شیوسینا کے سیاسی بحران کا خلاصہ ’اس گھر کو آگ لگ گئی
گھر کے چراغ سے‘ ہے۔ اس آگ کی ابتدا تو ایک نہایت معمولی چنگاری سے ہوئی
مگر دیکھتے دیکھتے وہ سورت سے گوہاٹی تک پھیل گئی ۔ ایکناتھ شندے نے بغاوت
کے دوسرے دن یہ دعویٰ کیا تھا کہ شام پانچ بجے تک ان کی تعداد میں خاصہ
اضافہ ہوجائے گا اور وہ ممبئی لوٹ کر حکومت سازی کا دعویٰ کردیں گے ۔ سنجے
راوت بھی ان کے ممبئی لوٹنے پر سارے اختلافات دور کرنے کی بات کررہے تھے ۔
ادھو ٹھاکرے کے نجی سکریٹری ملند نارویکر نے تصدیق کی تھی کہ وزیر اعلیٰ کے
بھروسہ مند رکن قانون ساز اسمبلی رویندر پھاٹک اپنے ساتھ اسمبلی کے ارکان
سنجے راٹھوڑ اور داداجی بھوسے کے ساتھ باغیوں کو منانے کی خاطر سورت گئے
تھے لیکن یہ کوشش ناکام رہی۔ اس پر خوش ہوکر ایکناتھ شندے کو پانچ بجے شام
سے پہلے ہی لوٹ آنا چاہیے تھا اس لیے کہ وزیراعلیٰ یا کم از کم نائب وزیر
اعلیٰ بننے کی جلدی کسے نہیں ہوتی؟
بی جے پی کے خیمے میں جشن شروع ہوچکا تھا۔ڈھول ننگارے بجنے لگے تھے۔ سڑکوں
پر بھگوادھاری سنسکاری مردو خواتین ٹھمکے لگا رہے تھے ۔ وہ بڑی بے حیائی کے
ساتھ اپنی ویڈیو بنواکر پھیلا رہے تھے لیکن افسوس کہ دولہے راجہ( شندے ) ہی
نہیں لوٹے اور الٹے پاوں بارات واپس ہوگئی ۔ باغی ارکان اسمبلی کوممبئی
لانے کے لیے سورت جانے والے چارٹرڈ جہاز کےاغواء شدگان کو ساتھ لانے سے قبل
ڈر کے مارے انہیں گوہاٹی پہنچادیا گیا ۔ بس پھر کیا تھا جیسا کہ گبر نے کہا
تھا ’جو ڈر گیا وہ مرگیا‘، سیاسی بساط الٹ گئی ۔ شیوسینا کی بکری شیر بن
گئی اور شندے کے چیتے بھیڑ میں تبدیل ہوگئے ۔آسام کے وزیر اعلیٰ ہیمنت
کمار بسوا ان باغیوں کے منتظر تھے اوران کے تحفظ و آرام پر اپنی توجہات
مرکوز کیے ہوئے تھے۔ انہیں فائیو اسٹار ہوٹل پہنچایا جارہا تھا جبکہ ان کو
وزیر اعلیٰ کے عہدے پر فائزکرنے والے عوام سیلاب کی زبردست تباہ کاری کی زد
میں تھے ۔
آسام کے اندر اس دن برہم پترا، کوپلی اور ڈسانگ کا پانی کئی مقامات پر
خطرے کے نشان سے اوپر بہہ رہا تھا۔ باغیوں کی آمد والے دن تک ہلاکتوں کی
کل تعداد 100 ہوچکی تھی۔ ریاست کے 34؍ اضلاع میں سے 32؍ ضلعوں کے941 گاؤں
میں 11,67,219 بچے سمیت 54,57,601 افراد متاثر تھے۔ کل 2,71,125 لوگ ریلیف
کیمپوں میں رہ رہےتھے لیکن وزیر اعلیٰ دائیو اسٹار ہوٹل میں عیش کرنے والے
پچاس باغی ارکان اسمبلی کی مہمان نوازی فرما رہے تھے۔ 99,026 ہیکٹر سے
زیادہ اراضی پر فصلوں کو نقصان پہنچ چکا تھا مگراس تباہی سے بے نیاز وزیر
اعلیٰ ہیمنت بسوا سرما سیلاب کا پانی کم ہونے کے بعداس کی وجوہات کا مستقل
حل تلاش کرنے کا لالی پاک پکڑا رہے تھے ۔ عوام کو دکھانے کے لیے ہوائی دورے
اور باغی ایم ایل اے کی خاطربہترین انتظامات، نانِ جوین کے لیے محتاج عوام
کی آنکھوں کے سامنے سورت سے گوہاٹی کی ایک چارٹرڈ فلائیٹ پر پچاس لاکھ
روپیہ پھونک دینا جمہوری نظام کی سفاکی اور دوغلا پن نہیں تو کیا تھا ؟
لیکن ہر رکن اسمبلی کی وفاداری خریدنے کے لیےپچاس کروڈ خرچ کرنے والوں کے
