سید مزمل حسین
1947 ء میں برصغیر ــبھارتاورپاکستانکی شکل میں دو ملکوں میں تقسیم ہو گیا
تو برطانوی راج کے زیر اہتمام نیم خود مختار ریاستوں کی ایک بڑی تعداد بھی
موجود تھی، جن کے حکمرانوں کو اپنے عوام کی اکثریت کی رائے کا حترام کرتے
ہوئے فیصلہ کرنے کا اختیار دیا گیا۔ ان ریاستوں میں اہم ترین ریاست جموں و
کشمیر تھی جس کے حکمران نے پاکستان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جسے Stand Still
Agreement کا نام دیا گیا۔ تاہم بعد کے حالات و واقعات میں اس معاہدے پر
کما حقہ عمل نہ ہو سکا اور ریاست جموں و کشمیر پر بھارت نے ناجائز قضہ کر
لیا البتہ ریاست کا کچھ حصہ جسے آزاد کشمیر کہا جاتا ہے یا جسے گلگت
بلتستان کہا جاتا ہے ، وہ پاکستان کے زیر انتظام آ گیا ۔ جموں و کشمیر کی
ریاست عملاً تیں حصوں میں تقسیم ہو گئی ۔ ان تین حصوں میں اقتداری سیاست کے
متوالے چہرے بدل بدل کر اقتدار سے مستفید ہوتے چلے آ رہے ہیں۔
ریاست کے ان تقسیم شدہ خطوں میں الحاق پاکستان اور الحاق بھارت کے نام پر
سیاسی کھیل پہلے دن سے جاری ہے اور عملی اعتبار سے تقسیم کی یہ صورت حال ہے
کہ اگر جنازہ مقبوضہ کشمیر میں ہو رہا ہو تو سامنے آزاد کشمیر کے گاؤں میں
رہنے والے اپنے پہارے کا جنازہ اٹھتے دیکھتے ہیں لیکن جنازے کو کندھا نہیں
دے سکتے ۔ یہ ایک انسانی المیہ ہے ۔
اقتداری سیاست کی پیدا کردہ اس سنگین صورتحال کو دیکھتے ہوئے کشمیر کی وحدت
کا خواب دیکھنے والے کچھ لوگوں نے جموں و کشمیر محاذ رائے شماری کی بنیاد
رکھی تاہم محاذ رائے شماری کی کاوشیں پوری طرح رنگ نہ لا سکیں تو مقبوضہ
کشمیر کے ایک سپوت محمد مقبول بٹ نے جموں و کشمیر نیشنل لبریشن فرنٹ قائم
کیا۔ ان کے اولین ساتھیوں میں میر عبدالقیوم ، میر عبدالمنان، امان اللہ
خان اور دیگر حریت پسند شامل تھے۔
جموں و کشمیر محاذ رائے شماری اور جموں و کشمیر نیشنل لبریشن فرنٹ کا
بنیادی نظریہ تھا کہ ریاست جموں و کشمیر کے تینوں حصوں کو یکجا کیا جائے
اور لوگوں کو الحاق پاکستان اور الحاق بھارت کے علاوہ اپنی آزاد و خود
مختار ریاست قائم کرنے کے حق میں ووٹ ڈالنے کی اجازت دی جائے ۔ یہاں سے
اقتدار پرست گروہوں اور آزادی پسندوں کے مابین ایک فکری آویزش شروع ہو گئی۔
اقتدار پرست گروہ الحاق پاکستان اور الحاق بھارت کے نام پر اقتدار حاصل
کرتے رہے لیکن محمد مقبول بٹ نے تحریک آزادی کو ایک نئی نہج اس وقت دی جب
وہ 1966ء میں پاکستان سے واپس مقبوضہ کشمیر چلے گئے اور بھارت کے خلاف
گوریلا جنگ کی بنیاد رکھی۔ انہیں بھارتی ایجنٹوں نے گرفتار کروایا۔ جہاں
انہیں سزائے موت سنائی گئی لیکن وہ جیل توڑ کر نکل آئے اور آزاد کشمیر پہنچ
گئے یہاں انہیں بھارتی ایجنٹ کہا گیا ۔ اس موقع پر انہوں نے ایک تاریخی
جملہ کہا تھا " میں بھارت کا ایجنٹ ہوں نہ پاکستان کا، میں اپنی دھرتی کا
