قرآن کریم میں ارشاد ہوا " اللہ
نے خرید لی مومنوں سے ان کی جان اور ان کا مال اس قیمت پر کہ ان کے لیے جنت
ہے –(سورہ توبہ )"
توپخانے کی ایک مایہ ناز رجمنٹ کے کچھ جوان اور افسر پہاڑوں میں بل کھاتی
سڑک پہ بڑے سجھ دھج کے کوٹلی میرپور روڈ پہ واقع ایک گاؤں کالاڈب کی جانب
محو سفر تھے ان کے کانوائے میں ایک سفید رنگ کی گاڑی بھی تھی جو جیسے ہی
کالاڈب کی وادی میں داخل ہوئی تو اس چھوٹے سے قصبے کے بچے بوڑھے جوان مائیں
بہنیں بیٹیاں یہاں تک کہ دور دور سے آئے ہوئے لوگوں نے اس سفید گاڑی کی ایک
جھلک دیکھنے کے لیے کالاڈب قصبے کے گاؤں DUBLIA کا رخ کیا . ہزاروں کا مجمہ
اس کانوائے کی سب سے اہم سواری کا پہلا دیدار کرنا چاہتا تھا .
پانچ اگست سے ہی لوگ اس سواری کے منتظر تھے اور آج آٹھ اگست کی صبح ہی سے
وادی کا منظر اسقدر سوز میں ڈوبا ہوا تھا کہ یہاں کے مکینوں کے لیے ہر منٹ
دنوں پہ بھاری تھا. آخر وہ گاڑی طے شدہ مقام پہ رکی اور کس نے نعرہ تکبیر
بلند کیا اور یہ اعلان کیا گیا کہ اللہ کا سپاہی اور وطن کا بیٹا اپنے گھر
کو لوٹ آیا ہے . گاڑی کا دروازہ کھلا اور شہید کارگل کپٹین جاوید اقبال
شہید کا جسد خاکی بڑی شان سے نکالا گیا .
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جان کی کوئی بات نہیں
آج کارگل کی جنگ کو بارہ سال گزر گئے ہیں مگر آٹھ اگست کی یادیں اور کارگل
کی جنگ کی روح پرور کہانیاں آج بھی مادر وطن کشمیر کی آزادی کی خاطر جان
دینے والی شہدا کی بے مثال اور بنظیر داستانیں اللہ کے ان سفیروں اور
سپاہیوں کو ہم میں زندہ رکھے ہیں. میں کارگل کی جنگ کا عینی شاہد ہوں اور
اللہ نے مجھ پہ یہ کرم کیا ہے کہ میں نے اس جنگ میں شہادت کا مقام پانے
والوں کی داستانوں کو انکے خاندانوں سے سنا اور پڑھنے والوں تک پہنچایا .
کارگل کی جنگ کے ایسے ہی ایک بہادر دید بان توپچی کی داستان پیش خدمت ہے .
وطن کی بنیادوں میں شہدا کے لہو کی داستانوں کا جہاں جہاں ذکر آئے گا وہاں
ایک داستان کیپٹن راجہ جاوید اقبال شہید کی ہو گی جو سر زمین بے آئین سیاہ
چن ( کارگل) کے محاذ پر داد شجاعت دیتے ہوئے شہید ہوئے.
