؤسز نے بھی ڈاکٹر صاحب اور انکی
پارٹی کو نظر انداز کیے رکھا آخری دنوں میں ڈاکٹر صاحب نے خود الیکشن لڑنے
سے معذرت کرلی مگر اپنے اپنے ٹکٹ ہولڈروں کو پورا سپورٹ کیا انتخابی نشان
میزائل کے ساتھ ساتھ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی تصویروں والے پوسٹر ،بینر اور
جھنڈے پورے ملک میں لگائے گئے لاؤڈ سپیکروں کے زریعے ڈاکٹر صاحب کا پیغام
گھر گھر پہنچایا گیا مگر جب نتیجہ آیا تو ہمارے سبھی امیدوار ہار گئے جس کے
بعد ڈاکٹر صاحب نے انتہائی دکھ اور افسوس کے ساتھ اعلان کیا کہ میں اپنی
پارٹی ختم کرتا ہوں اور الیکشن کمیشن میں درخواست دیکر پارٹی کو ختم کردیا
اسکے بعد جب بھی کبھی میں ڈاکٹر صاحب کو ملنے جاتا تو ہم اکثر انکے گھر کے
برامدے میں بیٹھ کر باتیں کرتے سامنے کی دیوار پھلانگ کر بندر بھی ڈاکٹر
صاحب کے پاؤں میں آکر بیٹھ جاتے ڈاکٹر صاحب انہیں مونگ پھلیاں ڈالنے کے
ساتھ ساتھ کہتے کہ ویسے تو لوگ میرے ہاتھ چومتے ہیں مجھے محسن پاکستان کہتے
ہیں اور میں نے پاکستان کے غریب لوگوں کے لیے بہت سے پروگرام دیے ملک کو
بجلی کے بحران سے نکالنے کے لیے ایٹمی بجلی گھر بنانا چاہتا تھا مگر ووٹ
نہیں دیے ڈاکٹر صاؓ نے اپنی کتاب داستان عزم میں لکھا ہے کہ ہم نے 1984میں
ایٹمی قوت حاصل کرلی تھی اور میں نے10دسمبر کو اس وقت کے صدر جنرل ضیاء
الحق کو لکھا تھا کہ جب آپ کہیں گے ہم ایٹمی دھماکے کے لیے بلکل تیار ہیں
پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے میں ذوالفقار علی بھٹو ،ضیاء الحق ،غلام اسحاق
خان ،آغا شاہی ،جنرل امتیاز ، بینظیر بھٹو ،میاں نواز شریف ،جنرل مرزا سلم
بیگ ،جنرل عبدالوحید کاکڑ نے نہایت کلیدی کردار ادا کیا جبکہ پاکستان کو
ایٹمی قوت بنانے میں ذوالفقار علی بھٹو کا کردار سب سے نمایاں ہے جنہوں نے
کہا تھا کہ اگر بھارت نے ایٹم بم بنایا تو ہم بھی بنائیں گے خواہ ہمیں گھاس
کھاکر ہی کیوں نہ گذارا کرنا پڑے تاریخ کا یہ سچ ہے کہ اگر ذوالفقار علی
بھٹو ایٹم بم بنانے میں دلچسپی نہ لیتے تو شائد آج بھی ہم ایٹمی قوت نہ
ہوتے ڈاکٹر صاحب اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ جب مجھے ایٹم بم بنانے کی ذمہ
داری دی گئی تو سابق چیئرمین انرجی کمیشن ڈاکٹر عشرت حسین عثمانی نے سابق
وزیر خارجہ ریاض محمد خان سے امریکہ میں مذاق اڑاتے ہوئے کہا تھا کہ ایک
لڑکا آیا ہے اور قوم کو بیوقوف بنا رہا ہے کہ مکھن بنانے والی مدھانی سے
ایٹم بم بنا کردیگا آخر کار اسی لڑکے نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنا کر دنیا
کے نقشے پر ناقابل انمٹ ملک بنا دیا اور ہم نے اسی محسن کو تادم مرگ نظر
بند رکھا وہ عدالت میں بھی گئے جہاں تاریخ پہ تاریخ دیکر انکا کیس لٹکایا
گیا ہم نے انکی کسی تجویز پر عمل کیا اور نہ ہی انہیں کسی ذمہ داری سے
نوازا دشمن کو انکے گھر میں گھس کر مارنے والابیلسٹنگ میزائل غوری دیکر
پاکستان کو ناقابل تسخیر بنانے والا محسن پاکستان اپنوں سے ہار گیا آخر میں
ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا اپنا ایک شعر
گذر تو خیر گئی ہے تیری حیات قدیر
ستم ظریف مگر کوفیوں میں گذری
|