ایجنٹ ہوں " پاکستان میں انہیں قیدو بند کی صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں ۔
1971ء میں پاکستان کی شکست و ریخت اور کشمیریوں پر اس کے اثرات کو دیکھتے
ہوئے محمد مقبول بٹ 1976ء میں ایک بار پھر مقبوضہ کشمیر چلے گئے۔ اسی عرصہ
میں جموں کشمیر نیشنل لبریشن فرنٹ سے نیشنل کا لفظ ہٹا کر اس کی تنظیم نو
کی گئی ۔تاھم مقبول بٹ نے گوریلا سرگرمیوں کو برقرار رکھا اور دوسری بار
گرفتار ہو گئے۔ پہلی سزائے موت بحال کر دی گئی اور 11 فروری 1984ء کو انہیں
دہلی کی تہاڑ جیل میں پھانسی دے دی گئی اور ان کی میت کو وہیں دفن کر دیا
گیا۔
محمد مقبول بٹ کی پھانسی نے ریاست جموں و کشمیر کے لوگوں کی جراتوں کو
مہمیز عطاء کی۔ 1988ء میں بھر پور طریقے سے آزادی کی تحریک شروع کر دی گئی،
ان کی تنظیم جموں و کشمیر لبریشن فرنٹ کو مسلح جدوجہد کا بانی ہونے کا
اعزاز حاصل ہوا۔ اس جدوجہد کے ابتدائی ارکان میں حاجی گروپ کو نہایت اہمیت
حاصل ہے ۔ حاجی گروپ دراصل حمید شیخ، اشفاق وانی، جاوید احمد میر اور یاسین
ملک کے ناموں کے ابتدائی حروف کا مخفف ہے۔ حاجی گروپ کےدو سر فروش مادر وطن
پر قربان ہو گئے اور دو اب تک زندہ ہیں یعنی جاوید احمد میر اور محمد یاسین
ملک۔
1988ء کے بعد مسلح جدوجہد کے ارکان میں سے کسی نے بھی محمد مقبول بٹ شہید
کو دیکھا نہ ہو گا صرف نام سنا ہو گا، لیکن محمد مقبول بٹ کا نظریہ ان کے
اندر راسخ ہو گیا ۔ ان کے نظریہ کو مختصراً الفاظ میں یوں بیان کیا جا سکتا
ہے ۔
" دشمنی پاکستان سے نہ بھارت سے ، کشمیر کو برصغیر کے ان دونوں ممالک کے
درمیان محبت کے پل کی حیثیت دی جائے۔ اس کے لیے دونوں ممالک رضا کارانہ طور
پر اپنی افواج نکالیں اور کشمیریوں کو الحاق پاکستان ، الحاق بھارت کے
علاوہ اپنی ریاست قائم کرنے کا بھی اختیار دیں"
حاجی گروپ کے ایک نمائندہ رکن کی حیثیت سے محمد یاسین ملک کو اب ریاست کی
وحدت کی علامت جانا جاتا ہے ۔ پاکستان اور بھارت میں بے شمار لوگو ان کی
فکر کو قبول کر رہے ہیں لیکن غاصب بھارتی حکومت کو ان کی یہ حیثیت کب منظور
ہو سکتی تھی۔ بالآخر وہی ہوا جو ہر غاصب حکومت کرتی ہے ۔ محمد یاسین ملک کو
زندگی بھر شدید سختیوں کا سامنا کرنا پڑا اور آخر کار انہیں ایک جھوٹے
مقدمے میں گرفتار کر لیا گیا ۔ کئی سال کی قید تنہائی کے بعد 25 مئی 2022 ء
کو انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی ۔ اس سے قبل بھی انہیں عمر قید کی سزا
اور کئی لاکھ روپے جرمانہ کیا گیا تھا۔
محمد یاسین ملک ایک عام گھرانے سے تعلق رکھنےوالے فرد ہیں ۔ وہ سونے کا چمچ
منہ میں لے کر پیدا نہیں ہوئے ۔ انہوں نے زندگی بھر بے پناہ سختیاں برداشت
کی ہیں اور ہر گرفتاری کے موقع پر اور سزائے عمر قید کے موقع پر بھی ایک ہی
جملہ کہا ہے " وہ کسی کے ایجنٹ نہیں ، وہ کسی طرح بھی مالی بے ضابطگی کے
