برصغیر پاک و ہند میں صوبوں کی
تقسیم دراصل برطانوی نو آبادیاتی نظام کی ضروریات کے عین مطابق کی گئی تھی
کہ کوسوں دور سے بھی نو آبادیوں کوقابو میں رکھا جاسکے۔ مزید یہ کہ برطانوی
حکمرانوں نے صوبوں کی حد بندی، زبان اور ثقافت کی بنیاد پر کی تھی، تو
ابتدا ہی سے ہمارا معاشرہ منقسم ہے، معروف سامراجی پالیسی” تقسیم کرو
اورحکومت کرو “کے ایجنڈے کے عین مطابق چل رہا ہے۔۔۔۔۔۔دنیا بھر میں صوبے،
درحقیقت ملک کی سیاسی اکائیوں کی انتظامی سرحدوں کا درجہ رکھتے ہیں، جو قوم
کی بڑھتی ہوئی ضروریات کے مطابق ہمیشہ تبدیل ہوتی رہتی ہیں۔ ساری دنیا میں
صوبوں کی سرحدوں میں تبدیلی ایک مسلسل عمل ہے اور یہی حقیقت قوم پرستوں کے
مذموم عقائد کو یک سر مسترد کرتی ہے۔ اگر صوبے قومیتوں کی بنیاد پر بنائے
جاتے، تو آج امریکا میں اکیاون، جاپان میں سینتالیس، مصر میں چوالیس، ایران
میں چوبیس، فرانس میں بائیس، بنگلہ دیش میں اکیس اور میکسیکو میں بتیس صوبے
نہیں ہوتے۔ ۔۔دنیا کا ہر چھوٹا، بڑا ملک ذیلی نظاموں میں تقسیم در تقسیم
ہوتا رہتا ہے، لیکن اس ذیلی نظام کے تحت بسنے والے لوگوں نے کہیں بھی اپنی
علیٰحدہ قومیت کا دعویٰ نہیں کیاجبکہ انتظامی فیصلوں کوسیاست سے پاک
رکھاگیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آزادی کے وقت آٹھ صوبے بھارت کے حصے میں چلے گئے، جب کہ
تقسیم شدہ پنجاب اور بلوچستان پر مشتمل علاقوں سمیت چار صوبے پاکستان کو
ملے۔ بھارت سمجھ داری کا مظاہرہ کرتے ہوئے، صوبوں کی تعداد میں اضافہ کرتا
رہا، چنانچہ آج وہاں ورثے میں ملے آٹھ صوبوں کی بجائے پینتا لیس صوبے ہیں۔
بھارت میں عملاً تمام صوبوں کی نئے سرے سے حد بندی کی گئی اور نئے صوبے
کرناٹک، مہاراشٹر، آندھرا پردیش، تامل ناڈو، راجستھان، گوا، کیرالا،
میزولینڈ، میگھالیہ وغیرہ وغیرہ بنائے گئے۔ مزید یہ کہ مشرقی پنجاب، جو
ہمارے پنجاب کی نسبت کہیں چھوٹا تھا، اسے مزید تین صوبوں ہریانہ، ہماچل
پردیش اور پنجاب میں تقسیم کر دیا گیا، جب کہ ہمارا صوبہ پنجاب جیسا تھا ،ویسا
ہی رہا۔ جب ہم اپنے پنجاب کی روبہ زوال ترقی کا موازنہ تین صوبوں میں تقسیم
مشرقی پنجاب کی زراعت، معیشت اور صنعت کے شعبوں میں شان دار ترقی سے کرتے
ہیں، تو عدم مرکزیت کے ثمرات کا صحیح اندازہ ہوتا ہے۔ بھارت میں بنائے گئے
نئے صوبوں کے عوام نے اس عرصے میں معاشی اور سماجی مفادات کی بنیاد پر نئی
شناخت اپنائی ہے۔بھارت، جاپان، فرانس، جرمنی اور دیگر جمہوری ممالک حتٰی کہ
ہم سے الگ ہونے والے بنگلہ دیش کو بھی دانش مندی سے اکیس اکائیوں میں تقسیم
