دنیا کا ہر معاشرہ عوام و خواص پر مشتمل ہوتا ہے ۔ قدیم
نظام سیاست پر چونکہ خواص کا تسلط تھا اس لیے عوام محرومیت کا شکار رہتے
تھے ۔ اس کے بعد سلطانیٔ جمہور کا زمانہ وارد ہوگیا تو اس سے یہ توقع تھی
کہ خواص کو محرومی سے دوچار ہونا پڑے گا یا کم ازکم دونوں کے درمیان تفریق
امتیاز ختم یا کم ہوجائے گا ۔ آج کل دنیا بھر میں جمہوریت کا بول بالہ ہے
۔ اس کی مرعوبیت کا یہ عالم ہے کہ لوگوں نے اسے انسانیت کا نقطۂ عروج سمجھ
لیا ہے ۔ لوگ اس کی خامیوں پر غور کرنا ہی نہیں چاہتے تو متبادل پر غور
کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔ بیشتر ممالک میں یہ نظام کسی نہ کسی شکل
میں کارفرما رہا ہے۔ اس کا دباو اتنا زیادہ ہے کہ ملوکیت اور آمریت بھی
کسی نہ کسی حد تک جمہوری تماشا کرنے پر مجبور ہے۔ اس کے باوجود دنیا کی
حالت کیا ہے ۔ ابھی حال میں دنیا ایک عظیم وباء کی تباہی سے دوچار ہوئی کیا
اس سے عوام و خواص یعنی امیر وغریب یکساں طور پر متاثر ہوئے ہیں؟ اس سوال
کا جواب آکسفام جو کہ خیراتی اداروں کی ایک کنفیڈریشن ہے اور عالمی غربت
کے خاتمے کے لیے کام کرتی ہے کی تازہ رپورٹ کی روشنی میں تلاش کیا جائے تو
جواب منفی میں ملے گا ۔ یہ رپورٹ وقتاً فوقتاً جاری ہوتی رہتی لیکن بقول
اقبال ؎
خواب سے بیدار ہوتا ہے ذرا محکوم اگر
پھر سُلا دیتی ہے اُس کو حُکمراں کی ساحری
ابھی حال میں پھر سے ڈاووس میں دنیا کے امیر ترین لوگوں کا اجتماع منعقد
ہوا تاکہ دنیا میں لوٹ کھسوٹ کے نئے منصوبوں کو بروئے کار لایا جاسکےلیکن
وہاں ایک حیرت انگیز واقعہ رونما ہوگیا ۔ اس سے قبل دنیا کے غریب لوگ ان
امیر ترین لوگوں کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے وہاں جمع ہوتے تھے مگر اس بار
الٹا ہوگیا ۔ ان امیر لوگوں نے احتجاج کردیا اور یہ مظاہرہ ٹیکس کو لے کر
تھا ۔ حکومت جب بھی نئے ٹیکس لگاتی ہے تو متوسط طبقے کے لوگ اس کے خلاف
اپنا احتجاج درج کرواتے ہیں کہ اسے کم یا ختم کیا جائے لیکن اس مظاہرے میں
امیر لوگوں کے گروہ نے حکومتوں سے التجا کی کہ ان پر ٹیکس بڑھایا جائے یہ
سب کیوں اور کیسے ہوا یہ جاننا دلچسپی سے خالی نہیں ہے۔ سوئٹزر لینڈ کے شہر
ڈاووس میں عالمی اقتصادی فورم کے اجلاس کے دوران اس سال پہلی دفعہ امیر
افراد کے ایک گروپ نے احتجاج کرکےاپنی حکومتوں سے خود پر (اضافی ) ٹیکس
لگانے کا مطالبہ کیا ۔ یہ عجیب و غریب مطالبہ اس لیے کیا گیا تاکہ امیر اور
غریب کے درمیان تفریق کی کھائی کو پاٹا جاسکے۔
بظاہر احمق نظر آنے والامظاہرین کا یہ گروہ خود کو محب الوطن لکھ پتی قرار
دیتاہے۔ فورم میں چونکہ مختلف ممالک کے سرکاری وفود بھی شامل تھے اور
ہندوستان سے پیوش گوئیل کی قیادت میں ایک ایک ٹیم موجود تھی اس لیے ان
لوگوں نےسالانہ اجلاس میں شرکت کرنے والے عالمی رہنماؤں سے مطالبہ کرکے
انہیں شرمندہ کردیا کہ وہ امیر طبقے پر نئے ٹیکسوں کا فوری طور پر نفاذ
کریں۔ اس کی وجہ یہ بتائی گئی کہ ایسا کرنے سے دنیا کے متعدد ممالک میں طرز
زندگی کے بڑھتے اخراجات پر قابو پایا جاسکے گا۔ ان باضمیر لوگوں کو یہ
مطالبہ اس لیے کرنا پڑا کیونکہ آکسفیم نے اپنی حالیہ رپورٹ میں کہا تھا کہ
دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم کے نتیجے میں 2022 میں مزید 26 کروڑ 30 لاکھ
افراد شدید غربت کا شکار ہوجائیں گے ۔ جن حکومتوں سے یہ مطالبہ کیا جارہا
ہے ان میں سے بیشتر ان گریب لوگوں کے ووٹ قائم ہوئی ہیں اس لیے حکومتوں کو
ازخود اپنے رائے دہندگان کی فلاح و بہبود کے لیے یہ کرنا چاہیے تھا لیکن وہ
اقتدار میں آکر اپنے کرم فرماوں کو بھول گئے بلکہ ان کا ستحصال کرنے والے
سرمایہ داروں کے شریک کار بن گئے ۔ اس لیے احتجاج کرنے والے گروہ میں شامل
سابق بزنس کنسلٹنٹ فل وائٹ کو یہ کہنا پڑا کہ دنیا اقتصادی بحران کے باعث
تباہی کی جانب بڑھ رہی ہے۔ ایسے میں ارب پتی اور عالمی رہنماؤں کا یہ
اجتماع تاریخ کو بدلنے پر بات کرے گا لیکن جس نقار خانے میں حکمراں اپنے
غریب عوام کے تئیں گونگے، بہرے اور اندھے ہوجائیں تو پھر وہاں طوطی کی
آواز کون سنے گا؟
فل وائٹ نے یہ ناقابل یقین انکشاف کرکے موجودہ دور کے پاکھنڈی حکمرانوں کو
بے نقاب کردیا کہ ہمارے سیاسی رہنما ان طبقوں کی با ت تو سنتے ہیں جن کے
پاس پہلے ہی بہت کچھ موجود ہے ۔ ان میں سے بیشتر نہ کے برابر ٹیکس ادا کرتے
ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس سوال کا جواب یہ ہے یہ سرمایہ
دار حکمراں جماعت کو ٹیکس کے بجائے چندہ دیتے ہیں ۔ وہ رقم سرکاری خزانے کے
بجائے پارٹی کی تجوری میں چلی جاتی ہے۔ اس دھن دولت کو دو حصوں میں تقسیم
کردیا جاتا ہے۔ ایک حصہ سیاستدانوں کی جیب خاص میں چلا جاتا ہے اور دوسرا
پارٹی کی تشہیر پر خرچ ہوتا ہے۔ اسی سے میڈیا کو خرید کر انتخاب جیت کر اسے
جمہوریت کی عظیم فتح قرار دیا جاتا ہے۔ یہ کالا دھندا رک جائے تو جمہوریت
کا سفینہ اسی وقت ٖرقاب ہوجائے ۔ اس لیے کانفرنس میں کیا جانے والا یہ
مطالبہ صدا بہ صحرا ہوجاتا ہے کہ اس کا بہترین نتیجہ امیر افراد پر ٹیکسوں
کا نفاذہی ہوسکتا ہے اور ہم پر ٹیکس لگایا جائے۔ اس احتجاج میں شریک مشہور
کیمیکل کمپنی بی اے ایس ایف کے بانیوں کی وارث مارلن انگیل ہورن نے کا کہنا
تھا کہ دنیا میں بڑھتی عدم مساوات کا واحد حل امیر افراد پر ٹیکسوں کا نفاذ
ہے۔ انہوں نے بھری محفل میں یہ اندر کی بات کہہ دی کہ ’’ میں اپنی پوری
زندگی دولت سے مستفید ہوئی ہوں اور میں جانتی ہوں کہ معیشت کو کیسے نقصان
پہنچایا جاسکتا ہے اور اسی لیے میں پیچھے رہ کر اور کسی اور کے آگے آکر
کچھ کرنے کا انتظار نہیں کرسکتی‘‘۔
معیشت کی تباہی کے اثرات جولائی 2020 میں آکسفام کی رپورٹ میں نظر آتے
ہیں ۔ اس میں انکشاف کیا گیا تھا کہ اگر دنیا میں بھوک و افلاس اور معاشی
بدحالی کی موجودہ صورتِ حال جاری رہتی ہے اور اسے درست کرنے کے لیے کچھ نہ
کیا گیا تو اس سال کے آخر تک بھوک سے روزانہ 12 ہزار افراد ہلاک ہو سکتے
ہیں اور 12 کروڑ سے زیادہ لوگ شدیدفاقہ کشی میں مبتلاء ہو سکتے ہیں۔ کورونا
کی بدولت ہونے والی معاشی تباہ کاری کے سبب غربت و افلاس میں زبردست اضافہ
متوقع ہے۔ اس چیلنج سے نمٹنے کے لیےخوشحال ممالک اور اقوام متحدہ سمیت
عالمی اداروں کو آگے آکربحران پر قابو پانے کی ترغیب دی گئی تھی۔ ڈیڑھ سال
بعد امسال جنوری میں شائع ہونے والی اسی ادارے کی رپورٹ میں اس کے بیشتر
اندازوں کی تصدیق ہوگئی۔ اس معاشی بحران کو عالمی معیشت 1929 کے وال سٹریٹ