مرتکب نہیں ہوئے ۔ ان کا وطن ہی ان کے لیے سب کچھ ہے " ان کی وطن سے محبت
کا اس سے بڑا ثبوت کیا ہو گا کہ انہوں نے پاکستان میں ایک خاتون مشعال سے
شادی کی، لیکن ان کے ساتھ صرف دو ماہ گذارے اور لیلائے آزادی کی راہ لی۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کی خانگی زندگی بھی ان کا راستہ نہ روک سکی۔
انہوں نے پہلے دن جو شعوری راہ اختیار کی تھی۔ اس پر گامزن ہیں۔ اپنی
نوزائیدہ بیٹی، رضیہ سلطانہ کو بھی پیار نہ دے سکے۔ ان کی زندگی کا ایک ایک
لمحہ ان کے اہل وطن کے لیے سبق لیے ہوئے ہے وہ 2012ء میں پاکستان میں تھے
کہ سری نگر میں ان کے والد کا انتقال ہو گیا۔ سری نگر راولپنڈی سے 400 کلو
میٹر اور مظفر آباد سے 150 کلو میٹر کی مسافت پر واقع ہے ۔ ان کے چاہنے
والوں نے کوشش کی کہ بھارتی حکومت انہیں چکوٹھی کے راسے سری نگر جانے دے
تاکہ وہ اپنے والد کو کندھا دے سکیں لیکن اجازت نہ دی گئی تاہم اپنی دھن کے
پکے یاسین ملک نے تھائی لینڈ کا راستہ لیا اور اپنے والد کی نمازِ جنازہ سے
صرف تیس منٹ قبل سری نگر پہنچ سکے۔ محمد یاسین ملک ہوں یا کوئی اور حریت
پسند رہنما ۔ مثال کے طور پر سید علی گیلانی کی نماز جنازہ ادا نہ کرنے دی
گئی۔ محمد صلاح الدین کو سری نگر جانے کی اجازت نہیں ۔ شیخ تجمل اسلام اور
خواجہ شجاع عباس پاکستان میں ہی دفن ہو گئے ۔ بشارت عباسی شہید ور دیگر بے
شمار شہداء مقبوضہ کشمیر میں مدفون ہیں ۔ ان کی میتیں آزاد کشمیر میں لانے
کی اجازت نہ دی گئی۔
الحاق پاکستان اور الحاق بھارت کے مواقف اپنی جگہ لیکن کیا یہ انسانی المیہ
نہیں کہ کشمیریوں کو آپس میں ملنے کی اجازت نہیں۔ دونوں ممالک انسانی
ہمدردی کی بنیاد پر کشمیریوں کو سفر کی اجازت دیں ۔ دشمنیاں کم کریں اور
انہیں آزادنہ ماحول میں اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کا حق دیں۔ یاد رکھیں
اگر کشمیر کا مسئلہ حل نہ کیا گیا تو برصغیر کبھی ترقی کی جانب گامزن نہ ہو
سکے گا۔ دونوں ممالک ایٹمی ہتھیار رکھتے ہیں ۔ معمولی سی غلطی بھی سب کو
بھون کر رکھ سکتی ہے ۔ بھارت کا کوئی شہر تباہ ہو یا پاکستان کا ، مریں گے
تو انسان ۔ گھر جلیں گے تو انسانوں کے ، کھلیاں جلییں گے ، بستان اجڑیں گی
تو دونوں ممالک کو کیا ملے گا۔ لہذا دانش و فہم و فراست کو اپنا کردار ادا
کرنے دیا جائے ۔ دونوں ممالک مل بیٹھ کر کشمیریوں کایہ حق تسلیم کریں کہ وہ
آپس میں مل سکیں یہ بات پاکستان اور بھارت دونوں کے مفاد میں ہے کہ وہ
حالات کی نزاکت کا ادراک کریں۔ محمد مقبول بٹ کے نظریہ کو سمجھنے کی کوشش
کریں اپنے درمیان دشمنیاں کم کریں ۔ محمد مقبول بٹ کو پھانسی دے کر بھارت
کو کیا ملا۔ بٹ کا نظریہ ، یاسین ملک کی صورت میں آج بھی زندہ ہے ۔اس موقع
پر بھارت میں مقید دیگر ہزاروں کشمیریوں کو بھی خراج تحسین پیش کرنا لازم
ہے جنہوں اپنی قوم کے کل کے لیے اپنا آج قربان کردیا ہے۔ |