فیصلہ تو قوم ہی کو کرنا ہے

تمام ترمسائل و مصائب کے بعد پوری قوم چند روز بعد اتوار کے دن آزادی کا جشن منانے کی تیاریوں میں مگن ہے، یہ دن اگر چہ چھ دہائیوں سے منایا جارہا ہے اور ہر سال قومی جوش و جذبہ ماضی کے مقابلے میں کچھ زیادہ ہی دکھائی دیتا ہے لیکن اب کی بار اس ماہ مقدس کہ جس میں یہ مملکت خداد معرض وجود میں آئی تھی میں آزادی کا جشن کچھ زیادہ ہی ولولہ اور جوش لیے ہوئے اور اسی کو دیکھتے ہوئے حالات کی تمام تر سنگینیوں کے باوجود آنے والے دنوں میں ارض پاک کی دن دگنی اور رات چگنی ترقی کرنے کی پیش گوئیاں کی جارہی ہیں۔اس میں کوئی شک نہیں کہ مایوسی گناہ ہے اور یہ گناہ جب من حیث القوم سرائیت کرجائے تونتیجہ معاشرتی بگاڑ کے سوا کچھ بھی نہیں نکلتا ۔ بد قسمتی سے ہماری بھی حالت کچھ ایسی ہی ہے اور وہ بھی اتنی بگڑ چکی ہے کہ امید افزاءباتوں اور تجزیات پر یقین ہی نہیں آتا۔وجہ یہ نہیں کہ قوم کو تجزیہ کاروں پر اعتماد نہیں بلکہ اس بد اعتمادی کے پیچھے ”خدمتگاروں“ کے وہ کرتوت ہیں جو گزرے چونسٹھ پینسٹھ برسوں میں ہمیں آزادی کے اس قافلے سے بہت پیچھے رکھنے کی وجہ بنے ہوئے ہیں جس میں ہمارے ساتھ یا کچھ عرصہ بعد میں آزاد ہونے والے ممالک شامل تھے اور ہماری حالت،بقول شاعر یااران تیز گام نے محمل کو جا لیا ۔۔۔۔۔ ہم محو نالہءجرس کارواں رہے، جسی ہی ہے ۔

ہمارے ایک ہم عصر جناب افضل چودھری کا کہنا ہے کہ چونسٹھ سال کی عمر میں انسانی زندگی کو ریورس گئیرلگ جاتا ہے تو قومیں اس عمر میں ترقی کی موٹروے پر فراٹے بھر رہی ہوتی ہیں۔یہ عرصہ قوموں کی زندگی میں بہت طویل نہیں تو بہت مختصر بھی نہیں ہے، اگر قومیں ترقی کی شاہراہ پر اپنا سفر نہ بھی کر پائیں تو کچے پکے راستوں سے گزر کر ترقی کی شاہراہ کی جانب سفر ضرور شروع کر لیتی ہیں اورا مید بندھ جاتی ہے کہ منزل کی جانب سفر شروع ہونے والا ہے مگر آج 64 برس بعد وطن عزیز کا اپنے ہم عمر دیگر ملکوں سے موازنہ کریں تو مایوسی کے گہرے بادل چھاجاتے ہیں۔زیر نظر حقائق دیکھیں تو یہ بات بڑی دل کو لگی ہے۔دوسری جنگ عظیم کے اختتام کے بعد کے 10سال میں ہمیں ہر طرف نئی قوموں اور نئے ملکوں کے وجود میں آنا نظر آتا ہے ۔ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے قریبی برسوں میں ہی چین' انڈونیشیا ' جنوبی کوریا'سنگا پور'تھائی لینڈ 'تائیوان اور بھارت نے آزادی کا سفر شروع کیا جبکہ تباہ حال جاپان اور جرمنی بھی اپنی قوت ازسر نو مجتمع کر کے ترقی کے اس سفر میں شریک ہوئے ، تاہم متحدہ عرب امارات کا یہ سفر1971ءمیں اس وقت شروع ہوا جب ہم اپنا آدھا ملک گنوا چکے تھے۔جاپان اور جرمنی کے ساتھ موازنہ تو دیوانے کا خواب ہے۔ یہ ممالک جنہوں نے دوسری جنگ عظیم کے ہولناک نتائج بھگتے اور تباہی وبربادی کے وہ خوفناک مناظر دیکھے جو آج بھی انسانی ذہن پر لرزہ طاری کر دیتے ہیں۔ مگر یہ ممالک دنیا کے آٹھ ترقی یافتہ ترین اور امیر ترین ممالک کی تنظیم جی ایٹ کے روح رواں ہیں۔ چین جو پوستیوں اور افیونیو(افیمیوں) کی قوم تھی اور جو دنیا کا آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑا ملک تھا اور جس کی آبادی کو ساری دنیا اس زمین پر بوجھ تصور کرتی تھی آج ترقی کی وہ رفتار حاصل کئے ہوئے ہے کہ پوری دنیا انگشت بد نداں ہے۔آج دنیا کا ہر بڑا سرمایہ دار صنعت کار اپنا سرمایہ وہاں لگانا 'انڈسٹری وہاں منتقل کرنا اور کاروبار شروع کرنا اپنے اور اپنے ادارہ کے لئے اعزاز سمجھتا ہے۔

