قوت برداشت جواب دے چکی ہے، پراپیگنڈا وار ہر گھر میں
ڈیرہ ڈال چکی ہے ۔غیر یقینی کی کیفیت نے ایمان کمزور اور فہم و دانش کے
خانے عقل میں بند کر دئیے ہیں۔ تاویلیں، دلیلوں کی جگہ اور افواہیں، ثبوتوں
کے طور پر تسلیم کی جا رہی ہیں۔اسی کو تو کہتے ہیں مفلوج ہونا۔ پاکستانی جو
ایک قوم بننے جا رہے تھے بند گلی میں دھکیلے جا چکے ہیں۔ وقت کی رفتار ہے،
پھٹکار ہے اور دھتکار ہے۔ دنیا والے جو بھی سوچتے رہیں۔ ایک حکیم ایسا ہے
جس کی پلاننگ اور حکمت کے سامنے کسی کی نہیں چلتی۔ شاید یہ ہم سب کیلئے
آخری موقع ہے کہ ہم اپنے لئے ایک مثبت سمت کا تعین کر کے، ایمان، اتحاد،
تنظیم اور یقین و محکم کا ہاتھ تھامتے ہوئے، امر باالمعروف و نہی عن المنکر
کا راستہ پکڑتے ہوئے، مرجعیت کے جھنڈے تلے جمع ہو کر ایک ایسی قوم بن کر
ابھریں کہ جس میں کوئی سیلولر سپیس باقی نہ رہے۔ یہ امر وقت کی اہم ضرورت
ہے۔ ہمیں سوچنا ہوگا کہ ملک میں بحرانوں کی کیفیات کیا ہیں! انکا منبع کیا
ہے اور ان کے تسلط کی وجہ تسمیہ کیا ہے؟؟
ایک جتھہ آیا اس نے عدم اعتماد کے ذریعے ایک منتخب حکومت گرا دی اور خود
مسلط ہوگیا، حکومت اپوزیشن میں بدلی تو انہوں نے سارے ملک کو یرغمال بنا
لیا۔ دونوں اطراف کے لوگ ایک دوسرے پر غداری کی شدید الزام تراشی کرنے لگے۔
اگر اس جمہوری انتخاب کی دوڑ میں صرف غدار ہی ایوانوں میں جا رہے ہیں تو تف
ہے پاکستانیوں کے جمہوری شعور پر۔ذرائع ابلاغ بھی بے یقینی کی فضا قائم
کرنے میں بھرپور کردار نبھا رہے ہیں۔ ایسی ہراسگی اور افواہوں کے پاور
ہاؤسز کے بارے میں بھی دل شکوک سے بھرا ہوا ہے کہ کیا وہ پاکستانیت کے ساتھ
ہیں بھی یا نہیں؟! ایک خبر کو اس طرح سنسی خیز انداز میں پیش کر کے حقائق
کے ساتھ کھلوار کر کے عوام الناس کی ذہن سازی کی جا رہی ہے۔ عدم برداشت
پھیلنے کا یہ ایک بڑا سبب ہے۔سیاستدان پہلے جھوٹے وعدے کرتے ہیں، پھر پورے
نہ کر پانے پر عوام کا رخ موڑنے کیلئے سیاسی لڑائیاں اور الزام تراشیاں
شروع کر دیتے ہیں۔ جب اطرف کے فریقین بلیک میل ہونے کے بعد مل بیٹھتے ہیں
تو ذاتیات کو بچانے کیلئے اداروں کی حرمت نیلام کر تے ہیں۔ یوں لگتا ہے
گویا یہ لوگ پاکستانی ہیں ہی نہیں بلکہ اپنے اپنے آقاؤں کا حکم نافذ کرنے
کیلئے پاکستان پر مسلط ہیں۔ دھرنا سیاست ناکام ہوئی یا کامیاب ہوئی؟
اپوزیشن کتنی کرپٹ ہے اور دودھ کا دھلا کون! سبھی، سب جانتے ہیں؟ جمہوری
نظام کسی بھی ملک کو گھٹنوں پر لانے کیلئے کس حد تک استعمال ہو سکتا ہے،