کردیا گیا۔صوبوں کی تعداد میں اضافے کی تجویز کے مخالفین کا واحد قابل بحث
نکتہ یہ پیش کیا جاسکتا ہے کہ اس پر عمل درآمد سے غیر پیداواری انتظامی
اخراجات میں کئی گنا اضافہ ہوجائے گا۔ تاہم، حقیقت اس کے برعکس ہے ،۶۵۹۱ءمیں
مغربی پاکستان کے نو صوبوں کو ملاکر ایک یونٹ بنادیا گیا تھا‘ جس سے
انتظامی اخراجات میں کمی کے برعکس بیس فی صد اضافہ ہوگیا۔ اسی طرح جب ۱۷۹۱ءمیں
آدھا مشرقی حصہ الگ ہوا تو پاکستان کے بقیہ مغربی حصے میں وفاقی حکومت کے
انتظامی اخراجات میں غیر معمولی اضافہ ہوگیااور متحدہ پاکستان
کے۱۷۹۱ئ،۲۷۹۱ءکے بجٹ کے مقابلے میں‘ مغربی بازو کے بجٹ میں ستائیس فی صد
اضافہ دیکھنے میں آیا۔ کئی لوگوں کو یقین ہے کہ اگر مزید صوبے بنادیے جاتے
ہیں‘ تو وہ اتنے چھوٹے ہوں گے کہ ان کا انتظام مشکل ہوجائے گا۔ یہ رائے عدم
واقفیت اور محدود سوچ کی مظہرہے۔ اس لیے کہ مجوزہ صوبے رقبے کے لحاظ سے
چھوٹے نہیں ہوں گے‘ جیسا کہ عموماً سمجھا جاتا ہے۔ مجوزہ بائیس صوبوں میں
سے ہر ایک صوبے کی اوسط آبادی چوہتھترلاکھ نوے ہزار نفوس پر مشتمل ہوگی‘ جو
کہ دنیا کے تمام ممالک کے صوبوں‘ ریاستوں کی اوسط آبادی سے دوگنا ہوگی۔
مزید یہ کہ دنیا کے بتیس ترقی یافتہ ممالک کی آبادی سے زیادہ ہوگی‘ جن میں
اسرائیل‘ لیبیا‘ اردن‘ سوئٹزر لینڈ‘ ناروے‘ ڈنمارک‘ فن لینڈ‘ نیوزی لینڈ‘
تاجکستان‘ برونائی شامل ہیں اور دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ممالک خود بھی
بالترتیب چھ‘تیرہ‘سولہ‘ انیس‘ تیرہ‘ بارہ‘ بائیس اورنو صوبوں پر مشتمل ہیں۔
دنیا کی پانچویں بڑی ریاست ہونے کے باوجود پاکستان میں صوبوں کی تعداد بہت
کم ہے، جب کہ اس سے چھوٹے ممالک مثلاً سری لنکا‘ اردن اور اسرائیل میں بھی
پاکستان سے زیادہ صوبے ہیں۔ ہمارے پڑوسی ممالک ایران اور افغانستان میں بھی
بالترتیب چھبیس اوربتیس صوبے ہیں۔۔۔۔۔پاکستان کے صوبوں کی آبادی کا اوسط
دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔ دنیا کے دس بڑے ممالک کو چھوڑ کر تمام آزاد
ممالک سے اکیلے صوبہ پنجاب کی آبادی زیادہ ہے۔ اس کی آبادی لیبیا اور
سوئٹزر لینڈ کی آبادی سے دس گنا‘بیلجیئم‘ کیوبا اور یونان سے سات گنا‘
افغانستان‘ آسٹریلیا اور سری لنکا سے چار گنا‘ اسپین اور کینیڈا سے دوگنا
بلکہ یہ مصر‘ جرمنی‘ ایران‘ ترکی‘ فرانس‘ اٹلی‘ برطانیہ اور جنوبی افریقا
کی آبادی سے بھی زیادہ ہے۔ صوبہ بلوچستان کا رقبہ (تین لاکھ سینتالیس ہزار
ایک سو نوے اسکوائر کلو میٹر) ہے‘ جو دنیا کے ایک سو آٹھ آزاد ممالک کے کل
رقبے سے زیادہ ہے۔ یہ صوبہ کیوبا‘ یونان‘ کوریا اور یوگو سلاویہ سے تین گنا‘