1971ءمیں آزاد ہونے والے سات ریاستوں کے مجموعہ متحدہ عرب امارت کی حالت یہ تھی کہ آزادی کے وقت دبئی اور ابو ظہبی کی مرکزی شاہراہوں پر ان پڑھ اورگنوار بدھو اونٹوں کی مہاریں پکڑے سفر کرتے تھے اور جھونپڑی نما دکانیں قائم تھیں مگر 36سال بعد دبئی دنیا کا تجارتی مرکز (کمرشل کیپٹل ) بن چکا ہے۔ ہمارا ان کے ساتھ موازنہ کچھ اس طرح سے ہے کہ یو اے ای کی ترقی موجودہ سطح پرجامد ہوجائے تب بھی ہمیں ان کے معیار تک پہنچنے میں شاید50سال لگ جائیں۔1947ءمیں جب برصغیر تقسیم ہوا تو پاکستان اور بھارت نے کم وبیش ایک جیسے حالات میں اپنا سفر شروع کیا مگرآج بھارت ترقی یافتہ ملک نہ سہی اپنی منزل کا تعین ضرور کر چکا ہے تعلیم کے میدان میں انہوں نے دور جدید کے رجحانات کوذہن میں رکھ کر پالیساں بنائیں اورآج بنگلور دنیا کا آئی ٹی کیپٹل بن چکا ہے مائیکروسافٹ جیسی دنیا کی سب سے بڑی کمپیوٹر کمپنی اپنے سافٹ وئیر بنگلور سے تیار کرواتی ہے دنیا کے ہر بڑے ادارے کے کال سنٹر وہاں قائم ہیں وہ اپنی فلم انڈسٹری سے ہی اتنا زرمبادلہ کماتے ہیں جو ہمارے لئے تصور کرنا ممکن نہیں بھارت میں ہیوی انڈسٹری اس حد تک مستحکم ہوئی ہے کہ ان کے سیل کنگ لکشمی متل کانام دنیا کے چوتھے امیر ترین شحض کے روپ میں سامنے آیا ہے۔صرف یہی نہیں بھارت ایک طرف ''شائننگ انڈیا '' کا نعرہ لگا کر دنیا بھر کے کاروباری طبقہ اورسیاحوں کو اپنی طرف متوجہ کر رہاہے تو دوسری طرف ان کی کمپنیوں نے تجارتی میدان میں بھی اپنی ساکھ بنائی ہے اور حالات یہاں تک پہنچ چکے ہیں کہ پاکستانی چاول بھارتی کمپنیوں کی پیکنگ میں دنیا بھر میں فروخت ہوتا ہے جبکہ ہماری کمپنیاں آرڈر کے لئے ترستی ہیں ، مشرقی بعید کا ایک پسماندہ ملک ویت نام جو طویل عرصہ تک امریکہ کے ساتھ جنگ کی حالت میں رہا اور امریکی فوج کی پسپائی کے بعد انہوں نے 70ءکی دہائی کے وسط میں اپنی معاشرتی ترقی کا سفر شروع کیا کئی میدانوں میں ہم سے آگے نکل چکا ہے۔