کیپٹن راجہ جاوید اقبال شہید جرآت و دلیری ، عزم و ہمت اور قوت ارادی کی
بہترین مثال تھے . کیپٹن راجہ جاوید اقبال شہید کا تعلق علاقہ نرماه DUBLIA
راجگان ڈسٹرکٹ کوٹلی آزاد کشمیر سے تھا . آپ کے دادا زیلدار سفید پوش راجہ
سخی ولایت خان علاقے کی معزز شخصیت تھے انھیں سفید پوش کا خطاب ان کی عوامی
خدمات اور علم دوستی کی بنا پر ملا ، تاریخ گواہ ہے کہ جب ١٩٤٧ میں آزادی
کی جنگ لڑی گئی تو راجہ سخی ولایت خان مجاہدین کے دستوں کو کمک پہنچانے اور
خدمات میں پیش پیش تھے. ١٩٣٤ ڈوگرہ دور حکومت میں پرجا سبھا کے الیکشن سے
پہلے سفید پوش ہی حکومتی ایوانوں میں عوام کے ترجمان ہوتے تھے . راجہ سخی
ولایت خان زیلدار نے اپنے عہدے اور رتبے کو خدمت خلق کے لیے وقف کیا اور
علاقے میں امن ، تعلیم ، سڑکوں کی تعمیر ، جنگلات سے عوام کو روزگار کی
فراہمی اور بے شمار ایسے یادگار کام کیے جو آج بھی صدقہ جاریہ ہیں اور لوگ
انھیں یاد کرتے ہیں . راجہ سخی ولایت خان کے دادا ، پردادا بھی اسی طرح
پشتوں سے علاقے کے زیلدار اور عوام پرور تھے .
کیپٹن راجہ جاوید اقبال شہید کے والد راجہ بشیر احمد ١٩٦٠ سے برطانیہ میں
مقیم ہیں . کیپٹن راجہ جاوید اقبال شہید ٢٢ دسمبر ١٩٧٢ میں پیدا ہوئے اور
ابتدائی تعلیم چونلی بوائز سکول لوٹن سے حاصل کی . آپ کے والد نے اپنے دیگر
بچوں کی طرح جاوید شہید کو دینی تعلیم سے بھی آراستہ کیا آپ نے قرآن پاک و
احادیث نبویؐ کی تعلیم لوٹن اسلامک سینٹر سے حاصل کی ابتدا سے ہی جاوید ایک
ذہین طالب علم تھے سکول کے تمام امتحانات انہوں نے نمایاں نمبروں میں پاس
کیے جس کی بنا پر آپ کے اساتذہ آپ سے بے حد محبت کرتے تھے . جاوید کو تعلیم
کے ساتھ ساتھ کھیلوں ، غیر نصابی کتب کے مطالعے اور بہترین مقررین کی
تقاریر سننے کا شوق تھا .
اسلامی اور دینی سوچ کے ساتھ ساتھ افغانستان میں روسی افواج کے مظالم اور
سرزمین کشمیر میں بھارت کے استبداد نے جاوید کے اندر ایک سپاہی کو جنم دیا
. سکول کی تعلیم مکمل کرتے ہی جاوید نے پاکستان میں مقیم اپنی بہن اور
بہنوئی سے رابطہ کیا اور پاک فوج میں شامل ہونے کی خواہش کا اظہار کیا .
جاوید اقبال کے بہنوئی اسوقت خود بھی ایک فوجی افسر تھے اور ہمیشہ جاوید کے
آئیڈیل رہے . جاوید شہید کا جذبہ دیکھتے ہوئے انکے بہنوئی نے انکی حوصلہ
افزائی کی اور یوں جاوید اقبال شہید کا سفر پہلے جونیر کیڈیٹ اکیڈمی منگلا
سے شروع ہوا. ١٩٨٩ میں جاوید اقبال شہید نے پاکستان ملٹری اکیڈمی جوائن کی
اور اپنے سابقہ تعلیمی ریکارڈ کو بحال رکھتے ہوئے اکیڈمی میں جاوید شہید نے
کمپنی سینیر انڈر افسر کا اعزاز حاصل کیا . دوران تربیت آپ نے کھیلوں اور
دیگر امور میں انعامات بھی حاصل کیے. ملٹری اکیڈمی سے فارغ التحصیل ہونے کے
بعد جاوید اقبال شہید نے ایک جنگی اعزاز یافتہ آرٹلری رجمنٹ میں شمولیت
اختیار کی اور اپنی رجمنٹ کو کھیلوں میں کافی انعامات دلوائے . آپ نے
پروفیشنل کورسز میں ہمیشہ پہلی یا دوسری پوزیشن لی اور وکٹری سٹینڈ شہید کی
شہادت تک اسکی پہچان رہا .
