پاک فوج کی پہلی ایف آئی آر

گزشتہ دنوں ملکی سیاسی حالات جس قدر سنگین نوعیت اختیار کر چکے تھے وہ کسی بھی ذی شعور پاکستانی کے لئے باعثِ تشویش تھے شکر ہے کہ افواجِ پاکستان اپنے آئینی اور قانونی حدود کے اندر رہ کر اپنا کردار ادا کر رہی ہیں۔سیاسی جماعتوں کو بھی ہوش کے ناخن لینے چاہیں اور ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں فیصلے کرنے چاہیے۔

چند دن پہلے سابق وزیر برائے انسانی حقوق شیریں مزاری کو ضلع راجن پور میں تجاوزات سے متعلق کیس میں گرفتار کیا گیا تھا۔ اس کے خاندان پر جی خان ڈسٹرکٹ میں 800 کنال اراضی ہتھیانے کا الزام ہے۔ کئی دہائیوں کی عدالتی تاخیر کے بعد پی ٹی آئی کی حکومت میں اس معاملے میں پولیس کیس درج کیا گیا۔ اے سی نے 8 اپریل 2022 کو کیس کی رپورٹ مرتب کی جس کی بنیاد پر اینٹی کرپشن نے اپنے رولز 2014 کے تحت فوجداری مقدمہ درج کیا۔ یہ مقدمہ ڈپٹی کمشنر راجن پور کی درخواست پر درج کیا گیا۔ اس کیس میں گرفتاری پر بغیر کسی ٹھوس ثبوت کے اس کی بدنام بیٹی ایمان مزاری نے اس کا الزام براہ راست فوج پر لگا دیا اور اس کو جبری گمشدگی قرار دیا۔ حالانکہ 'اینٹی کرپشن باڈی' اس کی گرفتاری کا اعلان کر چکی تھی۔

رہائی کے بعد بھی شیریں مزاری نے انٹرویو دیتے ہوئے تسلیم کیا تھا کہ ان کی گرفتاری کے ذمہ دار وزیراعظم اور وزیر داخلہ ہیں۔ لیکن بعد میں دونوں ماں بیٹی نے دفاعی اداروں پر الزام تراشی شروع کردی۔ اسلام آباد پولیس نے وضاحت جاری کی کہ شیریں مزاری سے ان کی بیٹی کے دعووں کے برعکس کوئی بدسلوکی نہیں کی گئی۔ ڈاکٹر شیریں مزاری کو محکمہ اینٹی کرپشن کی درخواست پر قانون کے مطابق خاتون پولیس اہلکاروں نے گرفتار کیا۔

چند دن پہلے جب شیریں مزاری کو پولیس نے گرفتار کیا تو ایمان مزاری کی ایک ویڈیو منظر عام پر آئی تھی جس میں انہوں نے موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی سرعام توہین کی ۔اسلام آباد کے تھانہ رمنا میں فوج کے ایڈووکیٹ جنرل ( جی ایچ کیو میں فوج کے قانونی شعبے) کی طرف سے کروائی گئی ہے۔یعنی ایمان مزاری کے خلاف دارالحکومت کے تھانہ رمنا میں گزشتہ روز سید ہمایوں افتخار، لیفٹننٹ کرنل فار جج ایڈووکیٹ جنرل، جنرل ہیڈکوارٹرز راولپنڈی کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا تھا، جس میں تعزیرات پاکستان کی دفعات 505 (لوگوں کو مسلح افواج کے خلاف اکسانا) اور 138 (جوان کو خلاف ورزی کی ترغیب دینا) شامل کی گئی ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کی ایمان مزاری کو ہر تاریخ سماعت پر عدالت کے سامنے پیش ہونے کی ہدایت۔فوج کی طرف سے درج اس ایف آئی آر میں لیفٹیننٹ کرنل سید ہمایوں افتخار نے پولیس کو بتایا کہ 21 مئی کو غروب آفتاب سے قبل پانچ سے چھ بجے کے درمیان شیریں مزاری کی بیٹی ایمان مزاری نے فوج، آرمی چیف (جنرل قمر جاوید باجوہ) کے خلاف تضحیک آمیز بیان دیا ہے۔ایمان مزاری نے اعلیٰ قیادت کے خلاف یہ الفاظ اسلام آباد ہائی کورٹ کے احاطے میں ادا کیے ہیں، جن کا مقصد فوج میں بغاوت پیدا کرنا اور اس کی قیادت کو دھمکانا ہے۔ اول تو یہ اخلاقیات کے خلاف ہے کیونکہ جنرل باجوہ چونکہ عمر میں ایمان مزاری سے بڑے ہیں اس لحاظ سے ان کا احترام کرنا بھی لازم ہے ایمان مزاری پر اور دوسری بات یہ کہ ایک معزز ادارے کے سربراہ کی حیثیت سے بھی ہمیں بحیثیت قوم اور ایمان مزاری کو بھی ان کا احترام کرنا ہوگا۔ ایمان مزاری نے اس سیاسی جنگ میں نہ صرف جنرل باجوہ اور فوج کو گھسیٹنے کی کوشش کی بلکہ گالیاں اور نازیبا زبان بھی استعمال کی۔ اس واقعے کے بعد قانونی کارروائی کے تحت ایمان مزاری کے خلاف ایف آئی آر درج کر لی گئی ۔ہمارا مطالبہ ہے کہ اس ملزمہ کو جلد از جلد گرفتار کرکے سزا سنائی جائے تاکہ آئندہ کوئی بھی کسی بھی معاملے میں کسی فرد یا ادارے کو گالی یا برے القابات سے نہ پکارے۔ یاد رکھیں دوسروں کی عزت وہی کرتے ہیں جنہیں اپنی عزت کا خیال ہوتا ہے۔