بنگلہ دیش اور نیپال کے رقبے سے ڈھائی گنا‘ شام‘ کمبوڈیا اور برطانیہ سے
ڈیڑھ گنا بڑا ہے۔ جب کہ بیلجیئم‘ نیوزی لینڈ‘ پولینڈ ‘ ویت نام اور
ملائیشیا سے بھی رقبے میں زیادہ ہے۔ اسی طرح صوبہ سندھ کی کل آبادی (تین
کڑور چار لاکھ انتالیس ہزار آٹھ سو تیرانوے اسکوائر کلو میٹر) دنیا کے ایک
سو دو آزاد ممالک سے زیادہ ہے۔ یہ صوبہ لیبیا‘ سویڈن اورسوئٹزر لینڈ کی
آبادی سے چار گنا‘ بیلجیئم‘ کیوبا‘ یونان اور یوگو سلاویہ سے تین گنا‘
افغانستان‘ آسٹریلیا‘ شام اور سری لنکا سے ڈیڑھ گنا بڑا ہے جب کہ اس کی
آبادی سعودی عرب‘ عراق اور تائیوان کی آبادی سے بھی زیادہ ہے۔۔ہمارے ان غیر
متوازن صوبوں کا مجوزہ نسبتاً چھوٹے‘ متوازن‘ مستحکم اور قابل عمل بائیس
صوبوں سے یہ تقابلی یقیناً ایک موازنہ‘ ناتجربہ کار اور حریص سیاسی رہنماؤں
کے لیے یقیناً ایک چشم کشا تجربہ ہوگا۔ جو نہ صرف لاعلم ہیں‘ بلکہ ان میں
سیاسی بصیرت اور دانش کا بھی فقدان ہے۔ یہ عام مشاہدے کی بات ہے کہ بڑی
وسیع تنظیموں میں زیادہ وقت صرف اندرونی گفت و شنید اور خط و کتابت ہی میں
صرف ہوجاتا ہے۔ اسی طرح کسی بڑے محکمے میں ایک مختصر جواب لینے میں کافی
وقت لگ جاتا ہے۔ جیسے جیسے کوئی تنظیم فروغ پاتی ہے‘ اندرونی ابلاغ کی
رکاوٹوں میں بھی اسی نسبت سے اضافہ ہوتا جاتا ہے‘ اسی لیے مختصرجواب کے
حصول میں بھی کافی وقت لگ جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے ادارے باعث زحمت ہے‘
سست اور غیر موثر ہوتے ہیں۔ اگر مزید صوبے بناکر ان صوبائی تنظیموں کا حجم
کم کردیا جائے‘ تو اس سے انتظامی اخراجات میں معمولی اضافہ تو ہوگا‘ لیکن
پس ماندہ علاقوں کو قریب لانے اور حجم میں کمی کے سبب ان کا مواخذہ کرنے
میں آسانی ہوگی۔ جس سے وہ اہل اور موثر ہوجائیں گے۔ اس طرح یقیناً آمدنی
میں بھی اضافہ ہوگا۔ان منفعت بخش نتائج کی بنیاد پر موجودہ غیر متوازن
صوبوں کے بدلے مندرجہ ذیل بائیس صوبوں اور اسلام آباد کا علیحدہ علاقے کی
حیثیت سے قیام ممکن ہے۔ مکران‘ لسبیلہ‘ قلات‘ سبی‘ کوئٹہ‘ کراچی‘ حیدرآباد‘
لاڑکانہ‘ سکھر‘ بہاول پور‘ ڈیرہ غازی خان‘ ملتان‘ لاہور‘ گوجرانوالہ‘ فیصل
آباد‘ سرگودھا‘ راول پنڈی‘ ڈیرہ اسماعیل خان‘ پشاور‘ ہزارہ‘ مالا کنڈ
اوربائیس شمالی علاقہ جات (گلگت ایجنسی) اسی طرح فاٹا کا علاقہ ملحقہ صوبوں
مالا کنڈ‘ پشاور اور ڈی آئی خان میں ضم کردیا جائے۔ اس تنظیم کی صورت میں
ہمارے مجموعی نظام میں استحکام ناگزیر ہوگا۔ نظرانداز کئے جانے کا احساس‘
بداعتمادی اور پس ماندگی کا خاتمہ ہوجائے گا۔
حقیقی اور پائیدار جمہوریت کا قیام یقینی ہوگا نتیجتاً بدعنوانی اور
