اب بھی وقت ہے

کاش ہم پینٹ کوٹ اور ٹائی لگا کر بڑی بڑی گاڑیوں پر الیکشن لڑنے والوں کی بجائے شلوار قمیض،دھوتی اور پیوند لگے کپڑے پہننے والوں کو بھی ووٹ دیکر آزما لیں ان بابوؤں نے تو سوائے ہمیں لوٹنے کے اور کچھ نہیں کیا دن بدن بڑھتی ہوئی مہنگائی ،بے روزگاری اور ہمیں اتنا مفلس بنا دیا ہے کہ ہم گھر کے رہے نہ گھاٹ کے جس دن ڈاکٹر عامر لیاقت حسین اﷲ کو پیارے ہوئے اس دن میں کراچی میں ہی تھا جہاں پیپلز پارٹی کی حکومت ہے عام عوام سنہرے مستقبل کے سہانے خواب دکھا کر ووٹ لینے والے ان کے سپنے تک چھین لیتے ہیں بنس روڈ سے گذرتے ہوئے فٹ پاتھ کیڑے مکوڑوں کے ساتھ ان لوگوں کو سوتے ہوئے دیکھاجنہیں سیاستدانوں نے کیڑے مکوڑے بنا رکھا ہے کروڑوں اربوں روپے الیکشن میں سرمایہ کرنے والے عوام کی کیا خدمت کرینگے وہ تو پہلے اپنے پیسے پورے کرینگے پھر اگلے الیکشن کے لیے مال پانی اکٹھا کرینگے پھر اسکے بعد بیرون ممالک سرمایہ کاری کرینگے اتنے میں دوبارہ الیکشن آجاتے ہیں اور پھر وہی افراد الیکشن میں کود پڑتے ہیں ہم نے کبھی کسی پڑھے لکھے غریب شخص کو ووٹ نہیں دیا بلکہ کروڑوں کی سرمایہ کاری کرنے والے کو ووٹ دیکر اپنے اوپر مسلط کرلیتے ہیں بے شک وہ سفید انپڑھ ہی کیوں نہ ہو اور اسی کا خمازہ ہم آج بھگت رہے ہیں ان حکمرانوں نے ہمیں اتنا بے بس اور لاچار کردیا ہے کہ انکے کسی ظلم پر اف تک نہیں کرتے بلکہ ہماری خاموشی کو نیم رضا مندی سمجھتے ہوئے ہم پر مزید ٹیکسوں کا بوجھ بڑھا دیا جاتا ہے10اپریل 2022ء کو ہونے والی حکومتی تبدیلی اور ماضی میں اپوزیشن کا کردار ادا کرنے والی پارٹیوں کے برسراقتدار آنے کے باوجود مہنگائی، بے روزگاری اور بدترین معاشی پالیسیوں کا سلسلہ بلکہ پہلے سے بھی بدتر شکل میں جاری ہے حکومت نے اپنی نااہلی ، بدترین طرز حکمرانی اور ناقص معاشی پالیسیوں کی وجہ سے پاکستان کو عملاً عالمی ساہوکارمالیاتی اداروں یعنی ورلڈ بینک، آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف کا غلام بنا دیا ہے اورقوم میں یہ احساس مسلسل بڑھ رہاہے کہ ان کی قسمت کے فیصلے ملک میں نہیں بلکہ کہیں باہرسے ہو رہے ہیں قرضوں کے حصول کے لیے ہر طرح کی کڑی شرائط قبول کی جارہی ہیں جن کی وجہ سے عوام کو مہنگائی اور بے روزگاری کا مسلسل سامنا کرناپڑ رہاہے آئی ایم ایف سے جاری پروگرام نے ملک میں کسا د بازاری کا ماحول پیداکردیا ہے اور اسی پروگرام کے دباؤ پر ماضی وحال کی حکومتوں نے اسٹیٹ بینک پر اپنی خود مختاری ختم کرکے اس کو عالمی مالیاتی اداروں اور مقامی بینکوں کی مرضی ومنشاپر چھوڑ رکھاہے گورنرسٹیٹ بینک کی تقرری ، احتساب ، تنزلی کارکردگی روپے کی قدر اور بنک کی مالیاتی پالیسیوں کے سلسلہ میں خود قانون ساز ی کرکے اپنے ہاتھ کاٹ دیے گئے ہیں اب سٹیٹ بنک محض نام کی حد تک سٹیٹ بنک آف پاکستان ہے اور اب تک حکومت ایک ہزار ارب روپے کے ٹیکسز لاگو کرچکی ہے اور اس نے اگلے بجٹ میں مزید 300ارب کے ٹیکس لگانے کاوعدہ کیاہواہے آئی ایم ایف کے احکامات کو بجا لانے کے لیے حال ہی میں حکومت نے ایک اعشاریہ پچاس فیصد شرح سود میں اضافہ کردیا ہے اور اب شرح پندرہ اشاریہ پچیس (15.25)فیصد پر پہنچ گئی ہے اتنی بڑی شرح