ایمان مزاری پیکا 2016 اور پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 499 کے مطابق ایک ادارے پر حملے کی مجرم ہیں ۔اب ایمان مزاری پر فوج کیخلاف نازیبہ الفاظ استعمال کرنے پر قانونی عمل کے تحت مقدمہ درج ہو چکا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ عدلیہ اس ملزمہ کیخلاف ایکشن لیتی ہے یا اسے بچانے کی کوشش کرتی ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ ایمان مزاری کے اداروں پر الزام تراشی اور بدنام کرنے کے جرم کو محض اس کے اپنے جذبات اور غصے کو جواز بنا کر اس کا جرم نہیں چھپا سکتے ۔ یہ کیس بھی ویسا ہی ہے جیسے غصے میں آ کر طلاق ، قتل یا دیگر کچھ بھی جرم یا عمل کرنا۔ قتل یا کسی کو کوئی نقصان عموماً غصہ کی ہی حالت میں کیے جاتے ہیں، اور غصہ کی حالت میں دی گئی طلاق شرعاً واقع ہو جاتی ہے۔اگر قتل یا کوئی دوسرا جرم یا نقصان جانی مالی وغیرہ کچھ بھی تو کیا ایسے ہی جج صاحب جذبات یا غم و غصہ کہہ کر بات ٹال نہیں سکتے کیونکہ یہ عام شخصیت نہیں ایک ملک کی فوج کے سپاہ سالار کے خلاف ایسے الفاظ یعنی فوج کا مورال پست کرنے کی کوششوں میں سے ایک کوشش ہے۔

ماں کے غائب ہونے یا پولیس سٹیشن میں ہونے پر جذبات و غصہ نکالا کس پر ؟آیا اور کیوں ؟ کیا اپنے جرم کی تفصیلی وضاحت دی ؟ کیا غصے میں کیا گیا جرم معاف ہوتا ہے ؟ غصّہ ایک انتہائی طاقتور جذبہ ہے۔یہ اس جذبے سے مغلوب انسان دوڑتا پھرتا ہے کہ سامنے والے شخص کو نقصان پہنچانے کے درپے ہوتا ہے۔ یہ وہ جذبہ ہے جو کچھ کر گزرنے کے جوش میں ہوتا ہے،اور جو کچھ یہ کروانا چاہتا ہےوہ ہمیشہ ہلاکت وبربادی کا نسخہ ہوتا ہے۔غیظ وغضب ایک انسان کے اندر سے ضبط نفس، رحم، شفقت اور محبت جیسے نفیس جذبات کوختم کرڈالتا ہے۔ اسی وجہ سے غصّہ انتہائی خطرناک جذبہ ہے، جواگر قابومیں نہ رکھا جائےتو انسان سے بدترین اعمال سرزد کرواتاہےجن کے نتائج نہایت گھمبیر ہوتے ہیں۔