جاوید کم عمر مگر بہت وسیع مطالعہ رکھتے تھے ، انکی من پسند کتب میں تاریخ
، تصوف ، شخصیات کی تاریخ اور ملٹری ہسٹری آج بھی انکی لائبریری میں موجود
ہیں . جاوید شہید نے اردو کتب کا مطالعہ اکیڈمی میں رہتے ہوئے کیا اور
باضابطہ یہ زبان سیکھی . میری شہید سے جب بھی ملاقات ہوتی تو وہ مجھے اشعار
سنانے کو کہتے اور ان کا مطلب پوچھتے . جاوید شہید کو حضرت علامہ اقبال کے
کچھ اشعار زبانی یاد تھے اور ان کے پاس کلیات اقبال کاایک مجموعہ بھی تھا
جسمیں انہوں نے رومن میں کافی سارے اشعار خود کے لیے لکھ رکھے تھے . ملٹری
ہسٹری پہ بے شمار کتب ووہ خود برطانیہ سے لاۓ تھے اور اکثر انکا مطالعہ
کرتے رہتے . یہی وجہ تھی کہ شہید کے پاس کتابوں کا ایک بہت بڑا خزانہ تھا .
جاوید کبھی چھٹیوں میں اپنے گاؤں جاتے تو گاؤں کے بچوں میں بیٹھتے انھیں
تعلیم کی طرف راغب رہنے کی تلقین کرتے اور انہوں نے اسی علاقے کے ایک بہادر
شہید صوبیدار بہادر خان شہید تمغہ جرأت کے نام سے منسوب ایک کرکٹ کلب بھی
بنوایا جس کی وہ چھٹیوں میں قیادت کرتے .
جذبہ شہادت جاوید کی رگوں میں رچا بسا ہوا تھا وہ اکثر کہتے کہ آرام اور
سکوں کی زندگی میں ولایت میں چھوڑ آیا ہوں یہاں آنے کا مقصد منزل کا حصول
ہے. جاوید اقبال کی منزل شہادت تھی اور اس کا انھیں اللہ نے اہل بنایا تھا
. اپنی پاسنگ آؤٹ کے بعد وہ مدت سے سیاہ چن جانے کی تیاری اور جستجو میں
تھے . وہ اکثر اپنے سینیر افسران سے اس کا تذکرہ کرتے رہتے . شہید نے اپنے
خاندان اور پاکستان میں آباد بہن کی مرضی پہ کم عمری میں ہی شادی کر لی اور
اللہ نے انھیں دو بیٹوں سے نوازہ . جب کارگل کی جنگ کا آغاز ہوا تو شہید کی
خواہش کی تکمیل ہوئی اور انھیں شویک سیکٹر ( سیاہ چن ) جانے کا حکم ملا .
میدان پکار رہا تھا اور اللہ کا سپاہی مدت سے اس دن کا منتظر تھا ، جانے سے
پہلے کیپٹن جاوید اقبال شہید نے اپنی بیگم کو بتلایا کہ میں لوٹ کر نہیں
آؤں گا میرا انتظار مت کرنا بچوں کی تربیت کرنا اور ہو سکا تو انھیں بھی
فوج میں جانے کی تلقین کرنا میرے والدین کو حوصلہ دینا اور سب سے کہنا کہ
میرے غم میں کوئی آنسو نہ بہائے . سفر شہادت پہ جانے سے پہلے شہید کچھ ماہ
قبل ہی برطانیہ میں اپنے والدین اور دیگر رشتے داروں سے ملنے گئے .