سود کی وجہ سے ملک میں سرمایہ کاری پر شدید برے اثرات مرتب ہوں گے اور معاشی ترقی کاعمل رک جائے گا افسوسناک پہلو یہ بھی ہے کہ اس کے باوجود ملک کو اگلی قسط جاری نہیں کی گئی اور اس کے لیے پٹرول اور ڈیزل کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کی مزید شرط لگادی گئی ہے حکمران خدا نخواستہ قوم کو سری لنکا جیسے حالات کی طرف نہ دھکیل دیں ادارہ شماریات پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق اشیائے صرف کی قیمتوں میں متعدد مرتبہ بدترین اضافوں کی وجہ سے موجودہ حکومت کے دور میں اکثر اشیاء کی قیمتیں دوگناہی نہیں تین گناہو چکی ہیں اس وقت پاکستان کی تاریخ کی بدترین مہنگائی قوم پر مسلط ہے عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں 4فیصد کمی کے باوجود پٹرول ڈیزل کی قیمتوں میں ملکی تاریخ کا سب سے بڑا یعنی ایک ہفتہ میں 60روپے فی لیٹر کااضافہ کیاگیا ہے اورایک مرتبہ پھر بجلی کی قیمت بھی 8روپے فی یونٹ بڑھا دی گئی ہے گیس کی قیمتوں میں بھی 45فیصد اضافہ ہواہے آٹا،چینی ،خوردنی تیل ، پٹرولیم مصنوعات ،کھاد ، ادویات وغیرہ کی قیمتیں متعدد مرتبہ کے اضافوں کی وجہ سے آسمان سے باتیں کررہی ہیں عوام کے گھروں کے چولہے سرد ہیں لوگ بھوک کی وجہ سے خودکشیاں کرنے پر مجبور بنادیے گئے ہیں حکومت نے توانائی بحران پیداکرکے IPPSکو عوام سے 350ارب روپے لوٹنے کی کھلی چھٹی دی ہے ایل این جی سیکنڈل کے ذریعے 100ارب روپے لوٹے گئے ہیں ادویات کی قیمتوں میں 13مرتبہ اضافہ ہواہے حقیقت یہ ہے کہ ہماری معیشت کی گاڑی اناڑی ڈرائیور وں کے ہاتھوں تیزی سے ڈھلوان کی طرف جارہی ہے اور بد قسمتی سے اس کی بریکیں بھی فیل ہوچکی ہیں کرپشن کے معاملات میں دن بدن اضافہ ہوتا جارہا ہے اور کرپشن کی روک تھام میں انٹی کرپشن ، نیب ، ایف بی آر پبلک اکاؤنٹس کمیٹیوں سمیت تمام ادارے مکمل طور پر ناکام ہیں لوٹی ہوئی دولت کا ایک ڈالر بھی قومی خزانے میں واپس نہیں آیا جبکہ قوم کو کبھی پانامہ لیکس کے ذریعے 436اور پنڈورالیکس کے ذریعے 700سے زائد کرپٹ پاکستانیوں کے نام زبانی یاد ہو چکے ہیں کرپٹ افراد کے خلاف حکومت نیب یا کسی ادارے نے کوئی کاروائی نہیں کی اگر دیکھا جائے تو اس وقت ملک میں جماعت اسلامی میں ایسے افراد موجود ہیں جو کفایت شعاری کا عملی نمونہ ہیں سراج الحق صاحب جب وزیر خزانہ خیبر پختونخواہ ہوا کرتے تھے تو وہ سرکاری کاموں کے لیے سرکاری وسائل انتہائی احتیاط سے استعمال کرتے تھے وہ تو گورنر ہاؤس میٹنگ کے لیے بھی رکشہ پر آجاتے انہوں نے ہی کرپشن فری پاکستان تحریک چلائی کرپشن کے خلاف ٹرین مارچ کیا ، دھرنے دیئے عدالت عظمیٰ کا دروازہ کھٹکھٹایا لیکن کرپٹ مافیا اتنا مضبوط ہے کہ انہوں نے اپنے خلاف عملاً کوئی کاروائی نہیں ہونے دی خدارا غریب پاکستانیوں کو اپنی سوچ بدلنی پڑے گی ایک پلیٹ بریانی اور چائے والے ہمارے کپڑے تک اتار کر لے جائیں گے اب بھی وقت ہے اپنے اردگرد اپنے جیسے افراد کو ووٹ دیں تاکہ ہمارے بچے ہم سے بہتر زندگی گذار سکیں ۔

 

rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 830 Articles with 612289 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.