ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی ۔ فن اور شخصیت
(Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی ۔ فن اور شخصیت تحقیق و تحریر شہزاد نیاز(شاعر، ہائیکو نگار)، ایڈوکیٹ ہائی کورٹ، کراچی ٭ (یہ مضمون حلقہ احباب ذوق گلشن معمار اور شاہ محی الحق اکیڈمی کے زیر اہتمام ”کتاب صاحب کتاب نشست“ جس کے مہمان ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی تھے، منعقدہ ۲۱ جون ۲۲۰۲ء میں پڑھا گیا)
میں حلقہ احباب ذوق گلشنِ معمار اور بالخصوص شاہ محی الحق اکیڈمی کا بے حد مشکور ہوں کہ مجھے محترم جناب ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی صاحب جیسی ہمہ جہت اور علمی و ادبی اعتبار سے انتہائی قد آور شخصیت کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا موقع فراہم کیا۔ گفتگو کو آگے بڑھانے اور اصل موضوع پر آنے سے پہلے میں موقع کی مناسبت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے ایک شکوہ حلقہ احبابِ ذوق، گلشن معمار کی منتظمہ کمیٹی کے گوش گزار کرنا چاہوں گا کہ مجھے جمعہ کے روز لگ بھگ صبح نو سے دس بجے کے درمیان اس بات سے آگاہ کیا کہ مُجھے محترم جناب ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی صاحب کی شخصیت اور اُن کے فن پر اپنے خیالات کا اظہار کرنا ہے۔ گو کہ یہ ایک قلیل وقتی نوٹس تھا تاہم منتظمہ کمیٹی کا یہ متفقہ فیصلہ تھا لہٰذا بجا آوری لازم تھی۔لیکن جب میں نے ڈاکٹر صاحب کی شخصیت اور ان کے علمی و ادبی معرکوں پر مضمون قلمبند کرنے کے ارادے سے کچھ اُن کے علمی و ادبی سفر کے بارے میں تحقیق شروع کی تو معلوم ہوا کہ ڈاکٹر صاحب جیسی کثیر الجہت شخصیت اور ان کے علمی، ادبی و فنی سفر کا اتنے کم وقت میں احاطہ کرنا مشکل ہی نہیں قریب قریب ناممکن ہے۔ بہر حال اپنی سرسری اور ادھوری تحقیق کے نتیجے میں ڈاکٹر صاحب کی شخصی اور علمی و ادبی زندگی کے بارے میں جو معلومات میں حاصل کر سکا اس کا خلاصہ حاضرینِ محفل اور فیس بک پیج پر لائیو دیکھنے والے ناظرین کی خدمت میں پیش کرتا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب کی پیدائش قیامِ پاکستان کے تقریباً سات ماہ بعد پانچ دریاوں کی سر زمین پنجاب کے شہر میلسی، ضلع وہاڑی میں جناب انیس احمد صمدانی صاحب کے گھر میں ہوئی۔ آپ کے پُرکھوں کا تعلق راجستھان سے ہے۔ جنہوں نے بعد ازاں ہندوستان کے ضلع مظفر نگر (یو پی) کے قصبہ حسین پو ر میں سکونت اختیار کی۔ مظفر نگر وہ مردم خیز سرزمین ہے جس نے نامور اہلِ علم و دانش، علماء، صوفیاء اور فقہا ء کو جنم دیا۔ میں حاضرینِ محفل کی معلومات میں اضافے کے لئے اس دھرتی سے جنم لینے والی چند نامور شخصیات کے نام لئے دیتا ہوں ان میں حضرت شاہ ولی اللہ، مولانا اشرف علی تھانوی، شہیدِ ملت لیاقت علی خان، مولانا شبیر احمد عثمانی، زاہد حسین (پہلے گورنر بنک دولت پاکستان)، جسٹس ریٹائرڈ ناصر اسلم زاہد، شیخ محمد ابراہیم آزاد، ڈاکٹر اسرار احمد مرحوم، مشہور شاعر احسان دانش، ڈاکٹر الطاف حسین قریشی (اردو ڈائجسٹ) اور شوکت تھانوی صاحب کے نام اس دھرتی کے لئے قابلِ فخر ہیں۔ سہ ماہی کتابی ادبی جریدہ ”سلسلہ“ کراچی کے ایک شمارے میں ”ڈاکٹررئیس صمدانی کی زندگی کی کہانی خود اُن کی زبانی“کے عنوان سے آپ بیتی پر مبنی ایک مضمون میں ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ ”میرے والدین کی شادی قیامِ پاکستان سے پانچ ماہ قبل مارچ ۷۴۹۱ء میں ہوئی تھی۔ میرے وجود کا خمیر ہندوستان میں وجود میں آ چکا تھا۔ اِسے ابھی دو ماہ ہی ہوئے تھے کہ میرے والدین کو پاکستان ہجرت کا قصد کرنا پڑا“ ڈاکٹر صاحب کی اس تحریر کو پڑھنے کے بعداپنے بزرگوں سے سُنے ہوئے جُملے کہ ”مٹی کبھی اپنی خُو نہیں بدلتی“ پر مجھے صد فی صد یقین ہو گیا کیونکہ ڈاکٹر صاحب نے اپنی علمی و ادبی سفر میں جو منزلیں طے کی ہیں وہ مظفر نگر کی سرزمین سے جنم لینے والی اول الذکر قابلِ فخر ہستیوں کی طے کردہ علمی اودبی منازل سے کہیں کم نہیں ہیں۔ رئیس صمدانی صاحب کے والدین چونکہ کراچی میں سکونت پذیر ہو چکے تھے لہٰذا صمدانی صاحب کی تعلیم کا پورا سلسلہ کراچی سے ہی جُڑا ہے۔ آپ نے انٹر گورنمنٹ ایس ایم آرٹس کالج، کراچی، بی۔اے حاجی عبداللہ ہارون گورنمنٹ کالج لیاری کراچی، ایم۔اے سیاسیات و ایم۔ اے لائبریری سائینس جامعہ کراچی سے کیے۔ اور پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری ہمدرد ہونیورسٹی، کراچی سے حاصل کی۔ آپ کے پی۔ ایچ۔ڈی مقالے کا عنوان ”پاکستان میں لائبریری تحریک کے فروغ اور کتب خانوں کی ترقی میں حکیم سعید شہید کا کردار“ ہے۔ تکمیلِ تعلیم کے بعد آپ نے اپنی تعلیمی مناسبت سے سلسلہ ہائے روز گار کا انتخاب لائبریری سائینس کے شعبہ کا کیا۔آپ نے اپنے اس سفر کا آغاز ڈاکٹر محمود حسین لائبریری، جامعہ کراچی میں ریسرچ اسسٹنٹ کی حیثیت سے کیا اور اپنی محنت، لگن اور جذبے سے ترقی کی منازل طے کرتے چلے گئے۔ آپ اس وقت بانی چیئر مین اور پروفیسر کی حیثیت سے شعبہ لائبریری و انفارمیشن سائینس، منہاج یونیورسٹی، لاہور میں اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔اس سے قبل وہ سرگودھا یونیورسٹی میں ایسو سی ایٹ پروفیسر کی حیثیت سے تدریسی خدمات انجام دے چکے تھے۔ آپ کی علمی، ادبی، تدریسی اور تصنیفی خدمات کے پیش نظر منہاج یونیورسٹی لاہور نے آپ کو پروفیسر ایمریٹس کے درجہ پر فائز کیا۔