لاقانونیت کے عفریت ایڑیاں رگڑ رگڑ کر دم توڑ دے گا۔ معاشی سرگرمیوں کے
فروغ سے ملازمتوں کے مواقع کئی گنا بڑھ جائیں گے، جس سے بالآخر اعتماد‘ صحت
بخش مقابلہ‘ ترقی اور خوش حالی کے پائیدار دور کا کام یابی سے آغاز
ہوگا۔نئے صوبے پنجاب کی بنیاد پر نہیں بلکہ پاکستان کی بنیاد پر بنائے
جائیں، مزید صوبوں کے قیام کیلئے نیشنل کمیٹی بنائی جائے، پنجاب کے
وزیراعلٰی کا کہنا ہے کہ پاکستان کے نئے صوبے لسانی بنیاد پر نہیں انتظامی
بنیاد پر بننے چاہئیں، انکا کہنا تھا کہ ملک میں کرپشن جاری ہے، جس کے تحت
ملک سے لوٹ کھسوٹ کر کے دولت بیرون ملک منتقل کی جا رہی ہے اور ملک کے غریب
عوام کے وسائل کو جس بے دردی سے لوٹا جا رہا ہے ان چوروں اور ڈاکووں سے
انکی کھلی جنگ ہے اور اس کرپشن کے خلاف وہ اپنی جان کی پروا کیے بغیر اپنا
کردار ادا کریں گے۔ انکا کہنا تھا کہ ملک کی سیاسی جماعتوں سے رابطہ میں
ہیں جبکہ کراچی کے حوالے سے انکا کہنا تھا کہ روشنیوں کے شہر کو بدقسمتی سے
کسی کی نظر لگ گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نئے صوبوں کے قیام کیلئے انتظامی
اور سیاسی بنیاد کے دائرہ کار میں رہ کر ایک نیشنل کمیٹی بنائی جائے، جس
میں چاروں صوبوں کے نمائندے موجود ہوں۔ شہباز شریف نے کہا کہ ایم کیو ایم
کراچی اور حیدرآباد میں پیپلز پارٹی سے کیا چاہتی ہے یہ اس پر چھوڑا جائے،
مگر روشنیوں کے شہر کو نظر لگ گئی ہے، حکومت سمیت تمام جماعتوں کو امن کی
بحالی کیلئے کردار ادا کرنا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں غریب عوام کے
وسائل کی لوٹ مار جاری ہے،اور وہ اپنی جان اور مال کی پروا کئے بغیر وفاقی
حکومت کی اس لوٹ مار اور غبن کو نہ صرف بے نقاب کرینگے بلکہ اس کے خلاف قوم
کو متحرک بھی کریں گے ،وزیراعلی پنجاب محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ ملک
میں کرپشن اور لوٹ مار کا بازار گرم ہے، غریب عوام کے وسائل کو بے دردی سے
لوٹا جا رہا ہے، قوم کے اربوں کھربوں لوٹ کر بیرون ملک منتقل کئے گئے، میں
نے وفاقی حکومت کو پہلے بھی چیلنج کیا تھا اور اب پھر چیلنج کرتا ہوں کہ
ہماری چوروں' ڈاکوﺅں اور غاصبوں کے خلاف کھلی جنگ ہے اور اپنی جان کی پرواہ
کئے بغیر لوٹ مار کرنے والوں کوبے نقاب کریں گے اور اس حوالے سے پوری قوم
کو متحرک کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ کرپشن کو بے نقاب کرنے پر دھمکیاں ملنا
کوئی حیرانی کی بات نہیں، زندگی موت اللہ کے ہاتھ میں ہے اور سب کو ایک دن