نزدیک پچاس لاکھ کی کیا اہمیت؟
اس دوران دوروز قبل خود وزیر اعلیٰ نے باغیوں کو منانے کی خاطربھیجے جانے
والے رویندر پھاٹک ، سنجئے راٹھوڑ اور داداجی بھوسے کے گوہاٹی پہنچنے کی
چونکانے والی خبر بھی آگئی۔ دودن کے اندر ان کے من پریورتن کا ایک مطلب
توای ڈی کی زبردست دہشت ہے۔ ویسے 9؍جون 2021 کو پرتاپ سرنائک وزیر اعلیٰ کو
خط لکھ کر مرکزی ایجنسی کے خوف سے پارٹی کارکنا ن کو نجات دلانے کی خاطر بی
جے پی سے ہاتھ ملا نے درخواست کرچکے تھے ۔ فی الحال سرنائک کے علاوہ پرب
اور وائکر کی بھی تفتیش چل رہی ہے۔ سرنائک کے 11.35 کروڈ کی ملکیت ضبط
ہوچکی ہے مگر ان پر 5,600 کروڈ کے فراڈ کا الزام ہے۔ ایسے میں اگر سرنائک
اپنا سر نہ جھکائے تو کیا کرے؟ اس لیے باغی ارکان کے ذریعہ ہندوتوا وغیرہ
کی بات بکواس ہے اور پارٹی کا مفاد بھی فریب ہے۔ اصل شئے روپیہ بچانا ،
مزید کمانا اور جیل جانے سے خود کو محفوظ و مامون رکھنا ہے۔ مسلم علاقہ
بائیکلا کی یامنی جادھو بھی ایکناتھ شندے کی حمایت کررہی ہیں کیونکہ ممبئی
میونسپل کارپوریشن میں ان کے خاوند یشونت جادھو کونسلر ہیں ۔ بیرونِ ممالک
کے سرمایہ اور ٹیکس کے شبہ میں ان کی چالیس املاک مشتبہ ہیں ۔اسی علاقہ کی
شیوسینا رکن پارلیمان بھاونا گوولی پر بھی ای ڈی نے شکنجہ کس کر ان کے ایک
دستِ راست کو گرفتار کررکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بھی ایکناتھ شندے کے کیمپ
میں شامل ہوکر اپنی جان بچانے کی کوشش کررہی ہیں ۔
ادھو کے قریبی لوگوں میں سےً دادر کے رکن اسمبلی سدا سرونکر کا اول الذکر
تین لوگوں کے ساتھ گوہاٹی نکل جانے کا ایک مطلب کوئی سازش بھی ہوسکتا ہے۔
ادھو ٹھاکرے اور سنجے راوت بار بار ایکناتھ شندے اور ان کے ساتھیوں کو
ممبئی آنے کی دعوت دے رہے ہیں لیکن وہ ٹال مٹول کررہے ہیں۔ ایسے میں اس
بات کا بھی امکان ہے کہ اپنے لوگوں کو ان کے درمیان بھیج کر واپس آنے کی
ترغیب دی جارہی ہو ۔ اس لیے کہ طاقت کا اصل امتحان تو ایوانِ اسمبلی میں ہی
ہوگا۔ وہاں پر اسپیکر این سی پی کا ہے ۔ اس کے سامنے اگر شندے کی حمایت
37سے ایک بھی کم رکن نکلا تو وہ سارے لوگ اپنی رکنیت گنوا دیں گے اور غبارے
کی پوری ہوا نکل جائے گی۔ یہی بات شرد پوار بار بار کہتے ہیں اور سنجئے
راوت نے بھی کہا ہے کہ وہ آخری وقت تک لڑائی جاری رکھیں گے اور یہ حکومت
اپنی مدت کار مکمل کرے گی۔ پوار اور راوت کااعتماد بالکل ہوائی بھی نہیں
لیکن سیاست میں کچھ بھی ہوسکتا ہے۔
سرکاری مکان ’ورشا‘ کو خیر باد کہنے سے قبل ادھو ٹھاکرے نے فیس بک پر اپنے
خطاب میں بال ٹھاکرے کا انداز اپناتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ایک بھی شیوسینک
میرے سامنے آکر استعفیٰ کا مطالبہ کرے تو میں دستبردار ہوجاوں گا ۔ اس کے
بعد سے اپنے آبائی مکان آتے ہوئے ممبئی کی عوام نے جس عقیدت کا اظہار کیا
اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ ارکان اسمبلی سے قطع نظر عوام اور شیوسینک ان