کیپٹن جاوید شہید اپنی یونٹ کے ایک درویش صفت سپاہی نصیر احمد جو کہ ایبٹ
آباد کا رہائشی تھا سے بہت محبت کرتے تھے . نصیر کے مطابق شہید نے ایک دفعہ
مسجد میں جمعہ کی نماز کے بعد اس سے کہا کہ " نصیر تم کچھ سالوں سے میرے
ساتھ ہو، دعا کرنا اللہ مجھے شہادت کا رتبہ عطا کرے" اور ساتھ یہ بھی تلقین
کی کہ جب میں شہید ہو گیا تو میرا سامان میرے گھر پہنچا دینا اور ساتھ ساتھ
اس خواہش کا اظہار بھی کیا کہ اس روز میرے گاؤں کی مسجد میں تم ہی آذان
دینا تمہاری آواز میں بہت سوز ہے . اسی طرح شہید جس روز کارگل کے جنگی
میدان میں اترنے والا تھا تو اس نے اپنے بہنوئی کو بتایا کہ اب میری بہن اس
ملک میں اکیلی ہو جائے گی اسکا خیال رکھنا اور اگر میں شہید ہو گیا تو میرے
گھر والوں کو سمجھانا کہ شہادت کا رتبہ کیا ہوتا ہے .
کچھ روز بیس کیمپ میں گزارنے کے بعد جب کیپٹن جاوید اپنی پوسٹ پر پہنچے تو
وہ بھرپور انداز میں جنگ میں شامل ہو گئے اور دشمن پر وہ کاری ضربیں
لگوائیں کہ دشمن سخت ہزیمت کا شکار ہوا پانچ اگست کو یاد کرتے ہوئے کیپٹن
جاوید کے ساتھی بتاتے ہیں کہ کیپٹن جاوید نے اپنے گن پوزیشن افسر سے فائر
مانگا وہ اسوقت دشمن کی حرکات کو ایک چوکس دیدبان کی طرح دیکھ رہے تھے اور
بغیر کسی اوٹ کا سہارا لیے جہاں جہاں بتاتے انکو فائر ملتا اور دشمن سر
زمین کشمیر پہ اپنے زخم چاٹتا رہا . یہ دشمن پہ قہر کا دن جبکہ جاوید اقبال
شہید کو اپنی منزل پانے اور انعامات حق حاصل کرنے کا دن تھا . یکم اگست کو
کیپٹن جاوید کی رلیف بیس کیمپ میں پہنچ گئی تھی یعنی ان کی جگہ کسی اور
افسر کی تعیناتی کا وقت تھا مگر انہوں نے پانچ دن کا وقت مانگا اور پانچ دن
بعد اللہ کا یہ شیر اس پھرتی سے دشمن پہ برسا کہ جس کی نظیر نہیں ملتی . جب
پاک فوج کا حملہ رکا تو دشمن نے جوابی فائر کیا اور کیپٹن جاوید ایک بار
پھر سے اوٹ سے نکلے کہ دیکھا جائے کہ یہ فائر کہاں سے آ رہا ہے اور اسی
اثنا میں دشمن کے گولے کا ایک ٹکڑا انکی گردن کے بائیں جانب لگا اور وہ
شہید ہو گئے. ( اناللہ )
یوں برطانیہ سے شروع ہونے والا سفر سیاہ چن کی بلندیوں پہ ختم ہوا . جاوید
اقبال کی زندگی اور شہادت دونوں انوکھے اور شاندار تھے ، شہید کے دو بیٹے
ہیں حمزہ جاوید اور جنید جاوید جو ابھی پاکستان میں اپنی والدہ کے ساتھ
راولپنڈی میں رہتے ہیں اور کبھی کبھی اپنے دادا دادی کو ملنے برطانیہ آتے
رہتے ہیں . میں شہید کو بہت اچھے سے جانتا تھا میرا ان سے وعدہ تھا کہ جب
وہ کچھ ایسا کریں گے کہ جو بے مثال ہو گا تو میں اسے کتابی صورت دوں گا .