جانا ہے، موت کی پرواہ کئے بغیر قومی وسائل کو لوٹنے والوں کو بے نقاب کرتا
رہوں گا۔۔۔۔۔آئین اور قانون کے دائرہ کار میں مزید صوبے بنانے میں کوئی
نقصان نہیں ہے۔رائے عامہ کے مختلف رہنماﺅں نے اس موقف کا اظہار کیا ہے کہ
آئین اور قانون کے دائرہ کار میں مزید صوبے بنانے میں کوئی نقصان نہیں
ہے۔وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کا بیان کہ پاکستان پیپلزپارٹی اگلے عام
انتخابات میں نئے صوبوں کے قیام کو اپنے منشور کا حصہ بنائے گی۔قومی اسمبلی
کے ڈپٹی اسپیکر فیصل کریم کنڈی نے اعلان کو مثبت اشارہ قراردیا ہے۔انہوں نے
کہاکہ ا س سے سرائیکی علاقے کے لوگوں کا دیرینہ مطالبہ پوراہوگا۔
انہوں نے کہاکہ پی پی پی اتفاق رائے کی سیاست کی قائل ہے اور قانونی اور
آئینی طریقوں سے مزید صوبے بنائے جاسکتے ہیں۔پاکستان مسلم لیگ(ن) کے سینیٹر
پرویزرشید نے کہاکہ نئے صوبے دوسرے ملکوں میں بھی بنائے گئے ہیں اوراگر
پاکستان میں بھی ایسا ہی ہوتو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہوگا تاہم انہوں نے
کہاکہ اس بات کاجائزہ لیاجاناچاہیے کہ کہیں نئے صوبوں کامطالبہ دیگر اہم
مسائل سے توجہ ہٹانے کیلئے تو نہیں ہے ۔ پاکستان کی صورتحال انتہائی
تشویشناک ہے محب وطن سیاستدانوں کو متحد ہونا ہوگا۔اعجاز الحق نے مسلم لیگ
قاف کو شدید سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ موجودہ بد عنوان حکومتی
ڈھانچہ کو ( ق) گروپ نے سہارا دیکر ثابت کیا ہے کہ (ق) گروپ اور پی پی پی
مفادات کی سیاست کررہے ہیں (ق ) گروپ عدلیہ کے ساتھ محاذآرائی میں حکومت کا
فریق بن گیا ہے یہ انتہائی تشویش ناک صورتحال ہے ملک کے محب وطن رہنماؤں کو
اس صورتحال کا ادراک کرتے ہوئے فوری طور پر یکجا ہونا ہوگا ۔اعجاز لحق نے
(ن ) لیگ کے سربراہ میاں نواز شریف سے ملاقات کرکے انہیں پاکستان کی
صورتحال کے پس منظر میں راضی کرنے کی کوشش کریں گے ان کا کہنا تھا کہ ق لیگ
اور موجودہ حکومت کے اتحاد سے قومی اداروں سے محاذآرائی کی ابتداءکردی گئی
ہے انہوں نے کہا کہ زرداری نے (ق) لیگ کو یقین دہانی کرائی ہے کہ (ق) لیگ
میں کرپشن کرنے والوں کو معاف کرتے ہوئے مقدمات واپس لئے جائیں گے تو عدلیہ
اور قانون کی بالا دستی کو ختم کرنے کے مترادف ہے جب ان سے پوچھا گیا کہ
مسلم لیگ (ضیائالحق) کے مرکزی ڈپٹی سیکریٹری جنرل فیصل محمد نے بھی کراچی
کو صوبہ بنانے کا عندیہ دیا تو انہوں نے کہا ہماری جماعت اس بات کی تائید
کرتی ہے کہ پاکستان میں مزید صوبے ہونے چاہئے انہوں نے فیصل محمد کے اس
بیان کی بھی تائید کی کہ پاکستان مسلم (ضیاءالحق ) عمران خان سمیت ہر اس
