وزیر اعظم نریندر مودی اگر پچھلا انتخاب ہار جاتے تو
موجودہ صورتحال میں بی جے پی کی بلےّ بلےّ ہوجاتی۔ اس کے کارکن گیروا لباس
پہن کر سڑکوں پر اتر جاتے اور کہتے کہ ’مودی کے ہوتے یہ ناممکن تھا‘۔ عرب
دنیا ان کے چھپن ّ انچی سینے سے بے حد خائف تھی اس لیے ان کے احترام کو
ڈھونگ کرتی تھی اور انہیں انعام و اکرام سے نوازتی تھی۔ وہ اگر لال آنکھ
کرکے خلیجی ممالک کی جانب دیکھ لیتے تو سب تھر تھر کانپنے لگتے۔ وہ اپنے
دوست اسرائیل کی مدد سے مسلم ممالک کو سیدھا کردیتے وغیرہ وغیرہ۔ نوپور
شرما کے خلاف ایف آئی آر کو مسلمانوں کی منہ بھرائی اور ہندووں کی
دلآزاری قرار دیا جاتا۔ سبرامنیم سوامی کے ٹویٹ جس میں کہا گیا کہ موجودہ
سرکار نے بھارت ماتا کا سر جھکا دیا ہے ۔ یہ چین کے آگے رینگتی ہے، روس کے
سامنے گھٹنے ٹیکتی ہے، امریکہ کے آگے میاوں کرتی ہے نیز قطر کے قدموں میں
سربسجود ہوجاتی ہے کو شاہ سرخی بنایا جاتا۔ سارے ٹیلیویژن چینلس پر سوامی
کو بلا کر ان کا انٹرویو لیا جاتا اور کپل مشرا سے پوچھا جاتا کہ عالمی سطح
پر ہندووں کے دوسرے درجہ کا شہری بن جانے کی وجہ کیا ہے؟ اور پھر سے پہلے
درجہ کا شہری بنانے کے لیے کیا حکمت عملی اختیار کی جائے ؟ مگر فی الحال
گودی میڈیا نے ان سب ہندو سمراٹوں کو نظر انداز کررکھا ہے کیونکہ اس سے
حکومت کی بدنامی ہوتی ہے۔ مودی جی کی مصنوعی شبیہ کے بے نقاب ہوتےہی بھگتوں
کی نیند حرام ہوگئی ہے ۔
فی الحال حکومت ہند چونکہ ایک فرد کی حد تک مرکوز ہوکر رہ گئی ہے اس لیے
سرکار کی ساکھ یں اور مودی جی کی شبیہ لازم و ملزوم ہوچکی ہے ۔ اس تنازع نے
پردھان سیوک کا وقار کو داوں پر لگادیا ہے ۔ یہ سب اپنے آپ نہیں ہوگیا ۔
ایک زمانے میں جب یہ نعرہ لگا کہ ’ہر ہر مودی ، گھر گھر مودی ‘ تو لوگوں کو
تعجب ہوا کیونکہ اس نعرے میں ’مہادیو ‘ کو ’مودی‘ سے بدل دیا گیا تھا ۔ یہ
وہی مہادیو ہے جس کی توہین سے ناراض ہوکر بقول نوپور شرما، اس نے اہانت
رسول ﷺ کی ناپاک حرکت کی۔ سوال یہ ہے کہ جب ’ہر ہر مہادیو، گھر گھر مہادیو‘
کے نعرے کو بدلا جارہا تھا تو نوپور شرما جیسے لوگوں کے مذہبی جذبات کو
ٹھیس کیوں نہیں پہنچی ؟ وارانسی میں کاشی وشو ناتھ کاریڈور کی تعمیر و
توسیع کے لیے ڈھائی سو سے زیادہ شیولنگ ہٹا دئیے گئے تو بوال کیوں نہیں
ہوا؟ مسجد کے اندر فوارے کو شیولنگ نہ کہنے پر جذباتی ہوکر نبی ٔ پاک ﷺ کی
بابت اناپ شناپ بکنے کی شنیع حرکت اس نے کیوں کردی؟
