عالمی سطح پر متبادل ایندھنوں کی تلاش کا کام تیزی پکڑ
رہا ہے جو کہ وقت کا تقاضا بھی ہے کیونکہ اس وقت توانائی کے جو ذرائع روئے
ارض پر اور زیر زمین موجود ہیں وہ تیزی سے کم ہو رہے ہیں اور اگر ان کے
متبادل تلاش نہ کئے گئے تو صاف ظاہر ہے کہ مستقبل میں شدید نوعیت کے مسائل
جنم لے سکتے ہیں حتیٰ کہ نسل انسانی کامستقبل بھی داؤ پر لگ سکتا ہے، ہمارا
شمار ان قوموں میں ہوتا ہے جو توانائی کی قلت کے شدید ترین مسائل کا شکار
ہیں۔ ہمارے پاس گیس موجود ہے لیکن ہماری ضرورت اس سے زیادہ ہے۔پاکستان میں
2010 میں قومی اسمبلی کو بتایا گیا تھا کہ ملک میں قدرتی گیس کے ذخائر
آئندہ 20 برس میں ختم ہو جائیں گے۔ اس وقت کے پیٹرولیم کے وفاقی وزیر سید
نوید قمر نے ایک تحریری جواب میں بتایا تھا کہ پاکستان میں گیس کی یومیہ
پیداور چار ارب کیوبک فٹ ہے۔ سابق وزیراعظم کے مشیر برائے پیٹرولیم ندیم
بابر نے مارچ 2021میں اپنے ایک بیان کہا تھا کہ اگر ملک میں قدرتی گیس کے
نئے ذخائر دریافت نہ ہوئے تو موجودہ ذخائر 12 برس میں ختم ہوجائیں
گے۔یعنی2033تک پاکستان سے گیس کے ذخائر ختم ہونے کے خدشات ظاہر کئے، خیال
رہے کہ دنیا بھر میں کمپنیاں 2040تک پیٹرول انجن گاڑیاں بنانا بندکردیں گی۔
گیس بحران ہر سرد موسم میں شدید ہوجاتا ہے لیکن اب گرم ترین مہینوں میں بھی
گیس کی کمیابی سے صنعتوں بلخصوص ٹیکسٹایل انڈسٹری کو مشکلات کا شکار ہوجاتی
ہیں۔ پیٹرولیم مصنوعات ہمیں زیادہ تر درآمد کرنا پڑتی ہے جبکہ بجلی کی
پیداوار طلب سے کہیں کم ہے اور یہ سارے عوامل مل کر معیشت اور معاشرت دونوں
پر منفی اثرات مرتب کررہے ہیں۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لئے ضروری کہ
توانائی کے متبادل ذرائع کی تلاش کے حوالے سے عالمی سطح پر جو سرمایہ کاری
ہو رہی ہے اس میں سے کچھ پاکستان میں بھی ہو، حکومت کو اس سلسلہ میں قلیل
المعیاد اور طویل المدت منصوبہ سازی کرنی چاہے۔2021میں پاکستان کا صرف
توانائی کا امپورٹ بل 16ارب ڈالر پر مشتمل تھا جو مجموعی درآمد کا 40 فیصد
تھا۔ ’سابق حکومت نے اپنے اقتدار کے آخری سال مارچ کے مہینے تک 25 بلاکس
تیل و گیس کمپنیز کو تلاش کے لیے دیے تھے جبکہ اگلے سال میں مزید 15 بلاکس
نیلام کیے جانے کا عندیہ دیا تھا، تاہم ان نئے بلاکس کے نتائج فوری آنا
ممکن نہیں بلکہ آئندہ چند برسوں بعد ہی ظاہر ہوسکے گا کہ تیل و گیس کی تلاش
میں کتنی کامیابی مل سکی۔ یونیورسٹی آف سینٹرل پنجاب سے وابستہ معاشی امور
کے ماہر ڈاکٹر قیس اسلم بقول”پاکستان کی 60 فیصد سے زیادہ بجلی کی پیداوار
بھی تیل پر منحصر ہے ان تمام عوامل کے پیش نظر ملکی امپورٹ بل بہت بڑھ گیا
ہے۔ ایک اندازے کے مطابق یہ 40 بلین ڈالرز کے قریب ہو گیا ہے“۔معاشی ماہر
ڈاکٹر خاقان نجیب کے مطابق بڑھتی ہوئی تیل کی قیمتوں کی وجہ سے یہ بل مزید
بڑھ گیا ہے۔ ''پیٹرولیم مصنوعات کا بل سات اعشاریہ پانچ بلین ڈالر سے 15
بلین ڈالرز تک پہنچ چکا اور یہ صرف مالی سال 2022 کے پہلے نو مہینوں کی
کہانی ہے۔ دسویں مہینے میں ہمارا تجارتی خسارہ اور بھی بہت بڑھ گیا ہے، جو
تقریباً 40 بلین ڈالرز کے قریب ہو گیا ہے۔“
مملکت کی معاشی حالت ابتر ہوچکی ہے اور اس کی بنیادی وجوہ میں موثر تجارتی
پالیسیوں کا فقدان اور توانائی کا بحران ہے جس نے ملکی اور عالمی سطح پر
قوت خرید کو متاثر کیا۔ ان حالات میں ہمیں سورج کی روشنی،پانی اور ہو ا سے
بجلی پیدا کرنے کے وافر مواقع موجود ہیں کیونکہ یہاں سال کا زیادہ عرصہ
سورج چمکتا ہے اور ہماری ساحلی پٹیوں پر اتنی تیز ہوئیں چلتی ہیں کہ بجلی
پیدا کرنے کے کام آسکیں۔ ملک کے اندر بھی کئی افراد یا ادارے موجود ہیں جو
ہوا یا سورج سے بجلی پیدا کرنے میں استعمال ہونے والے یونٹ درآمد کرنے اور
ان سے استفادہ حاصل کرسکیں، انہیں صرف حکومتی سرپرستی کی ضرورت ہے۔ حکومت
کو قومی انرجی پالیسی کا اعلان کرنا چاہے تاکہ لوگوں پر واضح ہوسکے کہ اس
جاری بحران پر قابو پانے کے سلسلے میں حکومت کے پاس کیا منصوبہ بندی ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت نہ صرف توانائی کی جاری قلت کو دور کرنے کے
لئے اپنی کوششیں تیز کرے بلکہ مستقبل کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے
کے لئے بھی ابھی سے اقدامات ہونے چاہیں تاکہ چند برسوں کے بعد اگر ہم
موجودہ بحران پر قابو پالیں تو ایک اور بحران ہمارے سامنے کھڑا نہ ہو لیکن
اس کے لئے سیاست برائے سیاست کے بجائے ریاست کی مضبوطی اور اقدار کے فروغ
کے لئے قربانی دینا ہوگی، ایسا ہو نہیں سکتا کہ قربانی کا سارا بوجھ صرف کم
تنخواہ رکھنے والے متوسط اور غریب عوام پر منتقل ہو بلکہ مراعات یافتہ طبقہ
جو اپنی ضروریات پوری کرنے کے مکمل وسائل رکھتا ہے، ان پر بھی جائز بوجھ
ڈالا جائے تاکہ انہیں بھی یہ احساس نہ ہو کہ صاحب ثروت ہونا بھی ایک جرم
ہے۔
توانائی کا بحران دائمی مسئلہ بن چکا اور یہ کہ حکومت کو اس مسئلے کو نظر
انداز نہیں کرنا چاہئے، یہ مسئلہ اور یہ بحران موجودہ حکومت کے قیام کے وقت
بلکہ اس سے بھی پہلے سے موجود ہے، حکومت بجلی کی قلت کے بحران پر قابو پانے
کے حوالے سے ڈیڈ لائنیں بھی دے چکی لیکن بظاہر یہی لگتا ہے کہ بجلی کا
بحران کئی برسوں تک حل ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ بجلی، گیس اور پیٹرولیم
کی قیمتوں میں اضافے اور عوام کو کھلی مارکیٹ اور ذخیرہ اندزوں و منافع
خوروں کے سامنے بے یارو مددگار چھوڑنے کی روش کو ختم کرنا ہوگا۔ واضح رہے
کہ ایسے حالات میں خوراک کی غیر مستحکم قیمتیں ملک میں پُر تشدد واقعات
بڑھنے کی وجوہ بن سکتی ہیں۔ ظاہر ہے جب لوگ اپنی جائز آمدنیوں سے اپنا اور
اپنے بچوں کا پیٹ پالنے کے قابل نہیں رہتے اور روز افزوں مہنگائی کی وجہ سے
ان کی قوت خرید ختم ہوجاتی ہے تو وہ ناجائز طریقوں سے اپنی ضرورت کی اشیا ء
حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت توانائی کی
قلت دور کرنے کے لئے اقدامات لے ہی، اسے پیٹرولیم، گیس، بجلی اور ایندھن کے
دیگر سستے اور متبادل ذرائع حاصل کرنے کے بارے میں بھی سوچنا چاہئے کیونکہ
جب تک ذرائع سستے و متبادل میسر نہ ہوں گے اس وقت تک ان کی وجہ سے پیدا
ہونے والے اور گھمبیر صورت اختیار کرنے والے مسائل کا حل ممکن نہیں ہوسکتا۔
زرمبادلہ کے تیزی سے کم ہوتے ذخائر معیشت کے بوجھ میں مزید اضافے کا سبب
رہے ہیں۔ اگر انتخابات کسی معاشی انقلاب کا حل ہے تو اس کی وجوہ بھی سامنے
لائی جائیں کہ عام انتخابات کس طرح ملکی معاشی صورت حال کو تبدیل کرسکتے
ہیں۔ موجودہ حکومت کڑے فیصلے کرچکی اور مزید بھی کررہی ہے تاہم توانائی کا
بحران کسی بھی حکومت کے لئے بڑا چیلنج ہے۔ اس موقع پر سیاست برائے سیاست کے
بجائے ریاست کے استحکام کے لئے موثر تجارتی پالیسیوں کو اپنانے کی ضرورت
ہے۔ عام انتخابات کے بعد بھی سخت فیصلے وقت کی ضرورت ہوں گے، تو کیا بہتر
نہیں ہوگا کہ ذاتی مفادات سے بالاتر ہوکر قوم و ملک کے لئے فوری اجتماعی
فیصلہ کیا جائے۔
|