سیاسی جماعت سے تعاون کر سکتی ہے جو پہلے پاکستان کی بات کرے تاہم (ق) لیگ
سے اتحاد کو انہوں نے مکمل طور پر رد کیا۔ایم کیو ایم کے ڈپٹی کنوینرڈاکٹر
فاروق ستار کا کہناہے کہ ان کی پارٹی پنجاب اور خیبرپختونخوا میں مزید
صوبوں کے مطالبے کی حمایت کرتی ہے، ظاہر ہے کہ ایسا ہونے سے کراچی کی شکل
میں سونے کی چڑیا ان کے ہاتھ آسکتی ہے، وزیراعظم پاکستان نے بھی قومی
اسمبلی کے فلور پر حال ہی میں کہا کہ وہ پنجاب میں نئے صوبوں کے قیام کے
مطالبے کی پوری طرح سپورٹ کرتے ہیں، ظاہر ہے کہ پنجاب کی مزید تقسیم سے
جنوبی پنجاب میں ان کی پارٹی کی گرفت مضبوط ہوگی، ہیں تو یہ سب سیاست کے
کھیل، پر یہ بات اب طے ہے کہ اب لوگ مزید صوبوں کے قیام کی بات کو کھل کر
کرنے لگے ہیں اور کل تک جو بات کرنامعیوب سمجھی جاتی تھی آج اس پر سر عام
بحث ومباحثہ کاایک سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔اب لوگ لسانی شناخت، انتظامی
سہولت اور ترقیاتی کاموں میں مستعدی اورسرکاری فنڈز کی منصفانہ تقسیم کے
حصول کے لئے مزید صوبوں کا مطالبہ کررہے ہیں، صوبہ پنجاب کو ہی لے لیجئے
ایسا نظر آتاہے کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ پنجاب صوبے کے وزیر اعلیٰ نہیں بلکہ
صرف لاہور کے وزیراعلیٰ ہیں وہ صوبے کے ترقیاتی فنڈز کو پنجاب کے پینتیس
اضلاع میں منصفانہ طورپر خرچ کرنے کی بجائے ان کاایک بڑا حصہ صرف لاہور کے
میگا پراجیکٹس پر لگارہے ہیں۔ ”اسپیشل انفراسٹرکچر ان پنجاب“ کے عنوان کے
تحت ترقیاتی پروجیکٹ کااگر کوئی مطالعہ کرے تو صاف دکھائی دیتا ہے کہ وہ اس
پروجیکٹ کے تحت پچیس بلین کی مختص رقم کو صرف لاہور کے رنگ روڈ اور لاہور
میں ٹرانسپورٹ کے ایک منصوبے پر خرچ کرنے والے ہیں، وہ لاہور کو تو واقعی
لاہور بنادیں گے پر کسی بھاری قیمت پر صوبے کے باقی ماندہ تمام اضلاع کو
نظر انداز کرکے ایک ہی شہر پر کثیر رقم خرچ کردینا کہاں کی عقلمندی ہے
۔۔۔۔۔بہاولپور کو ایک علیحدہ صوبہ قرار دینے کی تحریک نے بھی زور پکڑ رکھا
ہے۔راولپنڈی کی ہی مثال لے لیجئے۸۹۹۱ءکے اعداد وشمار کے مطابق راولپنڈی ضلع
کی آبادی تینتیس لاکھ چونسٹھ ہزار نفوس پر مشتمل تھی جبکہ لاہور ضلع کی
آبادی چوون لاکھ اکتیس ہزار افراد پر مشتمل ہے اس طرح یہ پنجاب کا لاہور کے
بعد دوسرا سب سے بڑاضلع ہے یہاں جی ایچ کیو ہے یہاں سرکاری اور پرائیویٹ
کئی یونیورسٹیاں کام کر رہی ہیں درجنوں کالج، ہسپتال اورآئل ریفائنری بھی
یہاں موجود ہیں اور پھر سب سے بڑی بات یہ ہے کہ یہ ملک کے دارالحکومت اسلام