نوپور شرما نے جو کیا سو کیا ؟ لیکن سوال یہ ہے کہ سرکار نے کیا کیا؟ پہلے
تو اسے مسلمانوں کے غم غصے کو قابلِ التفات نہیں سمجھا ۔ اس کے بعد عالمی
دباو آیا تو نوپور شرما کو دورانِ تفتیش معطل کرنے کا اعلان کیا ۔ یہ اس
قدر بودی حرکت تھی کہ بچہ بچہ سمجھ گیا دوچار ماہ بعد جب حالات معمول پر
آجائیں گے تو نام نہاد تفتیش سے یہ انکشاف ہوجائے گاکہ اس سے کوئی غلطی
سرزد ہی نہیں ہوئی تھی ۔ اس کے بعد ترجمان کے عہدے پر بحال کرکے نوپورجیسے
دریدہ دہن لوگوں کو اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیزی کا لائسنس جاری
کردیا جائے گا۔ سرکار کہ اس طرح عارضی طور پر نوپور کو پارٹی سے باہر نکال
کر پہلے بیرونی دنیا بہلاکر اور پھر پارٹی میں داخل کرکے اپنے بھگتوں کی خو
ش کرکے معاملہ رفع دفع کرنا چاہتی تھی لیکن یہ دوسرا اندازہ بھی غلط نکلا۔
نوپور شرما کی معطلی کو سرکار کی سیاسی کمزوری اور معاشی مجبوری سے منسوب
کردیا گیا ۔ یہ دونوں باتیں درست ہیں ۔
دنیا فی الحال ایک عالمی گاوں بن چکی ہے۔ اس میں مختلف ممالک کا ایک دوسرے
پر انحصار ہے اس لیے چاہے نہ چاہے دوسروں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ ہندوستان
دیگر ممالک اور خاص طور عرب دنیا پر کس قدر منحصر ہے اس کا اندازہ پہلی بار
ہوا۔ مہیشور پیری معروف جریدے آوٹ لُک اور کیرئیر 360کے بانی ہیں ۔ انہوں
نے اس تنازع کی بابت اپنے تازہ ٹویٹ میں لکھا کہ ’اس سے بری حالت نہیں
ہوسکتی کہ افغانستان اور لیبیا نے بھی معافی کا مطالبہ کیا ہے۔ اب آگے
کون؟ ‘ یہ نوبت کیوں آئی اس کے ثبوت میں انہوں نے اپنے کئی ٹویٹس میں چشم
کشا اعدادو شمار پیش کیے ۔ اقوام متحدہ کے مطابق ایک کروڈ اسیّ لاکھ
ہندوستانی نقل مکانی کرکے دیگر ممالک میں جاچکے ہیں۔ دنیا بھر میں یہ سب سے
بڑی تعداد ہے۔ دوسرے نمبر پر میکسیکو ایک کروڈ دس لاکھ اور چینی ایک کروڈ
پر ہیں۔ مودی جی ان مہاجرین کو واپس لانا چاہتے تھے لیکن اب وہ ہار مان چکے
ہیں اور ان کے باہر رہنے پر فخر جتاتے ہیں ۔ ان کی حکومت آئے دن ملک
چھوڑنے والوں کو سہولت فراہم کرتی ہے۔
یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ملک چھوڑ کر جانے والے سارے لوگ مسلم دنیا میں نہیں
جاتے لیکن وہ کسی ہندو راشٹر میں بھی جاکر قیام نہیں کرتے ۔ وہ اسلامی
ممالک کے علاوہ عیسائیوں کی اکثریت والے ممالک میں جاکر بستے ہیں ۔ وطن
عزیز میں فی الحال اسلام کے علاوہ عیسائیوں کے ساتھ بھی بہت برا برتاو کیا
