عبد الغنی محتشم : ایک روشن چراغ
جس کی روشنی چار سو پھیل گئی -۲
مدراس کی مختصر ملازمت کے بعد آپ نے تلاش معاش میں آندھرا پردیش کا رخ کیا
، جہاں آپ کا پہلا پڑاؤ شہر نیلور تھا، یہاں ایک سالانہ میلہ لگا تھا ، جس
میں آپ نے ایک کینٹین لگائی تھی، شہر اجنبی رہنے سہنے کی کوئی خاص جگہ نہیں
تھی ، ایک مسجد میں قیام کیا ، وہیں وضو خانے میں نہاتے ، رات کے وقت ٹاٹ
اوڑھ کر سو جاتے ، اس میلہ سے جو رقم بچ گئی اسی سے آئندہ تجارتی زندگی کا
آغاز کیا ، یہاں آپ نے محمود شیکرے ،کولا سکری ، خورشید خومی، جعفر شیکرے
کی شراکت میں کینرا کیف ، سیما کیف ، شملہ کیف وغیرہ قائم کئے اور اپنا
کاروبار وجے واڑہ ،حیدرآباد ، مدراس اور کالیکٹ تک وسیع کیا ، بعد میں وجے
واڑہ آپ کی تجارت کا مرکز بن گیا جہاں ، کینٹن ، بیکری اور سوپر مارکیٹ کا
ایک جال بچھ گیا ، یہاں شیکرے سکری آپ کے شریک رہے ، آپ نے اپنی تجارت میں
شراکت کا ایسا وسیع اور کامیاب تجربہ کیا جس کی دوسری مثال تاجران بھٹکل
میں نہیں ملتی، ایک اندازے کے مطابق تقریبا(۵۱) افراد مختلف تجارتوں میں آپ
کے شریک رہے اور کامیابی سے باہمی احترام کے ساتھ کاروبار آگے بڑھاتے رہے۔
اس دوران آپ نے جماعتی زندگی اور اہالیان بھٹکل کی معاشی زندگی کے سدھار
اور ان کی رہنمائی کےلئے اپنے رفقاءکی شراکت سے آل آندھرا نوائط فنڈ قائم
کیا ، جس کی شائع کردہ نوائط ڈائرکٹر ی سنہ ستر کی دہائی میں وطن عزیز میں
اہالیان بھٹکل کی تجارتی سرگرمیوں کی آخری بہار کی ایک جھلک دکھاتی ہے ،
اسے دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ جو برادری گزشتہ سات آٹھ سوسال سے جنوب مغرب
میں کوچین کی بندرگاہ سے شمال مشرق میں کلکتہ اور ویشاکا پٹم اور کاکیناڈا
تک ،مغرب میں بمبئی سے مشرق میں مدراس (چنئی) تک اور وسطی علاقے میں تیرپور
، سیلم ، ایروڈ ، کوئمبتور ، اوٹاکمنڈ سے ہوتے ہوئے حیدرآباد تک ہوٹل اور
کپڑے کے کاروبار میں اپنے جھنڈے گاڑ چکی تھی ، کس طرح خلیج عرب کے دہانے اس
پر کھلتے ہی وطن عزیز میں اپنے مفتوحہ بہت سی تجارتی منڈیوں کو ایسا خالی
کردیا جیسے کبھی یہاں سے ان کا گذر بھی نہ ہوا ہو۔
وجے واڑہ کے ابتدائی دور میں آپ و رفقاءکی ہمدردیاں جماعت اسلامی ہند کے
ساتھ قائم ہوئیں، کیوں کہ یہ شہر اس وقت آندھرا میں جماعت کا مرکز سمجھا
جاتا تھا ، اس شہر سے جماعت کے دو عظیم قائدین اور نامور خطیب مولانا عبد
الرزاق لطیفی اور مولانا عبدا لعزیز کی اٹھان ہورہی تھی ، یہ ان حضرات کے