کیا ہم نے دیکھا نہیں؟
نام نہاد عوام کے خدمت گاروں نے جو نقصان پاکستان کو پہنچایا ہے کیا وہ اس
کیلئے معافی کے قابل بھی ہیں؟ اگر منتخب نمائندے صرف اپنا کام کرتے اور
اداروں کو اپنا کام کرنے دیا ہوتا تو نہ کسی کو لاڑکانہ اور لاہور کی سڑکوں
پر گھسیٹنے کی ضرورت پیش آتی! نہ کسی کو کرپشن کا بے تاج بادشاہ کہلوانا
پڑتا اور نہ ہی ہمیں baggers can't be choosers کا طعنہ سننے کو ملتا۔ جس
قدر پاکستان کے ستونوں کو پروپیگنڈوں کی دیمک چاٹ کر کھا رہی ہے، کیا اس کے
بعد بھی گدھوں سے اپنا سر نوچوانے کا انتظار کیا جا سکتا ہے؟ یہ گدھوں کی
دنیا ہے جس میں ہم اپنا مسیحا تلاش کر رہیں۔ حق تو یہ بنتا ہے کہ سیاسی طور
پر کوئی کتنا ہی بڑا حریف کیوں نہ ہو! جب پاکستانیت کی بات ہو تو سب ایک
پیج پر متفق ہوں اور دشمنوں کو کرارا جواب دیا جاتا کہ رہتی دنیا تک ان کی
نسلیں یاد کرتیں۔
روایتی حریف بھارت کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا، نواز شریف کیلئے جب
آلو گوشت اور پائے کا ناشتہ ہیلی کاپٹر کے ذریعے آتا تھا اس وقت بھارت اپنے
ملک میں ڈیم بنا رہا تھا اور جب پاکستان ڈیم بنانے کیلئے کوشش کر رہا تھا
تو سیاسی اسے روکنے کیلئے اتنے پرجوش دکھائی دیتے تھے کہ شاید اس ڈیم میں
ان کا گھر بہہ جائے گا؟!! جب ملک پر آفت آئی تو ان سیاسی امیروں نے قوم کا
وارث بننے کی بجائے اپنی تجوریوں کو تالے لگوا دئیے۔ ایسے لگتا ہے کہ عوام
الناس پاکستان میں صرف بیوقوف بننے کیلئے اور سیاسی کارکن صرف سیاسی راہ
نماؤں کے مفاد کیلئے قربان ہونے کو رہ گیا ہے۔ اب عوام کو خود اپنے لئے کچھ
کرنا ہوگا۔ پاکستان کی سلامتی کیلئے اداروں کی سلامتی یقینی بنانا ہو گی۔
جھوٹوں اور مفاد پرست ٹولے سے چھٹکارا پانا ہوگا۔ سپریم کورٹ آف پاکستان سے
گزارش ہے کہ پاکستان پر کالے بادلوں کی صورت چھائی اس انارکی کو ہٹانے
کیلئے اپنا بہترین سے بہترین کردار ادا کرے، عوام کو چاہئے کہ اپنے کردار
کو مثبت بنا کر ایسا معاشرہ تشکیل دے، جس میں ادارے مضبوط، نظام عدل فعال
اور محبت کا چمن خوشبو بکھیرتا ہو۔ ضروری نہیں کہ خونی انقلاب ہی آئے، جس
طرح یہ ہمیں تقسیم کر کے مارتے ہیں ہم بھی ان غداروں کو تقسیم کرکے کیفر
کردار تک پہنچائیں۔ مجھے یہاں تفصیل دینے کی ضرورت نہیں کہ غدار کون ہے؟!!
سب ثابت ہو چکا ہے۔ لیکن حکمت بھی ضروری ہے۔ یہ سب کے سب بھوکے گدھ ہیں، جن
سے اپنا سر بچانا بہت ضروری ہے۔اﷲ ہم سب کا اور پاکستان کا حامی و ناصر ہو۔
|