آباد کے ساتھ جڑواں شہر ہے پر جہاں تک اس کے ترقیاتی منصوبوں کا تعلق ہے وہ
ناگفتہ بہ ہیں مری روڈ راولپنڈی کو اسلام آباد کے ساتھ ملاتاہے اور یہ
روزانہ ٹریفک جام کا شکار رہتا ہے یاد رہے کہ خیبرپختونخوا سے لاہور
جانیوالی تقریباً تمام ٹریفک راولپنڈی سے ہی گزر کرجاتی ہے اور راولپنڈی
شہر کے لئے کوئی بائی پاس موجود نہیں ، یہی وجہ ہے کہ اس علاقے کے عوام میں
پوٹھوہار صوبے کے نام سے ایک علیحدہ صوبے کے قیام کا مطالبہ آج کل زور پکڑ
رہا ہے کہ جس میں راولپنڈی، چکوال، جہلم اور اٹک کے اضلاع شامل ہوں گے۔۔۔۔۔مرکزیت
میں تقدس والی کوئی بات اب رہی نہیں جو بات اب ضروری سمجھی جاتی ہے وہ ہے
برابری کی بنیاد پر زندگی گزارنے کا طریقہ اور سلیقہ اور جیو اور جینے دو
والا جذبہ۔۔۔ کیا بھارت نے ۷۴۹۱ءسے لے کر اب تک کئی مزید صوبے نہیں بنائے
اور کیا ایسا کرنے سے بھارت کی وحدت پر کوئی منفی اثر پڑا کہ جو پاکستان
میں ایسا کرنے سے یہاں پڑجائے گا؟ اگر ملک کی مختلف اکائیوں میں بسنے والے
لوگ خوشحال ہوں گے مطمئن ہوں گے تو پورا ملک خوش ہوگا اور مستحکم ہوگا، ملک
میں نئے صوبوں کے قیام کا مطالبہ کبھی بھی زور نہ پکڑتا اورنہ ہی یہ سوچ
پنپتی اگر حکمرانوں نے واقعی انصاف کے ساتھ حکومت کی ہوتی ، تقریباً ہر دور
میں ہر صوبے کے وزیر اعلیٰ نے حتیٰ الوسیع کوشش کی کہ اس کے دور حکومت میں
زیادہ سے زیادہ ترقیاتی فنڈز اس ضلع پر لگائے جائیں کہ جس سے اس کا تعلق ہے
اس طرح اس ملک کے صدور اور وزرائے اعظم نے بھی یہی وطیرہ اپنایا جہاں تک
ترقیاتی فنڈز کی تقسیم کا تعلق ہے اس معاملے میں انہوں نے ہمیشہ ڈنڈی ماری
، ڈیرہ اسماعیل خان کے موجودہ ائرپورٹ کو کشادہ کرنے کے لئے ۰۹۹۱ءکی دہائی
میں چودہ کروڑ روپے مقامی سیاسی نمائندوں کی ان تھک کوشش کے بعد منظور کئے
گئے تھے لیکن جب فاروق لغاری صاحب صدرمنتخب ہوئے تو انہوں نے بیک جنبش قلم
وہ رقم بلوچستان میں اپنے گاؤں کے قریب ایک ائرپورٹ بنانے پر خرچ کردی ایوب
خان نے گومل زام ڈیم کا پیسہ خانپور ڈیم پر لگادیا کہ وہ ان کے آبائی گاؤں
کے قریب تھا یہ تو خیر چند ایک مثالیں ہیں ،ہزاروں مزید اس قسم کی مثالیں
دی جاسکتی ہیں کہ جن کی وجہ سے اس ملک کے عوام اب یہ مطالبہ کرنے پر مجبور
ہو گئے ہیں کہ ملک چھوٹے چھوٹے صوبوں میں مزید تقسیم کردیاجائے تاکہ ہر ضلع
کو اس کا جائز حق ملے یہ کوئی بری بات نہیں اور نہ ہی ناقابل عمل ہے۔۔۔۔۔۔۔مخدوم
جاوید ہاشمی نے کہا ہے کہ فیڈریشن کو مضبوط کرنے کے لئے گیارہ صوبے بنا
دینے میں بھی کوئی حرج نہیں۔ انہوں نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ پاکستان کو دی