کیپٹن جاوید شہید کی شہادت کے بعد انکی زندگی کے احوال کو میں نے کتابی
صورت میں ترتیب دیا جسے پاکستان میں کچھ دوستوں نے "سربکف" کے نام سے
چھپوایا مگر چونکہ پاکستان میں شہید کی عزت اور قربانی صرف اسکی بر سی پہ
کی جاتی ہے اور باقی وقت سیاستدانوں کی کرپشن اور پاکستان دشمن عناصر کی
تشہیر میں صرف ہوتا ہے اسی لیے ایسی کتب پہ کم از کم حکومت پاکستان توجہ
نہیں دیتی.
آج کا پاکستانی نوجوان حب الوطنی اور پاکستانیت سے بھرپور ہے بس ضرورت عزم
اور حوصلے کی ہے اور پھر صبر اور اتحاد سے کیپٹن جاوید اقبال شہید جیسوں کی
قربانی اور لہو سے سینچے پاکستان کو منزل کی طرف لے جانے میں کوئی رکاوٹ
آڑے نہیں آئے گی . اللہ پاکستان اور عالم اسلام پہ کرم فرمائے اور کشمیر کے
مظلوم کشمیریوں کو آزادی کی صبح دکھائے . آٹھ اگست ١٩٩٩ کی شام کیپٹن جاوید
شہید کے آبائی گاؤں کی مسجد میں سپاہی نصیر نے اپنے کمانڈر کی خواہش پوری
کی اور مغرب کی آذان جب دی اور اللہ اکبر کی صدا بلند کی تو ہر آنکھ اشکبار
تھی ، نصیر کا اپنے کمانڈر سے حب اور رب سے عشق سچا تھا شائد اسی لیے ہر
سال پانچ اگست کو اسی آذان کا سرور حاصل کرنے سینکڑوں لوگ کالاڈب آتے ہیں .
آج میں شہید سے اپنے وعدے کی تجدید ان الفاظ میں کروں گا
چراغ ابھی تک بھجے نہیں ہیں
قافلہ ابھی رکا نہیں ہے
وادی کشمیر میں
ظلم کا بدل ہٹا نہیں ہے
قسم تمہاری اے زندہ جاوید
کوئی تم سا ملا نہیں ہے
ستم کی راتیں ابھی ہیں جاری
عدو کی رسمیں ابھی ہیں کاری
تمہارے جیسا کہاں ملے گا
جو ظلم کی اس سیاہ رات میں
چراغ بن کر خود جلے گا
کارگل سے کوٹلی تک
امید فتح بن سکے گا
قسم تمہاری اک سوچ ہو تم
جس نے ہم کو یقیں دلایا
ہم تو کہتے رہ گئے
تم نے وہ سب کر دکھایا
اٹھے قدم تو رکے وہ کب تھے
حیات جاوداں سے ملے وہ جب تھے
اگست کا یہ پانچواں دن
لوٹتا ہے تو پوچھتا ہے
قسم تمھاری ابھی بھی دل میں
خیال تمہارا ہی گونجتا ہے
توپخانے کی پلٹنوں میں
ہر سپاہی یہ بولتا ہے
سربکف وہ توپچی جو
وطن کی خاطر فدا ہوا تھا
لوٹ کر وہ آ رہا ہے
نور مصطفیٰ میں غوطہ زن ہے
بدر کے میدان میں کھڑا ہے
پکارتا ہے !
اٹھو جوانوں!!
میرے لہو کی لاج رکھنا
خاک رنگ پہنا ہے تم نے
قائم اس کا راج رکھنا
قسم سلطان الآرافیں کی
قسم فلک کی قسم زمیں کی
تم ہی ہو زندہ
تم ہی ہو قائم
تمہارے دم سے
سب ہی ہیں دائم
راہ وفا کے شہید اعظم
سلام سب کا قبول کرنا
سلام انوار وصول کرنا |