شباب کا دور تھا ، یکے بعد دیگرے ان حضرات نے ٹامل ناڈو اور آندھرا پردیش
کی امارت سنبھالی ، یہاں آپ کے رفقاءنے جماعت کے زیر انتظام ایک اسکول کے
قیام میں بھی حصہ لیا، جس کی وجہ سے اس زمانے میں بھٹکل کے پڑھے لکھے افراد
میں ایک معتد بہ تعداد کی ہمدردیاں اس جماعت کے ساتھ قائم ہوئیں۔
آپ کے فرزند فیاض محتشم بیان کرتے ہیں کہ آپ دینی جماعتوں سے تعلق میں تعصب
سے بلند ہوکر ہمیشہ اعتدال کی راہ اپنانے کا خیال رکھتے تھے، آپ ہی نے
دوران طالب علمی انہیں تبلیغی جماعت میں جانے پر آمادہ کیا تھا ، لیکن جب
تجارت و دیگر امور میں ان کا دھیان کم ہوگیا تو بعد میں آپ نے اس سلسلے میں
اعتدال کی راہ اپنا نے کا مشورہ دیا ، لیکن جب ان کے سامنے ایک صاحب نے
تبلیغی جماعت پر تنقید کی اور اس سے منسلک احباب میں صرف ذکر وفکر کے غلبہ
اور دنیا داری سے پہلو تہی کرنے کی شکایت کی تو آپ نے اس اعتراض کو پسند
نہیں کیا اور فرمایا کہ ذکر وفکر بھی ایک مسلمان کے لئے نہایت ضروری چیز ہے۔
ایلور میں جب قادیانی تحریک کا اثر بڑھ گیا اور تقریبا ستر مساجد ان لوگوں
کی دسترس میں چلے گئے تو آپ نے مولانا وصی اللہ مدنی صاحب کو ہمت دلائی اور
تعاون کیا ، جس کے بعد اللہ نے مولانا کے ہاتھوں بڑا کام لیا ۔
سنہ ساٹھ کے عشرے کا آخری حصہ بھٹکل کے لئے بہت ساری اجتماعی اور معاشرتی
تبدیلیاں لے کر آیا ، اس دوران قوم کے اہم مرکزی سماجی اور تعلیمی اداروں
مجلس اصلاح وتنظیم اور انجمن حامی مسلمین بھٹکل کے انتظامی ڈھانچہ میں
انقلابی تبدیلیاں رونما ہوئیں ، تنظیم میں ۴۶۹۱ء میں درپیش ایک بڑے بحران
کے بعد الحاج محی الدین منیری مرحوم کی ایڈمنسٹریٹر شپ میں الیکشن کے بعد
ایک نئی روح اور ولولہ پیدا ہوا۔ اجتماعی اور سماجی زندگی کواز سرنو زندگی
ملی ۔ انجمن کے ۸۶۹۱ءمیں انتظامیہ الیکشن منعقد ہوئے جس میں نوجوان قیادت
سامنے آئی ، اس الیکشن کے کمشنر بننے کا فال بھی منیری صاحب کے نام نکلا ،
اس نئی ابھرنے والی نوجوان لیڈرشپ میں اہم نام عبد الغنی محتشم صاحب کا بھی
ہے۔
جب اس ٹیم نے اسٹیک سنبھالی انجمن آرٹس اینڈ سائنس کالج قائم ہوکر اپنے
ابتدائی مرحلے سے گذر رہاتھا ، انجمن آرٹس کالج کے قیام میں جناب عبد
القادر حافظکا صاحب مرحوم کا بڑا ہاتھ تھا ، اس وقت انجمن حامی مسلمین کی
کل کائنات اسلامیہ اینگلو اردو ہائی اسکول اور یہ کالج ہی تھے ، بعد میں
