ہندوستان کے انتہائی قریبی اور جگری دوست سمجھے جانے والے
ممالک خصوصی طورپر خلیجی ملکوں نے ہماری طاقت کثرت میں وحدت کے دعویٰ کی جس
انداز میں دھجیاں اڑادی ہیں ،اس کی وجہ سے بی جے پی لیڈرشپ کی آواز بند
ہوگئی ہے،یہ وہ ملک ہیں ،جنہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کواپنے اعلیٰ ترین
اعزازات سے نوازا ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ان آٹھ برسوں میں
ہندوستان سے خلیجی ممالک کے تعلقات مزید استوار کرنے میں مودی جی کااہم
ترین رول رہا ہے،البتہ حال کے آٹھ دنوں میں جوکچھ پیش آیا ہے،اس نے ملک
عزیز کو ایک واضح سبق دیا ہے اور سبق ہے کہ حد سے زیادہ خود اعتمادی لے
ڈوبتی ہے اور کسی کو برداشت نہیں کرنا بھی اپنی کمزوری ہے۔
ملک کے رہنماؤں کو اس بات کابھی خیال رکھناچاہئیے کہ ہمیں یہ سبق بھی ملا
ہے کہ ملک کی اندرونی سیاست کا وجودبیرون ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات سے
علیحدہ اور منقطع نہیں ہوتاہے۔ ہم سب جانتے ہیں بیرون ملک اور عالمی برادری
میں گزشتہ 70 سال سے زیادہ عرصے سے ہمیں ایک کثیر،متنوع اور جمہوریت پسند
ملک تسلیم کیا جاتا رہاہے،کہ دوسری سب سے بڑی جمہوریت کے طورپر دیکھا جاتا
ہے،ان آٹھ برسوں میں وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی اس ملک کو اسی شکل میں
پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔لیکن اندرون ملک ان کی پارٹی کے ترجمان اور چھٹ
بھیے لیڈران کی طرف سے اقلیتی فرقے کوبرابھلا کہنے کی کھلی چھوٹ دے دی
گئی۔ان لیڈروں نے ایسی جسارت کیا،اپنے بل بوتے پر کی ہے ،نہیں یہ ممکن نہیں
ہے،پھربھی بی جے پی کے دو لیڈروں کے ذریعہ پیغمبر اسلام کے خلاف تبصروں نے
پارٹی کو نہیں بلکہ وطن عزیز کے جمہوری نظام اور سیکولرزم کے دعوے کو نقصان
پہنچایا ہے۔حالانکہ بی جے پی نے موقعہ کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے ، ان میں ا
یک کو پارٹی سے نکال باہرکردیاہےاور دوسرے کو پارٹی سےمعطل کرنے میں ہی
عافیت سمجھی ہے۔ مرکز میں حکمراں پارٹی نے سیاست میں ناانصافیوں کو محسوس
کرلیا ہے اور قالین کے نیچے سے گندگی کو صاف کرنا فی الحال جاری وساری
ہے۔ویسے ان کے ہاتھ بھی سنے ہوئے ہیں،خصوصی طورپر امت شاہ کی زبان نہیں
سنبھلتی ہے،ویسے فی الحال بولتی بند ہے،ہر کوئی دفاعی پوزیشن میں ہے۔
امسال عین ماہ رمضان میں شمالی ریاستوں یعنی ہندی بیلٹ میں رام نومی کے
دوران ایک طوفان بدتمیزی سے پہلے کرناٹک میں ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت
حجاب کے مسئلہ کو طول دیاگیا،اور پھر لاؤڈاسپیکر پر اذان کے مسئلہ کو
مہاراشٹر میں پیدا کرایاگیا،وہ بھی اپنے ہی بھائی سے ہارے ہوئے جواری کی
مدد لی گئی،لیکن جب شردی،مہالکشمی اور سدھی ونائیک کے لاؤڈاسپیکر لپیٹے میں
آئے تو قدم پیچھے لے لیے گئے ،ابھی یہ معاملہ سنبھالا بھی نہیں تھاکہ مساجد
میں "شیولنگ" کی تلاش کے لیے عدالت سے رجوع ہونے کی ہوڑ سی لگ گئی ۔اس سارے