جارہا ہے۔ ان پربھی طرح طرح کے مظالم ڈھائے جاتے ہیں ۔مسیحی مبلغ کو بچوں
سمیت زندہ جلانے کا سانحہ رونما ہوچکا ہے۔ ان کے چرچوں پر حملے ہورہے ہیں
اور اداروں پر بلا واسطہ قبضہ کرکے خلافِ آئین انتظامی امور میں مداخلت کی
جارہی ہے۔ امریکی انتظامیہ مذہبی آزادی سے متعلق اپنی رپورٹ میں کئی بار
اس کا ذکر کرچکا ہے ۔ بعید نہیں کہ فی الحال جس بے چینی کا مظاہرہ مسلم
دنیا میں ہورہا کل کو یوروپ اور امریکہ بھی اس کا اعادہ ہو ایسے میں
ہندوستان کی حالت شمالی کوریا سے بدتر ہوجائے گی کیونکہ اس کے ساتھ کم ازکم
چین ہے جو ہندوستان کو اپنا دشمن سمجھتا ہے۔
حکومت ہند کی جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق 2018 تک پردیس میں رہنے والے
ہندوستانیوں اور پندوستانی نژاد (جن کے آبا و اجداد کا تعلق ہندوستان سے
ہو)باشندوں کی کُل تعداد تین کروڈ بیس لاکھ ہے۔ان میں تقریباً نصف یعنی
ڈیڑھ کروڈ مسلم دنیا میں رہتے ہیں۔ ان کو اگر لوٹا دیا جائے تو روزگار کا
نہایت سنگین مسئلہ پیدا ہوجائے گا۔ بیروزگاری کے علاوہ زر مبادلا کا مسئلہ
بھی قابلِ توجہ ہے ۔ پچھلے تین سالوں کے اندر بدیسوں میں رہنے والے
ہندوستانیوں نے 3. 19 لاکھ کروڈ روپئے ملک میں بھیجے ہیں جو ایک سال میں
جمع ہونے والے ٹیکس کے برابر ہے۔ گزشتہ سال یعنی 2021 میں آٹھ لاکھ تیس
ہزار روپیہ بیرونی ممالک سےآیا جو 40% ؍انکم ٹیکس کے برابر ہے ۔ اس میں سے
تین لاکھ کروڈ تو صرف چار مسلم ممالک سے آیا جبکہ اترپردیش اور بہار کا
مجموعی ٹیکس ریوینیو صرف 1.56 لاکھ کروڈ روپیہ تھا ۔ چار مسلم ممالک کو چار
ہزار کروڈ کی ہندوستانی مصنوعات برآمد کی جاتی ہیں ۔ ان لوگوں نے اگر یہی
مال دیگر ممالک سے منگوانا شروع کردیا تو قومی معیشت پر اس کےسنگین اثرات
پڑیں گے اور بی جے پی کو چندہ دے کر کامیاب کرنے والے تاجروں کو دال آٹے
کا بھاو پتہ چل جائے گا۔
مئی 2020 میں تیجسوی سوریہ کی حماقت سے اگر سبق سیکھ لیا جاتا تو آج یہ
رسوائی ہاتھ نہ آتی ۔اہانتِ رسول کی مذمت کا یہ معاملہ صرف ان ممالک تک
محدود نہیں ہے جن پر ہندوستان کا معاشی انحصار ہے بلکہ اس میں مالدیپ بھی
شامل ہے جو معاشی اور سیاسی اعتبار سے ہندوستان کاباجگذار رہاہے۔ دوسال قبل
جب پاکستان نے اقوام متحدہ میں ہندوستانی اسلاموفوبیا کے خلاف او آئی سی
کے تحت ایک غیر رسمی کمیٹی تشکیل دینے کی تجویز رکھی تو متحدہ عرب امارات
کے ساتھ مالدیپ نے اسے ناکام کردیا تھا۔ مالدیپ کی مستقل نمائندہ تلمیذہ