پہلی بار آرمی نے ایمان مزاری کے خلاف، آرمی اور چیف کو گالیاں دینے پر FIR داخل کی۔ آئین و قانون میں حاصل تحفظ کے تحت انصاف کا دروازہ کھٹکھٹا لیا گیا۔ ہمیشہ بات کی جاتی ہے کہ پاک فوج الزام اور بہتان تراشی کرنے والوں کے خلاف قانونی راستے کی بجائے اقدامات کرتی ہے۔آرمی قیادت کی کردار کشی پر مدعی بن کر انصاف کا دروازہ کھٹکھٹایا گیا۔یہ اقدام پاک فوج کے اندر نفرت پیدا کرنے کا باعث بن سکتا تھا جو ایک سنگین جرم ہے۔یہ بیان دینا پاک فوج کے افسروں، جوانوں کو حکم عدولی پر اکسانے کے مترادف ہے۔پاک فوج اور سربراہ کی کردار کشی سے عوام میں خوف پیدا کرنا ریاست کے خلاف جرم ہے۔متعلقہ قوانین کے تحت ایمان مزاری کے خلاف سخت قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے۔فوج کی جانب سے قانونی راستہ اپنائے جانے کے بعد انصاف کے نظام کا امتحان شروع ہوگیا ہے۔قانون اور آئین پاکستان فوج کو ایسی کردار کشی سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔ کیا میڈیا اور سول سوسائٹی انصاف دلانے کے لیے اسی طرح آواز اٹھائے گی جیسے دیگر کے لیے اٹھائی جاتی ہے ؟ انصاف ملنے سے ادارے کی جانب سے ہر معاملے میں قانون کا دروازہ کھٹکھٹانے کی روایت جنم لے گی۔ ملک کے انصاف کے نظام کے لیے یہ تاریخی موقع ہے کہ اس مقدمہ کا سو فیصد میرٹ پر فیصلہ ہو۔اس سرخن کو خاتون ہونے، معصوم ہونے کو جواز نہیں ملنا چاہیے۔

ایمان مزاری کے خلاف یہ پہلی ایف آئی آر نہیں ہے اسی قسم کی بکواس کرنے پر 21مئی2022 کوبھی ایمان مزاری کے خلاف ایک ہتک عزت کی درخواست چیف جسٹس اطہر من اللہ نے یہ کہہ کر خارج کر دی تھی کہ ایمان زینب مزاری جذباتی ہیں لیکن وہ بار ایسوسی ایشن کی ایک قابل احترام رکن بھی ہیں ۔اطہر من اللہ بتا سکتے ہیں کہ کون سی شق کے تحت غصے اور جذبات میں کیا گیا جرم معاف ہے ۔قتل سمیت بہت سے جرائم اکثر غصے اور جذبات میں آ کر ہی کیے جاتے ہیں تو کیا وہ معاف ہیں؟اور کیا صرف بار کاونسل کے اراکین ہی قابل احترام ہیں؟

مارچ 2022 میں پریس کلب اسلام آباد کے سامنے مسلح افواج کو جان بوجھ کر نشانہ بنایا اور”بلوچ مسنگ پرسنز" کے نام پر ریاست پاکستان کو للکارتے ہلڑبازی کی اور بلوچوں کو پاکستان اور پنجابیوں کے خلاف اکسایا۔اس کے خلاف کوہسار تھانے میں مقدمہ درج کیا گیا جس میں مجرمانہ سازش ، ہنگامہ آرائی ، ہتک عزت ، نقص امن و حملے پر اکسانے کی دفعات تھیں لیکن حیرت انگیز طور پر اسلام آباد کےاسی جج نے نادر شاہی حکم جاری کر کے پولیس کو مقدمے کی پیروی اور گرفتاری سے روک دیا۔جج صاحب نے اس وقت بھی یہی جواز پیش کیا کہ تھوڑی غصلے والی ہیں اور سب سے بڑھ کر بار کاونسل کی رکن ہیں یعنی ہماری برادری یا پیٹی بھائی ہیں۔