عمل کے ردعمل میں جوہواہے ،اس نے نئی دہلی کے ہوش اڑادیئے ہیں۔اسے احساس
ہوا کہ چند اندرونی مسائل دنیا میں اس کے چند بہترین دوستوں کے ساتھ مسائل
پیدا کر سکتے ہیں، پہلے امریکی وزارت خارجہ کی اقلیتوں پر رپورٹ سامنے آئی
،اڈے مسترد کردیا گیا،لیکن پیغمبر اسلام ص کی شان میں گستاخی سے جو ہ گانہ
برپاہواہے ،تو ہندوستان کے لیے اپنے ان دوستوں کو منانے کے لیے پوری طاقت
لگانے کی ضرورت پیدا ہوگئی ہے ،جوقتیبی سمجھے جاتے ہیں۔ارباب اقتدار اور بی
جے پی لیڈرشپ نے خواب میں سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک ٹیلی ویژن اسٹوڈیو میں
گرماگرم بحث کے دوران جوکچھ کہا جائے گا، وہ تیزی سے کسی دوسرے کئی ملکوں
میں سیاسی دھماکہ ثابت ہوسکتا ہے اور اس کی دھمک دنیا بھر میں محسوس کی
جائے گی اور اوآئی سی واقوام متحدہ کے بیانات بھی سامنے آئیں گے۔
ملک کی آزادی کے بعد کی تاریخ میں ایسا 75 سال میں پہلی بار ہوا ہے، بلکہ
ملک اور بیرون ملک میں" وشو گرو"کے طورپر پیش کیے جانے کے بعد اس بار منہ
کی کھانی پڑی ہے۔اس عمل کی وجہ سے حکومت کو عالمی سطح پر دفاعی انداز میں
آنا پڑا ہے ، بلاشبہ پڑوسی پاکستان کو کوسنے سے کوئی فائدہ نہیں ہے اور نہ
اسے روکا جاسکتا ہے، کیونکہ اس کی بنیاد دوقومی نظریہ پر رکھی گئی تھی،
لیکن امید کی جا رہی تھی کہ متحدہ عرب امارات کا رویہ کچھ نرم رہیگا، جس کے
ساتھ ہمارے بہترین تعلقات ہیں،اور یہ امید تھی کہ اس مقدمے کو آگے بڑھانے
میں وہ اپنے برادر اسلامی ممالک کی پیروی نہیں کریں گے۔ مگر قطر کے بعد
یواے ای بھی میدان میں کود پڑا اور پہلے بھی زہر افشانی کے سبب وہاں کی ایک
شہزادی نے برہمی کا اظہار کیا تھا،لیکن پیغمبر اسلام کی گستاخی کسی کو
برداشت نہیں ہوگی۔قطر اور عمان کے بعد متحدہ عرب امارات کی جانب سے مذمت کا
اظہارکیا گیا بلکہ سفیر کو بھی طلب کرلیاگیا۔
اس واقعہ نے دنیا بھر کی حکومتوں پر کس طرح دباؤ ڈالا ہے۔مودی کی جو پوزیشن
ان ممالک میں تھی،اسے ان دونوں ترجمان اور چھٹ بھیا لیڈروں نے چند اعلیٰ
لیڈروں کی ایماء پرخاک میں ملادیا، صرف مودی کی وجہ سے 2018 میں متحدہ عرب
امارات کے حکمرانوں نے شارجہ میں ایک ہندو مندر کی تعمیر کی اجازت دی تھی
اور اس کی تعمیر تیزی سے جاری ہے۔ متنازعہ ریمارکس کی مذمت کرنے والے
ابتدائی ممالک میں سے ایران نے اپنے وزیر خارجہ امیر عبداللہیان کا دورہ
منسوخ نہیں کیا، لیکن دونوں طرف سے مختلف ریڈ آؤٹس نے ظاہر کیا کہ دورہ کے
دوران بات چیت میں یہ مسئلہ آیا تھا ،این ایس اے اجیت دوبھال نے "شر پسند
عناصر" کے خلاف سخت کارروائی کا یقین دلایاہے،جن کا ذکر اعلامیہ میں کیا
گیا ہے ۔ جتنانئی دہلی نے معاملے کودبانے کی کوشش کی،اتنا یہ ابھر کر آگیا
ہے، لیبیا،انڈونشیا کے بعد مالدیپ بھی چپ نہیں رہا ہے ۔ اگر غور کیا جائے
توخلیجی ممالک کے غم و غصے دراصل وہاں کی آمرانہ حکومتوں کے لیے اس کے
علاؤہ کوئی آپشن نہیں تھا، لیکن جمہوری حکومتوں کو بھی احتجاج درج