ہماری بد قسمتی ہے کہ بابائے قوم محمد علی جناح کی وفات کے بعد شروع ہونے والی اختیارات کی جنگ اور طاقت کا کھیل ایک خوفناک شکل اختیار کرگیا جو تاحال جاری ہے۔ان برسوں میںجس کا زور چلا اس نے اختیارات اپنے قبضہ میں لے لئے، جس کے پاس طاقت تھی اس نے دوسرے حکمران کو چلتا کیا، جس کے پاس بندوق تھی اس نے آئین کا خون کیا اور وہ عدالتیں جو انصاف دینے کے لئے وجود میں آئی تھیں،نظریہ ضرورت کے تحت ان طالع آزماﺅں کے غیر آئینی اور' غیر قانونی قبضہ کو درست اور فیصلوں کو جائز قرار دیتی رہیں۔پہلا سال قائداعظم کی قیادت میں گزرا تو اگلے 10سال غیر جمہوری بیورو کریٹک حکومتیں رہیں پھر 13سال مارشل لاءرہا جس کا اختتام آدھے ملک کی قربانی کے ساتھ ہوا۔ 5 سال بھٹو کے جمہوری دور اور پھر فوجی حکومت کے 8 سال مکمل ہوئے۔ چونسٹھ سال میں چونیتس سال کا فوجی اور 10 سال کا غیرجمہوری اور بیوروکریٹک دور نکال دیں تو جو باقی بچتا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ کہنے کو 73ءکا آئین متفقہ تھا مگر اس آئین میں ترامیم کا جو سلسلہ ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے ہی دور میں شروع کیا تھا وہ آج تک جاری ہے جس میں ایک فوجی آمر کانام ترمیم کے ذریعے ڈال دیا جائے اور دوسرے کی یونیفارم کا ذکر کر دیا جائے وہ آئین کتنا جمہوری رہ جاتا ہے اس کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں۔کبھی پارلیمانی جمہوریت تو کبھی بلدیاتی و غیر جماعتی جمہوریت اور اب بات حقیقی جمہوریت تک پہنچ چکی ہے مگر عملا ملک و قوم کہاں کھڑے ہیں کو بتانے کی ضرورت نہیں۔ تعلیمی نظام وہ بنیاد فراہم کرتا ہے جس کے ذریعے مستقبل کے تقاضوں سے ہم آہنگ قوم تیار کی جاتی ہے۔ ہم ساٹھ سال میں اس کے خدوخال ہی واضح نہیں کر پائے۔ ہر آنے والے حکمران نے اپنی مرضی سے شارٹ ٹرم تعلیمی پالیسی بنائی اور نصاب کا حلیہ بگاڑنے میں اپنا حصہ ڈالا۔ایک حکمران صنعتیں لگواتا ہے تو دوسرا قومی ملکیت میں لے لیتا ہے۔ تیسرا انہیں پھر بیچنا شروع کر دیتا ہے۔

ہلاکو خان بغداد پر حملہ آور ہو رہا تھا تو شہر کے مرکزی چوک میں فروعی معاملات پر مناظرے چل رہے تھے۔ آج بھی تقریبا وہی منظر ہے۔ دور جدید کا ہلاکو اور چنگیز خاں ہماری جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کا دشمن بن کر پھنکار رہا ہے تو ہم اسے ہی خوش کرنے میں لگے ہیں۔ہمیں آج بھی علم نہیں کہ ہمیں تعلیمی نظام کون سا چاہیئے اورحکومتی نظام کیسا۔ ہمیں آج بھی علم نہیں کہ ہمیں پڑھنا کیا ہے اور پڑھانا کیا ہے۔ ہمارا کسان نہیں جانتا کہ کون سی فصل کاشت کرنی ہے اور کون سی نہیں۔ اسلام آباد میں ائیرکنڈیشنڈ حکومتی ایوانوں میں بیٹھ کر معاشی ترقی کے دعوے کرنے والوں کو علم نہیں کہ ان سے چند کلومیٹر دور پوش سینکٹروں کے کچی آبادیوں کے رہائشی کس کرب کی زندگی گزار رہے ہیں۔جس ملک کی آدھی آبادی یہ سوچتی ہے کہ بچے کو سکول بھیجیں گے تو مہینے کا دو اڑھائی سو روپیہ خرچ ہو جائے گا۔ کسی چائے کے کھوکھے 'پنکچر لگانے کی دکان پر بھیجیں گے تو 50روپے دیہاڑی کمائے گا۔ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کی ترقی کی رفتار تاریخ میں سب سے زیادہ ہے۔ ترقی کے یہ دعوے اورمعیار زندگی کے یہ سارے اعدادو شمار شاہراہ دستور سے شروع ہو کر فیض آباد پر ختم ہو جاتے ہیں۔64 سال گزر چکے ہیں مگر یہ سلسلہ ختم ہونے کو نہیں آرہا اورشاید اس وقت تک نہیں آئے گا جب تک قوم خوداپنی حالت بدلنے کا تہیہ یافیصلہ نہیں کرلیتی۔
RiazJaved
About the Author: RiazJaved Read More Articles by RiazJaved: 69 Articles with 54200 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.