اب یہ تیسری بار ایف آئی آر ہے اس بار جج کو سوچنا ہوگا ورنہ وہ بھی جرم میں برابر تصور کیئے جائیں گے ۔ کیونکہ یہ ایمان مزاری سب سے بڑ ھ کر "سرخن" ہیں یعنی ان سرخوں کا حصہ ہیں جو سرخے رات دن یہ شور مچاتے ہیں کہ فلاں کو فلاں ایجنسیاں لے گئیں فلاں کو قانون سے غائب کر دیا زبردستی غائب کیا ۔اور اداروں پر چادر اور چار دیوری کی خلاف ورزیوں کا بھی الزام لگاتے رہتے ہیں ۔ اور عدالتوں میں بیٹھے جج انہیں بار کونسل کا ممبر یعنی مقدس قرار دیتے آئے ہیں ۔ ان کے خلاف عدالتوں میں پیروی کرنا اور کیس چلانا حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔مجھے ایک بات سمجھ نہیں آئی میرے ملک اور میری فوج کو گالیاں دینے والوں کو میرے ہی ٹیکس پر پلنے والے جج کیسے کسی کو ایسے معاف کر سکتے ہیں ؟

ایمان مزاری کی فوج دشمنی اور جھوٹ پر مبنی الزام تراشی کا اعتراف شیریں مزاری خود بھی کر چکی ہیں۔ ایمان مزاری کی ایک ٹویٹ پر ردعمل دیتے ہوئے شیریں مزاری نے ٹویٹ کی تھی کہ 'مجھے شرم آتی ہے کہ آپ ایسے گھٹیا، ذاتی نوعیت کے غیر مصدقہ حملوں کا سہارا لیتی ہیں، خاص طور پر جب کہ آپ وکیل ہیں اور آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ بغیر کسی ثبوت کے اس طرح کے الزامات لگانا ہتک عزت کہلاتا ہے۔" اسی طرح ایک اور موقع پر ایمان مزاری نے اپنی والدہ شیریں مزاری کے ساتھ اپنی ذاتی واٹس ایپ چیٹ کا اسکرین شاٹ شیئر کیا جہاں وہ فوج کے خلاف ان کے جھوٹے اور بے بنیاد الزامات کی وجہ سے اس کی سرزنش کر رہی تھیں۔ 23 ستمبر 2018 کو شیریں مزاری نے ایمان مزاری سے فوج کے خلاف بیانات پر کہا، "آپ کو پاک فوج کے خلاف اپنی جنونی نفرت کو چھوڑنے کی ضرورت ہے۔ آپ اپنی عقل کھو چکی ہیں اور اس سے آپ کی ساکھ کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ لیکن حیرت انگیز طور پر وہی شریں مزاری اپنی بگڑی ہوئی اولاد کو سنبھالنے کے بجائے اس کے نقش قدم پر چلنے لگیں۔ ایمان مزاری مشکوک کردار کی مالک اور نہایت بدنام ہیں۔ اس نے 2015ء میں ٹویٹر پر ایک ہی جنس کی شادی کی کھل کر حمایت کی جب امریکہ نے ہم جنس شادی کا قانون منظور کیا۔ مبینہ طور پر لندن میں قیام کے دوران وہ غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث رہیں۔

ان کا اعلانیہ جھوٹ ان ماں بیٹی کی ساکھ پر سوالیہ نشان بھی ہے۔ زمینوں پر قبضے کے معاملات ان کے کمزور کردار اور نام نہاد ہیومن رائٹس کی فعالیت کو بے نقاب کرتے ہیں۔یہ صرف اور صرف انٹرنیشنل میڈیا تک رسائی حاصل کرنے کے لیے بلوچ عوام کع بےوقوف بنانے کی کوشش کر رہی ہیں مزید یہ کہ وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق کی حیثیت سے شیریں مزاری کی کارکردگی اوسط سے کم رہی۔ وہ ناپختہ ثابت ہوئیں اور سیاسی اور جمہوری معاملات میں جارحانہ طرزعمل اختیار کرتی تھیں۔ ان ماں بیٹی کے خلاف فوج اور اس کی قیادت کے خلاف بدنیتی پر مبنی الزامات اور پروپیگنڈے پر قانونی کارروائی کی ضرورت ہے اور اس کی مناسب تحقیقات کی جانی چاہیں۔جب وہ اپنے الزامات کے حق میں ثبوت پیش نہ کر سکیں تو ان پر ہتک عزت کا مقدمہ چلنا چاہیے۔ مذکورہ کیس نے مزاری ماں اور بیٹی کی ساکھ پر سوالیہ نشان ہے, ان کا جھوٹ اور زمینوں پر قبضے کا معاملہ ان کے کمزور کردار اور نام نہاد انسانی حقوق کے دعوؤں کو بے نقاب کرتا ہے۔ پاکستان کے عوام سوال کرتے ہیں کہ کیا ایمان مزاری کی طرف سے پاکستان کے معزز ادارے اور اس کی قیادت کو بدنام کرنے پر قانون حرکت میں آئے گا ؟پاکستان کے عوام چاہتے ہیں کہ فوج اور اس کی قیادت کے خلاف ایمان مزاری کے ہتک آمیز ریمارکس کے خلاف مناسب تحقیقات اور ایمان مزاری کو سزا ہونی چاہیے۔