انجمن نرسری و پرائمری اسکول، انجینیرنگ کالج ، مینجنمٹ کالج وغیرہ اسکولوں
اور کالجوں کا جو بھٹکل میں جال بچھا بنیادی طور پر اس کا کریڈٹ مرحوم اور
ان کے رفقاءکو جاتا ہے۔
سیاسی میدان میں یس یم یحیی مرحوم کی صورت میں قوم کو جو کامیاب اور باوقار
قیادت ملی ، اس میں بھی مرحوم کی جد وجہد اور رفاقت کو نظر انداز نہیں کیا
جاسکتا۔ آپ تنظیم کے سیاسی پینل کے باربار کنوینر رہے،سیاسی فیصلوں کے
موقعہ پر رہنمائی کے لئے قوم کی آپ پر ہمیشہ نظر رہی۔ وطن میں امن عامہ
قائم کرنے میں بھی آپ کا ہمیشہ کلیدی کردار رہا ، یہاں آنے والے تمام پولیس
آفیسروں نے آپ کی قدر کی ، غیر مسلم قیادت بھی ہمیشہ آپ کو قدر کی نگاہ سے
دیکھتی رہی ، پیس میٹینگوں میں ہمیشہ آپ کی شرکت کو ضروری سمجھا گیا۔
جماعت المسلمین بھٹکل کی سرگرمیوں میں جذباتی لگاؤ کے ساتھ آپ نے حصہ لیا ،
اسے مضبوط کرنے میں ہمیشہ اپنا کردارنبھایا۔
جامعة الصالحات کی کاروائیوں میں ابتدا سے منیری صاحب کے شانہ بہ شانہ رہے
، اس کی ترقی کے لئے ہمیشہ ساتھ دیا ۔
جامعہ اسلامیہ بھٹکل کی مجلس شوری کے آپ بہت دنوں سے ممبر رہے ، جامعہ آباد
منتقلی وغیرہ کے موقعہ پر آگے آگے رہے ، یاد گار جامعہ میں صدر جامعہ جناب
شابندری محسن کا انٹریو اس کی ایک علامت ہے، لیکن چونکہ اس زمانے میں انجمن
کی ذمہ داریاں آپ پر بہت زیادہ تھیں، وسیع کاروبار کی نگہداشت کا مسئلہ بھی
درپیش تھا، لہذا سنہ ستر کی دہائی میں جامعہ میں آپ کی عملی شرکت بہت زیادہ
کھل کر سامنے نہیں آسکی ، البتہ اہم فیصلوں کے موقعوں پر آپ ہمیشہ شریک رہے،
لیکن جب منیری صاحب جامعہ کے ناظم بنے تو جامعہ میں آپ کا عمل دخل بہت بڑھ
گیا ، منیری صاحب کو اپنے سے ناراض افراد کو قریب لانے اور ان کی صلاحیتوں
سے مستفید ہونے کا فن خوب آتا تھا ، اسی کی دہائی کے بعد یہ دونوں ایک جان
دو قالب بن گئے ، آپ کی رفاقت سے منیری صاحب کو خوب تقویت ملی ، پھر جناب
ملاحسن صاحب او ر جناب محمد شفیع شابندری صاحب کے دور نظامت میں بھی یہ
تسلسل جاری و ساری رہا ۔ مشکل حالات میں آپ کی موجودگی بڑی حل المشکلات
ثابت ہوتی رہی۔
ہر انسان اللہ تعالٰی کی عطا کردہ خداداد صلاحیتوں اور ان کے بر محل
استعمال ہی سے کسی معاشرے میں اپنی جگہ بناتاہے۔ اللہ تعالٰی نے مرحوم کو
بھی کئی ایک اہم صفات سے نوازا تھا ، جنہیں آپ نے قوم اور معاشرے بہبود کے
لئے استعمال کیا ، غلطی سرزد ہونا ہرانسان کا خاصہ ہے ، یہی چیز تو ایک
انسان کو فرشتہ سے الگ کرتی ہے ۔ |