کراناپڑاہے، یہاں تک کہ مالدیپ جیسی چھوٹی جمہوریت کا بھی بخوبی تصور کیا
جا سکتا ہے۔ درحقیقت، مالدیپ، جہاں ہندوستان کے خلاف مظاہروں کو روکنے کے
لیے سب سے پہلے صدارتی حکم نامے کے ذریعے پابندی لگائی گئی ہے،لیکن اپوزیشن
کی کوششوں کوبیان دے کر روک دیاگیا ہے ۔
یواے ای کو جب یہ واضح ہو گیا کہ ایسا نہ کرنے سے سیاسی خطرہ لاحق ہو گا،تو
بیان دینے میں ہی عافیت سمجھی گئی۔ ویسے تو بی جے پی کے سخت گیر طبقے کے
ہوش ابھی تک ٹھکانے نہیں لگے ہیں، ہندوستان کے اتحادیوں اور بیرون ملک
دوستوں کی طرف سے آنے والی مذمت کے خلاف احتجاج کے منصوبے بنائے جارہے
ہیں،بلکہ کئی نیوز چینل ان ترجمان کے بیان کا دفاع کرنے پر ڈٹے ہوئے
ہیں،لیکن بی جے پی نے اپنے ترجمان کی ایک فہرست تیار کرنے کے ساتھ ساتھ ان
کو سخت ترین ہدایات بھی دے دی ہیں کہ ہرطرح کے اکسانے کے باوجود کسی بھی
مذہب اور مذہبی شخصیات کی گستاخی نہ کی جائے۔
اس واقعہ کے بعد بے شک بی جے پی حکومت پر تحمل اور اصلاح کی ذمہ داری عائد
ہوتی ہے۔ ہندوستان کو دوسرے ممالک اور خاص طور پر اس کے دوستوں کی طرف سے
بھی دیکھا جائے گا۔ اپنے پیارے نبی اور رسول کی محبت میں جمعہ کو کئی شہروں
میں مسلمانوں نے جو مظاہرے ان ترجمان کے خلاف کارروائی کے مطالبہ کے ساتھ
کیے ہیں اور تشدد پھوٹنے سے جو صورتحال پیدا ہوئی ہے، اس سے ملکی سیاست کو
تعصب اور فرقہ پرستی کے جال میں لے جانے کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ کیونکہ
اقلیتی فرقے کے خلاف کانپور تشدد کے بعد جس تیزی سے کارروائی کی گئی
ہے،ایسا کچھ بھی ان دونوں ترجمان اور اشتعال انگیزی کرنے والوں کے خلاف
نہیں کیاگیاہے،جس سے مسلمانوں میں شدید ناراضگی پائی جاتی ہے، لیکن یہ ایسا
موقعہ ہے کہ پرسکون رہنے کی بڑی ضرورت ہے،ملک میں مختلف مذاہب وتہذیب کے
لوگ رہتے ہیں، کئی زبانیں بولی جاتی ہیں۔ چند مٹھی بھر لوگوں کو چھوڑ دیا
جاۓ تو باقی سبھی لوگوں کا یقین اس بات پر رہا ہے کہ وطن کو آگے بڑھانے کے
لیے حالات کا پرامن رہنا ضروری ہے، ہمارا بھائی چارہ ہی ہماری اصل طاقت ہے،
لیکن گزشتہ کئی برسوں سے مسلسل کی کوشش کی جارہی ہے کہ ہندوؤں اور مسلمانوں
کے درمیان ایک خلیج پیدا کر دی جاۓ ، مذہب کے نام پر انہیں بانٹ دیا
جاۓ،عام بی جے پی لیڈر ہی نہیں مدھیہ پردیش میں جس انداز میں اقلیتی فرقے
کے خلاف توڑپھوڑ کی کارروائیاں کی گئی ہیں،اور وزیراعلی شیوراج سنگھ چوہان
کا وہ وائرل ویڈیو قابل مذمت ہے جس میں وہ اقلیتی فرقے کو بے گھر کرنے اور
زندگی برباد کرنے کی باتیں کررہے ہیں،یقیناقابل مذمت ہے،اوروزیراعلی کوزیبا
نہی۔ دیتا ہے،ان کا انداز ایک تیسرے درجے کے لیڈرجیسالگتا ہے۔بی جے پی کی
اعلیٰ لیڈرشپ کے لیے سنجیدگی سے ان سب چیزوں پر غور کرنے کا وقت آگیا
ہے۔کیونکہ اقلیتی فرقے کا معاملہ "گھر"سے باہرنکل چکاہے۔بی جے پی کو ہوش کے
ناخن لینے ہوں گے۔کیونکہ جمہوریت ،سب کا وکاس،سب کاساتھ اورسب کا وشواس کے
ساتھ ساتھ کثرت میں وحدت کا دعویٰ جھوٹاثابت ہوتا نظر آرہا ہے۔ |