جانے والی ڈرون ٹیکنالوجی بھی ناقص صورت میں ہوگی اور مقصد زیادہ وصولی
ہوگا۔ہم اس حق میں ہیں کہ پاکستان میں مزید صوبے بننے چاہئیں تاکہ بعض
صوبوں میں موجود احساس محرومی ختم ہو اور اجارہ داری کا ماحول بھی نہ رہے۔
ہماری رائے میں سندھ کو دو صوبوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے۔ یعنی اپر سندھ
اور لوئر سندھ، پنجاب کے تین صوبے بن سکتے ہیں، صوبہ پنجاب، سرائیکی صوبہ
اور صوبہ پوٹھوہار، اسی طرح خیبر پختونخواہ کو بھی دو صوبوں میں تقسیم کیا
جاسکتا ہے۔ یعنی خیرپختونخواہ اور ہزارہ صوبہ، بلوچستان میں بھی دو صوبے بن
سکتے ہیں۔ یعنی ایک صوبہ پشتون بیلٹ پر مشتمل ہو اور دوسرا بلوچوں پر، اس
حکمت عملی سے بہت سی محرومیوں کا ازالہ بھی ہوسکتا ہے اور لوگوں کو ان کے
حقوق بھی مل سکتے ہیں۔جہاں تک جاوید ہاشمی کے اس خدشے کا تعلق ہے کہ امریکہ
پاکستان کو انتہائی ناقص ڈرون ٹیکنالوجی دے گا تو ہم ان کی اس رائے یا خدشے
سے اتفاق کرتے ہیں۔ امریکہ پاکستان کو بیکار قسم کے ڈرون طیارے دے کر اس سے
کہیں زیادہ وصول کرے گا اور ہمارے بعض سیاستدان گھاٹے کے اس سودے کو بھی
حکومت کی بہت بڑی فتح قرار دیں گے۔ محترم قارئین ۔۔۔ میں نے تمام تحقیقی
حالات اپنے قارئین کی خدمت میں پیش کردیئے ہیں لیکن دیکھنا یہ ہے کہ آیا
ہمارے حکمران اپنی ذاتیات کو عوامی خدمات پر قربان کرتے ہیں کہ نہیں یہ
مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان جلد مزید صوبوں کے ساتھ بھرے گا مگر اس تناسب
میں کسی بھی سیاسی لیڈر کی غفلت ، عدم دلچسپی اور اپنے خطہ سے لگاﺅ اسے
ہمیشہ کیلئے نا تلافی نقصان سے دوچار کریگا۔ ۔۔۔مزید صوبوں سے لیڈران ،
سیاسی حکمران اور سیاسی پارٹی کے منشور کی قلعی بھی کھل کر سامنے آجائے گی
۔۔۔۔ پاکستانی کی تمام سیاسی جماعتیں مختلف نعرﺅں، اساس، بنیاد، منشور لیئے
عوام کو مسلسل امید دلاتے رہے ہیں مگر ان مزید صوبوں کے بعد اگر عملی
مظاہرہ پیش نہ کیا تو یہی قوم انہیں رد کرکے نئے لیڈران کا از خود انتخاب
کرلیں گے اور نام نہاد لیڈرانوں کا خاتمہ ہوجائے گا ،مزید صوبوں سے پاکستان
مستحکم ہونے کے ساتھ سیاسی و انتظامی امور میں بھی بہتری کی جانب گامزن
ہوجائے گا اور ہر ایک کا فوکس اپنے اپنے انتظامی و سیاسی امور تک محدود
ہونے کے ناطے آپس کی چپکلش اور احتصالی عمل ختم ہوجائیگا ممکن ہے کہ جیتا
جاگتا چمکتا دمکتا پاکستان ایک نئی روشنی کے ساتھ ابھریگا جس میں تعلیم و
صحت ، علوم و فنون، سائنس و ترقی کے میدان میں اپنا ایک خاص مقام پیدا
کرسکے گا۔ انشاءاللہ ۔۔۔۔ پاکستان زندہ باد |