کریش کے بعد بدترین کساد بازاری کا شکار قرار دیا گیا ۔ آکسفام کی رپورٹ
میں اس دوران عدم مساوات کو ’معاشی تشدد‘ کے نام سے موسوم کرکے بتایا کہ
صحت کی دیکھ بھال تک رسائی کی کمی، صنفی بنیاد پر تشدد، بھوک اور موسمیاتی
تبدیلیوں کی وجہ سے عدم مساوات روزانہ 21 ہزار افراد کی موت کا سبب بن رہی
ہے۔ یہ اعتراف بھی کیا گیا کہ وبائی مرض نے 160 ملین افراد کو غربت میں
دھکیل دیا اور غیر سفید فام نسلی اقلیتوں اور خواتین کو عدم مساوات کے
بڑھتے ہوئے اثرات کا سامنا کرنا پڑ ا ۔
عصر ِ حاضر میں تیل کی دولت کے سبب کئی مسلم حکمراں کے مالا مال ہیں لیکن
دین سے دوری کی وجہ سے کوئی مثال قائم کرنے سے قاصر ہیں ۔ ان حکمرانوں کے
چہرے سے مذہبی نقاب کا اترنافالِ نیک ہے کیونکہ ان کی مادہ پرستی دین اسلام
کی غلط ترجما ن بنی ہوئی تھی۔ اب تک کی معلوم انسانی تاریخ میں سب سے زیادہ
دولت مندموسیٰ منسا کو سمجھا جاتا ہے جن کی پیدائش 1280 میں ہوئی اور
انتقال 1337 کے اندر ہوا۔ ان کا اصل نام موسیٰ کیٹا اول تھا لیکن وہ منسا
کے نام سے مشہور ہوئے جس کا مطلب بادشاہ ہے۔معیشت کے معروف عالمی جریدہ
’منی‘ کے مطابق ٹمبکٹو کایہ فرمانروا تاریخ کا امیر ترین شخص تھا۔ ان کے
دور سلطنت میں مالی معدنیات اور بطور خاص سونے کے ذخائر سے مالا مال ملک
تھا۔ موجودہ ممالک میں موریطانیہ، سینیگال، گیمبیا، گنی، برکینا فاسو،
مالی، نائیجر، چاڈ اور نائجیریا وغیرہ موسیٰ کی سلطنت کا حصہ ہوا کرتے تھے۔
منسا موسیٰ کی تعمیر کردہ بعض مساجد ہنوز موجود ہیں۔
ایک اندازے کے مطابق منسا موسیٰ کی دولت چار سو ارب امریکی ڈالر کے برابر
تھی جبکہ موجودہ امیر ترین شخص اور امیزون کے بانی جیف بیزوس کی دولت کا
تخمینہ صرف 106 ارب امریکی ڈالر لگایا گیا ہے۔ افراط زر کو ذہن میں رکھا
جائے تو بھی منسا موسیٰ کی دولت تاریخ کسی بھی زندہ یا مردہ دولت مندسے
زیادہ بنتی ہے۔ منسا موسیٰ کی شان و شوکت کا اندازہ ان کے 1324 میں کیے
جانے والےسفر حج سے لگایا جاسکتا ہے۔ تقریباً ساڑھے چھ ہزار کلومیٹر کے ا س
سفر میں ان کے ساتھ 60 ہزار افراد تھے ۔۔ 500؍ افراد پر مشتمل منسا کا پیش
رو دستہ سونے کی چھڑی لے کر چل رہا تھا۔ ان کے کارواں میں موجود 80 اونٹوں
پر 136 کلو سونا لدا ہوا تھا لیکن اس سفر کی سب سے خاص بات یہ تھی کہ منسا
موسیٰ نے بے مثال فراخ دلی کا مظاہرہ کر تے ہوئے مصر کے غریبوں کو اتنے
عطیات دیئے کہ افراطِ زر ہو گیا۔ آج کے حکمراں اگر منسا کی پیروی میں ایسی
مثال قائم کرتے تو دنیا کو پتہ چلتا کہ دولت صرف عوام کا استحصال کرکے دولت
بڑھانے کا ذریعہ نہیں بلکہ ان کی فلاح و بہبود کے لیے لٹانے کی خاطر امانت
ہے لیکن افسوس کہ مغرب کی اتباع میں مسلم حکمرانوں نے بھی منسا موسیٰ کے
بجائے قارون کو اپنے لیے نمونہ بنالیا ۔ وطن عزیز میں عوام کے ووٹ سے قائم
ہونے والی جمہوری حکومت نے سرمایہ داروں سے ساز باز کرلی ہے۔ حکمراں عیش
کررہے ہیں اور سرمایہ دار عوام کے استحصال میں مصروف ہیں ۔ ایسے میں مجاز
کی یہ نظم یاد آتی ہے؎
کیا افرنگی کیا تاتاری ،آنکھ بچی اور برچھی ماری
کب تک جنتا کی بے چینی ، کب تک جنتا کی بے زاری
کب تک سرمایہ کے دھندے ،کب تک یہ سرمایہ داری
بول! اری او دھرتی بول! راج سنگھاسن ڈانواڈول
|