بے نظیر بھٹو نے پاکستان کے لئے کیا کچھ کیا!! حیران کن حقائق

یہ 1995 کی بات ہے، سربیا بوسنیا کے مسلمانوں پر ظلم ڈھارہا تھا، بوسنیا کے عسکریت پسند مسلمانوں کے پاس کوئی عسکری سپورٹ نہیں تھی، پاکستان میں بھٹو کی بیٹی وزیراعظم تھی، مشرق کی بیٹی اس ساری صورت حال کو بھانپ رہی تھی، آرمی چیف اسلم بیگ کے مطابق شہید بے نظیر بھٹو نے اس وقت کے آرمی چیف کو بلایا اور حکم دیا کہ چین سے خریدے گئے اینٹی ٹینک میزائیل بوسنیا کے مجاہدین کو فراہم کئے جائیں اور پھر دنیا نے دیکھا کہ پہلے ہی ہلے میں بوسنیا کے مزاحمت کاروں نے سربیا کے 10 ٹینکوں کے جتھے میں سے سات کو اڑادیا اور اور پھر رفتہ رفتہ مزاحمت کاروں کے دفاعی حملے مضبوط ہوتے چلے گئے اور سربیا کی جارحیت دم توڑ گئی-

اور ایسا نہیں کہ محترمہ بینظیر بھٹو شہید نے صرف ایک پہلو پر غور کیا، وہ سفارتی طور پر عالمی دباؤ بڑھانے کے لئے اس سے پہلے فروری 1994 میں جنگ زدہ بوسنیا ایک ایسے وقت میں پہنچ گئیں جب یہ کہا جارہا تھا کہ ان کے جہاز کو بم سے اڑادیا جائے گا مگر وہ ڈری نہیں، یہ اتنا حیران کن سفارتی داؤ تھا کہ دنیا ششدر رہ گئی، پوری دنیا کی توجہ سربیا کے مظالم کی جانب ہوئی، وہ بموں کے خطرے سے گزر کے بوسنیا پہنچ گئی کیونکہ وہ پاکستان کی عظیم ترین قوم کی ایک بہادر بیٹی تھی، وہ ملک کی واحد حقیقی سیاسی جماعت پاکستان پیپلزپارٹی کی سربراہ تھی، وہ جماعت جس کے لیڈروں اور کارکنوں نے جدوجہد کی ایسی داستانیں رقم کیں کہ پوری دنیا میں ایسی جرات مندی کی مثالیں کم ہی ملتی ہیں-

یہ 1990 کی بات ہے، اسرائیل اور امریکا مل کر پاکستان کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کا منصوبہ بناچکے تھے اور ملک کی خوش قسمتی تھی کہ شہید بے نظیر بھٹو وزیراعظم تھیں، بے نظیر بھٹو کو انٹیلی جنس معلومات پہنچادی گئیں، اس بہادر عورت نے پہلے اپنے وزیرخارجہ کو امریکا بھیج کر پیغام پہنچایا کہ ہمیں سب علم ہے، کسی بھی پیش رفت کی صورت میں ہم سرپرائز دیں گے، دوسری جانب آرمی چیف اسلم بیگ کے مطابق پاکستان کی اس جرات مند بیٹی نے کراچی کے ماڑی پور ہوائی اڈے پر ایٹمی ہتھیاروں سے لیس پاک فضائیہ کے چار جہازوں کو پہنچانے کا حکم دے دیا، اس ایئرپورٹ سے بھارتی ایٹمی تنصیبات کا راستہ نہایت مختصر ہے، پاکستان کی یہ پیشرفت دیکھ کر امریکا کے ہوش اڑگئے، سی آئی اے کا سربراہ رابرٹ گیٹس پاکستان پہنچا، اس کی شہید بے نظیر بھٹو کا سامنا کرنے کی ہمت نہیں تھی، وہ اس وقت کے صدر غلام اسحاق خان سے ملا اور کہا کہ یہ اچھا نہیں ہورہا، غلام اسحاق خان نے وہی کہا جو شہید رانی نے بولنے کے لئے کہا تھا کہ اگر ایک اسرائیلی طیارہ ہماری حدود میں نظر آیا تو بھارتی ایٹمی پلانٹ تہس نہس کردیا جائے گا اور یوں امریکی و اسرائیلی منصوبہ دم توڑگیا-

جب 2011 میں پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت تھی تو امریکیوں نے سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ کرکے ہمارے فوجی شہید کردئیے اور ادھر پاکستان پیپلزپارٹی کی حکومت نے نیٹو سپلائی روک دی، امریکا کو تاریخ میں پہلی بار اپنی غلطی تسلیم کرنا پڑی، پاکستان پیپلزپارٹی کی جرات مند قیادت تھی کہ جس نے امریکا سے وہ ہوائی اڈے واپس لئے جو ڈکٹیٹر پرویز مشرف نے فوجی مقاصد کے لئے امریکا کو دے دئیے تھے-

مسئلہ فلسطین اس وجہ سے بھی سنگین مسئلہ ہے کہ تیسری دنیا کے ممالک کے پاس لائق قیادت نہیں ہے، اب عمران خان، نواز شریف اور طیب اردوگان تو عالمی بحران حل کرنے سے رہے، عمران خان وہ لیڈر ہے کہ جب بھارت کشمیر پر آئینی اعتبار سے بھی قبضہ کرچکا تو خان صاحب نے فرمایا کہ اب میں کیا کروں؟ بھارت کشمیر میں قہر ڈھاتا رہا، میاں نواز شریف صاحب غیر مشروط طور پر پر بھارت سے پینگیں بڑھاتے رہے، ایسے لیڈروں سے ملک نہیں چلتے، ذرا تصور کریں کہ اس وقت اگر بلاول بھٹو پاکستان کا وزیراعظم ہوتا تو کیا ہوتا، پوری دنیا میں پاکستان سفارتی اعتبار سے جنگ چھیڑ کر بھارت اور اسرائیل کا ناطقہ بند کرچکا ہوتا اور کوئی وجہ نہیں کہ کشمیر و فلسطین کے مظلوموں کے لئے بلاول بھٹو اپنے نانا اور ماں کی طرح پہلی صف میں کھڑا ہوتا-

طیب اردوگان کا یہ عالم ہے کہ ابھی کچھ دنوں پہلے جب متحدہ عرب امارات نے اسرائیل سے "پیمان ابراہیم" کیا تو طیب اردوگان نے دبئی سے اپنا سفیر واپس بلانے کی دھمکی دے ڈالی تاہم دوسری جانب اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب میں ترکی کے سفیر کو واپس بلانے کا سوچا بھی نہیں اور نہ ہی انقرہ سے اسرائیلی سفیر کو واپس بھیجنے کی کوئی کوشش کی، یہی نہیں بلکہ طیب اردوگان نے 2005 میں اسرائیل کا دورہ کیا، اس آدمی نے جدید صیہونیت کے بانی تھیوڈور ہرتزل کی قبر پر حاضری دے کر اسے خراج عقیدت بھی پیش کیا اور منافقت دیکھیں کہ اسرائیل کے خلاف کاغذی شیر بنا ہوا ہے-

تیسری دنیا کے ممالک کو اس دور کے بھٹو کی ضرورت ہے تاکہ پوری دنیا میں طاقت کے توازن میں استحکام آئے اور کم از کم کمزور ممالک کے لئے اٹھنے والی کوئی ایک توانا آواز تو ہو-
 

Usman Ghazi
About the Author: Usman Ghazi Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.