لائبریری سائینس کیا ہے میں سمجھتا ہوں حاضرینِ محفل اس کے بارے میں یقیناً جانتے ہوں گے۔ تاہم میرے مشاہدے کے مطابق اس شعبہ میں دلچسپی و تعلق رکھنے والے احباب آپ کو خال خال ہی ملتے ہونگے۔ آپ خود اس بات کا تجزیہ اس طرح سے کر کے دیکھ لیں کہ اپنے خاندان، دوست احباب اور ملنے جُلنے والے لوگوں پر ایک نظر دوڑائیں آپ کو شاید ہی کوئی مل سکے جو اس شعبہ سے وابستہ ہو ں یا اس شعبہ کی تعلیم حاصل کر رہا ہو۔ ان سب حقائق کے باوجود ڈاکٹر صاحب کا کم و بیش نصف صدی پہلے نہ صرف لائبریری سائینس کی تعلیم حاصل کرنا بلکہ بعد ازاں لائبریری سائینس ہی میں پی۔ایچ۔ڈی کرنا انتہائی قابلِ رشک و ستائش ہے۔ کُتب خانوں میں دستیاب کتب کی اشاریہ سازی، ببلیو گرافی اور کتب داری سے متعلق جُڑے دیگر امور کو سائینسی بنیادوں پر ترتیب دینے اور شائقینِ کتب اور تحقیق کاروں کے لئے کتب سے متعلق معلومات سہل اور منظم انداز میں فراہم کرنے اور اس کے ساتھ ساتھ لائبریری سائینس کے طلباء اور محققین کے لئے ڈاکٹررئیس احمد صمدانی صاحب کے ادبی اور تحقیقی کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ گو کہ پروفیسر ڈاکٹر صمدانی صاحب لائبریری سائینس کے حوالے سے اس شعبے میں ایک ماہر مدرس اور محقق کی حیثیت سے اپنے ہم عصروں میں ایک ممتاز مقام رکھتے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ آپ کا نام ایک معروف ادیب، شاعر، مدیر، مترجم، خاکہ نویس، کالم نگار، کردار نگار، رُوداد یا رپورٹ نگار اور سوانح نگار کی حیثیت سے بھی علمی وادبی حلقوں میں نمایاں حیثیت کا حامل ہے۔ رئیس صمدانی صاحب کا علم و ادب سے عشق انہیں ورثے میں ملا ہے۔ آپکے خاندان میں متعدد ادیب اور صاحب ِ دیواں شاعر گزرے ہیں۔ حکیم محمد سعید کی شخصیت پر پی۔ایچ۔ڈی مقالہ لکھنے والے آپ پہلے محقق ہیں۔ ادیب و کالم نگار جناب افسر امان صاحب نے پروفیسر رئیس صاحب کی کتاب ”رَشحات قلم“ میں ڈاکٹر صاحب کے بارے میں اپنا مضمون لکھتے ہوئے ان کی اُردو و انگریزی دونوں زبانوں میں تصانیف و تالیفات کی تعداد ۴۳ اور مختلف اخبارات، رسائل و جرائد میں شائع شدہ تجزیے، کالم اور مضامین کی تعداد ۰۰۶ سے ذائد بتائی ہے۔ یہ بھی واضح کردوں کہ ڈاکٹرصاحب کی کل تصانیف چالیس سے زیادہ ہوچکی ہے، مضامین اور کالم ہزار سے زیادہ ہیں۔ڈاکٹر صاحب کی تصانیف و تالیفات کی فہرست کافی طویل ہونے کے سبب میں ان کی چند کُتب کے نام تذکرہ کئے دیتا ہوں۔ ۱۔ پاکستان میں سائینسی و فنی ادب (منتخبہ کتابیات) ۔ سنِ اشاعت ۵۷۹۱ء ۲۔ کتب خانے تاریخ کی روشنی میں ۔ سنِ اشاعت ۷۷۹۱ء ۳۔ ڈاکٹر غنی السلام سبزواری (شخصیت و علمی خدمات) ۔ سنِ اشاعت ۶۰۰۲ء ۴۔ یادوں کی مالا ۔ سنِ اشاعت ۹۰۰۲ء ۵۔ جھولی میں ہیرے موتی (شخصی خاکے) ۔ سنِ اشاعت ۲۱۰۲ء ۶۔ شیخ محمد ابراہیم آزاد ؔ(شخصیت و شاعری) ۔ سنِ اشاعت۳۱۰۲ء ۷۔ رَشحاتِ قلم (شائع شُدہ کالموں کا مجموعہ) ۔ سنِ اشاعت۸۱۰۲ء ۸۔ وہ جو اب ہم میں نہیں ۔ سنِ اشاعت۹۱۰۲ء ۹ مضامین ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی ۔ سنِ اشاعت۹۱۰۲ء ۰۱۔ کالم نگری ۔ سنِ اشاعت ۰۲۰۲ء ۱۱۔ کالم پارے ۔ سنِ اشاعت۰۲۰۲ء ۲۱۔ جواہر الکالم ۔ سنِ اشاعت۱۲۰۲ء ۳۱۔ ڈاکٹر رئیس احمد صمدانی: شخصیت، فن و ادبی خدمات / مولئف افضل رضوی ۔ سنِ اشاعت۱۲۰۲ء مختلف موضوعات پر ڈاکٹر صاحب کی تمام تصانیف و تالیفات اور حالتِ حاضرہ، روز مرہ کے سیاسی، سماجی اور معاشرتی مسائل پر مبنی تجزیاتی اور دیگر تحقیقی موضاعات پر مضامین و کالم علم و ادب سے دلچسپی رکھنے والوں میں خاصی مقبولیت کا درجہ حاصل کر چُکے ہیں۔ بیشتر کتابیں، کالم اور مضامین، حالات حاضرہ، شخصیات، کتب پر اظہار خیال اور لائیبریری سائینس کے موضوع پر ہیں۔یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ پاکستان کی معروف جامعات بشمول علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی نے ڈاکٹر صاحب کی لائبریری سا ئینس کے موضوع پر لکھی کتب کو اپنے لائبریری سا ئینس کے نصاب کا حصہ بنایا ہوا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے لکھے ہوئے تمام مضامین و کالم ”ہماری ویب“ نامی ویب سائٹ پر دستیاب ہیں۔ شائقینِ علم و ادب اس ویب سائٹ پر ڈاکٹر صاحب کی تحریروں کا مطالعہ کر کے اپنے علمی و ادبی ذوق کی تسکین کر سکتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب ”پاکستان ببلیوگرافیکل ورکنگ گروپ کے صدر“؛ ”لائبریری پروموشن بیورو کے نائب صدر“؛ ”پاکستان لائبریری ایسوسی ایشن کے صدر“ اور ”سوسائٹی فار دی پروموشن اینڈ امپرومنٹ آف لائبریریز کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے ممبر“ اور پاکستان میں کُتب خانوں سے متعلق قائم اس طرح کی متعدد دوسری تنظیموں کے بھی مختلف حیثیتوں میں عہدے دار رہے ہیں۔ میں نے شروع میں ہی ذکر کیا تھا کہ ڈاکٹر رئیس صمدانی صاحب کی کثیر الجہت شخصیت اور ان کی علمی و ادبی سفر کا احاطہ کرنے کے لئے خاصا وقت درکار ہے۔ ایک تو تحقیق کے لئے کم وقت دوسرا ہمارے اس پروگرام کے محدود وقت کو بھی ملحوظِ خاطر رکھتے ہوئے میں ڈاکٹر صاحب کی تخلیقات میں سے ایک دو اقتباسات آپکی خدمت میں پیش کر کے آپ سے اجازت چاہوں گا: رئیس صمدانی صاحب نے اپنی آپ بیتی میں لکھا ہے کہ میں شعر گھڑ لیتا ہوں، شاعری میرے خمیر میں تو ہے لیکن تا حال باقاعدہ شاعرہ نہیں کی۔ اپنے موضوع پر لکھنے سے ہی فرصت نہیں ملی، البتہ موقع محل یا ضرورت کے لئے شعر کہہ لیتا ہوں، جیسے مظفر نگر کے حوالے سے یہ شعر: مظفر نگر تیری عظمت کو سلام کیسے کیسے گوہرِ نایاب پیدا کئے تُو نے اپنی جائے پیدائش میلسی کا تذکرہ یوں کیا ہے: میلسی ہے ایک شہر، پانچ دریاوں کی سر زمین پر میں ہو ں رئیسؔ اُسی آسماں کا ایک ستارہ سفرِ حج کے دوران خانہ کعبہ پر اپنی حاضری کے بارے میں تاثرات کچھ یوں بیان کرتے ہیں: تھے اشک جاری، اندر تھا ایک طلاطم برپا مانگنے تو بہت کچھ گیا تھا، پر ہوا عجب حال نہ دل نے دیا ساتھ نہ زباں پہ ہی کچھ آ سکا سوچتا ہی رہا کروں پیش اپنی سیاہ کاریاں ڈاکٹر صاحب کی آپ بیتی کا مطالعہ کرتے ہوئے معلوم ہوا کہ آپ ایک انتہائی خوش قسمت انسان بھی ہیں کہ آپ کو خواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا شرف حاصل ہوا۔ آپ اس خواب کے بارے میں اپنے جذبات کا اظہار شعری انداز میں اس طرح کرتے ہیں: آنکھوں میں بس گیا ہے نقشہ حضورؐ کا دیکھا ہے جب سے خواب میں جلوہ حضورؐ کا ملتا ہے خوش نصیبوں کو دیدار حضورؐ کا نازاں ہو خوش بختی پہ اور شاد بھی میں حق ہے نہ ہمسر نہ ثانی ہے کوئی حضورؐ کا یوں تو بھیجے خُدا نے دُنیا میں پیغمبر بے شُمار چاند بھی دو لخت ہوا جو دیکھا جلوہ حضورؐ کا سیرت بھی لاجواب صورت کا بھی کیا کہنا اللہ نے دکھایا خواب میں جلوہ حضورؐ کا مقدر پہ نازاں کیوں نہ ہوں میں رئیس اپنی زندگی کے تجربات و مشاہدات کو آنے والی نسلوں تک پہنچانے کی جو تڑپ ڈاکٹر صاحب میں ہے اس کا اظہار شعر کے انداز میں اس طرح سے کیا ہے: ہے ایک فرض سو نبھانا چاہتا ہوں رفتگانِ عہد کو یاد رکھنا چاہتا ہوں ذندگی کو بہ احترام لوٹانا چاہتا ہوں ذندگی کے سفر میں جو ہوا حاصل رئیسؔ ایک نثری اقتباس ڈاکٹر صاحب کی کتاب ”وہ جو اب ہم میں نہیں“ سے جس میں آپ نے ڈاکٹر فرمان فتح پوری صاحب کے دارالفنا سے دارالبقاء کے سفر کا احوال قلمبند کیا ہے۔ آپ نے ڈاکٹر فرمان صاحب کے آخری سفر کی منظر کشی کچھ اس انداز سے کی ہے کہ مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ گویا میں بھی ان احباب میں شامل رہا ہوں جو فرمان صاحب کے جنازے میں شریک تھے۔ اقتباس پیش خدمت ہے: ”اتوار کی وجہ سے جامعہ بند تھی، سڑکیں ویران، فضاء غمگین، نم اور سوگوار تھی۔ سڑکوں کی دونوں جانب کھڑے گُم صُم اور ششدر درختوں نے ڈاکٹر صاحب کو خوش آمدید تو کہا مگر حزن اور دل گرفتگی کے ساتھ، ٹہنیاں جھُک جھُک گئیں، غُنچے سہم کر پتوں کی اوٹ میں چھُپ گئے، جامعہ کی عمارتیں بھی ملُول تھیں ان پر سیاہ بادلوں نے اُداسی کی چادر بچھائی ہوئی تھی۔شعبہ اُردو نے اپنے محبوب سربراہ کو قافلے کے ہمراہ دُور سے آخری منزل کی جانب رواں دواں دیکھا تو وہ بھی اپنے باغباں کا سامنا نہ کرسکا رنج الم میں ڈوب گیا۔ کچھ ہی دیر میں قافلہ قبرستان پہنچ گیا۔ یہ ایک ایسا دارالمقابر ہے جہاں ایک خاصا نظم و ضبط ہے، کوئی مکیں اپنی حد سے تجاوز نہیں کرتا، یعنی انکرچمنٹ نہیں ہوتی، یہ تو ہم انسانوں کی بستیاں ہیں جہاں کا ہر رہائشی اس کوشش میں رہتا ہے کہ اس کا بس چلے تو اپنے گھر کے سامنے کی گلی یا سڑک کو بھی اپنے گھر میں شامل کر لے۔ کاش ہم شہرِ خموشاں کے مکینوں سے ہی کچھ سبق سیکھیں“۔
۔۔۔ |