بحیثیتِ پاکستانی میرا یہی ماننا ہے کہ سیاسی اختلافات اپنی جگہ لیکن ملکی دفاع، سالمیت، خود مختاری، مستحکم مستقبل کے لئے کوشش اور محنت کرنا ہی ہر پاکستانی کا نصب العین ہونا چاہئے۔حالیہ دنوں جہاں اتنے تشویشناک حالات میں افسوسناک واقعات رونما ہوئے وہیں اپنے خلاف ایک منظم سوشل میڈیا مہم کے باوجود افواجِ پاکستان کا کردار اس ساری صورتحال میں انتہائی دانشمند اور مثبت رہا ہے۔

افواجِ پاکستان نے اپنے غیر سیاسی اور غیرجانبدار ثالثی کردار سے واضح طور پہ پیغام دیا کہ وہ سیاسی معاملات میں کسی بھی قسم کی مداخلت کے حامی نہیں ہے لیکن جہاں بات ملکی مفاد اور دفاع کی ہو، خواہ وہ اندرونی ہو یا بیرونی، وہاں پاکستانی افواج کسی بھی سمجھوتے کی قائل نہیں اور اپنی تمام تر صلاحیتوں کو بروئے کار لا کر ملک کی ظاہری اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کے لئے ہمہ وقت تیار ہے۔دشمن کے ارادوں کی بروقت شناخت اور اس کا فوری سدباب کسی بھی ریاست کی خودمختاری کے لئے بڑا چیلنج ہے۔

افواجِ پاکستان نے سنگین حالات میں ایک غیر سیاسی ، غیرجانبدار ثالث کا کردار ادا کر کے یہ ثابت کیا ہے کہ تمام چیلنجز کا مقابلہ صرف یکجہتی سے ہی ممکن ہے۔ہمیں ان بحرانوں سے نہ صرف مل کر نپٹنا ہے بلکہ ملکی خوشحالی و ترقی کے لیے اپنے اداروں کے ساتھ بھی کھڑے ہونا ہے۔ملک دشمن عناصر جتنی بھی کوششیں کر لیں وہ پاکستانیوں کے دل سے پاکستان اور افواجِ پاکستان کی محبت و تکریم کو نہ ختم کر سکیں ہیں نہ کر پائیں گے۔

پاک فوج نے ہمیشہ ملک و قوم کے مفاد کے لیے کلیدی کردار ادا کیا ہے اور آئین و قانون کی بالادستی کی حامی رہی ہے۔پاک فوج نے نہایت پیشہ وارانہ طریقے سے آئین و قانون کے مطابق موجودہ سیاسی بحران میں مثبت کردار ادا کیا۔

حالیہ دنوں پاک فوج کی جانب سے جو اقدام اٹھائے گئے وہ نہایت قابل ستائش ہیں۔پاک فوج نے غیرجانبدار ثالثی کے طور پر تمام سیاسی جماعتوں کو سہولت مہیا کی جس سےسیاسی صورت حال بہتر ہوئی ۔ملک وعوام کے مفاد کی خاطر پاک فوج نے ہمیشہ پر امن طریقے سے مسائل حل کرنے پر زور دیا ہے۔پاک فوج ہمیشہ ملک کو ُسیاسی ومعاشی لحاظ سےمستحکم رکھنے پر کوشاں ہے۔

پاک فوج زندہ باد
پاکستان پائندہ باد
 

Raja Muneeb
About the Author: Raja Muneeb Read More Articles by Raja Muneeb: 21 Articles with 25464 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.