حسین نے کہا تھا اسلاموفوبیا کے معاملے کوہندوستان سے مخصوص کرنا مناسب
نہیں ہے کیونکہ اس سےجنوبی ایشیا میں خیرسگالی متاثر ہوگی۔ انہوں نےکہا تھا
کہ سوشیل میڈیا میں اسلام کے خلاف مہم ایک سو تیس کروڈ ہندوستانیوں کی
نمائندگی نہیں کرتی لیکن اب ہندوستان نواز صدر ابراہیم ابوصالح کی حکومت نے
بڑی ردو کد کے بعد کا یہ بیان آگیا کہ’مالدیپ کی حکومت غیر مشروط طور پر
کسی بھی ایسے اقدام کی مذمت کرتی ہے جو اسلام کی اصل فطرت وتعلیم کو مسخ
کرنے اور پیغمبر اسلام محمد ﷺ کی شان میں گستاخی کرنے کی کوشش کرتی ہو۔اس
سلسلے میں، مالدیپ کی حکومت ہندوستان میں بی جے پی کے کچھ عہدیداروں کی طرف
سے پیغمبر محمد ﷺ کے بارے میں کیے گئے توہین آمیز تبصرے پر گہری تشویش کا
اظہار کیا تاہم متعلقہ عہدیداروں کے خلاف کارروائی پر حکومت ہند کا خیرمقدم
بھی کیا۔ مداہنت آمیز اختتام کے باوجود یہ بہت اہم تبدیلی ہے۔
محمد ابراہیم صالح سے قبل مالدیپ میں چین نواز عبداللہ یامین برسرِ اقتدار
تھے۔ وہ ہندوستان کو باہر رکھنے کے قائل تھے مگر جب اقتدار کی باگ ڈور نئے
ہاتھوں میں آئی تو ہندوستان کو ترجیح حاصل ہوگئی۔ حجاب کے مسئلہ پر جب او
آئی سی، بحرین اور پاکستان نے حکومت ہند پر تنقید کی تو مالدیپ نے ان کی
حمایت نہیں کی ۔ اس بار بھی حزب اختلاف نے پیغمبر اسلام ؐکے بارے میں نوپور
کے متنازع بیان پر پارلیمنٹ میں ہنگامی قرارداد پیش کردی اس کے باوجود
ابراہیم محمد صالح سرکار ردعمل سے گریز کرتی رہی ۔ رکن پارلیمان آدم شریف
عمر کی قرارداد نا منظور ہوگئی کیونکہ اس تجویز کے خلاف وہاں موجود 43؍
ارکان میں سے 33 نےووٹ دیا جبکہ حمایت میں صرف 10 ووٹ پڑے۔ اس کے باوجود
حکومت کو اپنا موقف بدلنا پڑا کیونکہ 2023 میں صدارتی انتخاب ہونے والا ہے۔
حزب اختلاف نے اہانت رسولﷺ کے معاملے میں اس قدر دباو بنادیا ہے کہ اب
ابراہیم ابوصالح کے لیے ہندوستان کی حمایت تو دور خاموش رہنا بھی مشکل
ہوگیا۔ حکومت ہند نے اپنی نادانی نے ایک قریبی حلیف کو نیم دشمن بنا دیا ۔
اس ابترصورتحال کی وجوہات تنگ نظری ، کوتاہ اندیشی ، خوش فہمی ، خود پسندی
اور نااہلی ہے ۔ حکمراں طبقہ جب تک کہ ان نقائص سے خود کو پاک نہ کرے ایسی
درگت سے چھٹکارہ ممکن نہیں ہے۔ موجودہ حالات پر علامہ اقبال کے اس شعر کا
انطباق (معمولی ترمیم) کیا خوب ہوتا ہے؎
وطن رسوا ہوا پیرِ چمن کی کم نگاہی سے
جوانانِ قطاری کس قدر صاحب نظر نکلے
|