کے ساتھ ہیں کیونکہ انہیں ای ڈی سے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ اس کے بعد ادھو
ٹھاکرے کا اعتماد بحال ہوگیا اور انہوں نے بی جے پی سمیت شیوسینا کے باغی
ایم ایل اے ایکناتھ شندے کو چیلنج کیا کہ وہ شیوسینا کے کارکنوں اور حامیوں
کواپنے حق میں کر کے دکھائیں۔ پارٹی کے کونسلروں کو آن لائن خطاب کرتے
ہوئے شیو سینا کے سربراہ ادھو ٹھاکرے نے کہا کہ پارٹی کے عام کارکنان ان کا
’سرمایہ‘ہیں اور جب تک وہ ان کے ساتھ کھڑے ہیں، وہ دوسروں کی تنقید کی پروا
نہیں کرتے۔ اپنے خطاب میں انہوں نے یہ بھی کہا کہ ’’جو جانا چاہتے ہیں
جائیں… میں ایک نئی شیوسینا بناؤں گا۔‘‘
وزیر اعلیٰ ادھو ٹھاکرے نے نام لیے بغیر بی جے پی پرالزام لگایا کہ ارکان
اسمبلی کو لالچ دے کر اپنی طرف راغب کیا گیا ہے۔ ادھو ٹھاکرے نے ایکناتھ
شندے پر اپنے احسانات گناتے ہوئے کہا کہ میں نے اس کے لیے کیا نہیں کیا؟
میں نے اس کوسب سے اچھی شہری ترقی کی وزارت دی۔ اگر یہ سب کچھ پانے کے بعد
بھی وہ میرے ساتھ ایسا سلوک کر رہا ہے تو یہ اس کی سوچ ہے۔ وزیر اعلیٰ کو
سمجھنا ہوگا کہ یہ اس کی مجبوری ہے۔ انہوں نے شندے کو موقع دیا اور جو
فائدہ اٹھایا گیا اس پر اگر ای ڈی کے بادل چھا جائیں تو وہ بیچارہ کیا کرے
؟ شیوسینا سربراہ نے باغی ایم ایل اے سنجے راٹھوڑ پر سنگین الزام عائد کرتے
ہوئے کہا کہ جب وہ وزیر تھے تو ان کو الزامات کا سامنا تھا لیکن اس کے بعد
بھی ادھو نے انہیں سنبھالا۔ ٹھاکرے نے کہا کہ آپ درختوں کے پھول لے سکتے
ہیں، شاخیں بھی لے سکتے ہیں لیکن درخت نہیں لے سکتے۔ شیو سینا کے وجود پر
سوال اٹھانے والوں کو ثابت کرنا ہوگا کہ وہ شیو سینا کے ساتھ کس قسم کی
وفاداری رکھتے ہیں۔ یہ ایک سیاسی حقیقت ہے کہ پھولوں اور شاخوں میں دلچسپی
رکھنے والوں کی درخت سے وفاداری نہیں ہوتی۔ ان کا معاملہ تو یہ ہوتا ہے ’تو
نہیں اور سہی اور نہیں اور سہی‘۔
ادھو ٹھاکرے نے اپنے خطاب میں کہا کہ بی جے پی نے ان کے ساتھ برا سلوک کیا
اور وعدوں کو پورا نہیں کیا۔ کئی باغیوں کے خلاف مقدمات درج ہیں۔ لہٰذا،
اگر وہ بی جے پی کے ساتھ جائیں گے تو وہ صاف ہوجائیں گے، اگر وہ نہیں جائیں
گے تو انہیں جیل جانا پڑے گا۔ کیا یہ دوستی کی علامت ہے؟ حیرت کی بات یہ ہے
شیوسینا کے سربراہ بی جے پی سے دوستی کی توقع کرتے ہیں ۔ انہوں نے ایم ایل
ایز کے بارے میں بتایا کہ وہ بی جے پی کے ساتھ ہاتھ ملانا چاہتے ہیں ، اس
کے باوجود ادھو ٹھاکرے کا اصرار ہے کہ وہ آکر بات کریں لیکن کسی میں اس کی
جرأت نہیں کر ہے۔ شیو سینا کے سربراہ نے یہاں تک کہہ دیا کہ ، ’’اگر شیو
سینا کا کوئی کارکن وزیر اعلیٰ بننے والا ہے تو آپ کو اس (بی جے پی) کے
ساتھ جانا چاہیے۔ لیکن، اگر آپ ڈپٹی چیف منسٹر بننے جارہے ہیں تو آپ کو
بتانا چاہئے تھا، میں آپ کو ڈپٹی چیف منسٹر بنا دیتا، میں اپنے عہدے سے
استعفیٰ دینے کو تیار ہوں‘‘۔ شندے کے سامنے یہ ایک ایسی پیشکش ہے جس نے
انہیں دھرم سنکٹ میں مبتلا کردیا ہے۔ ادیتیہ ٹھاکرے کے برملا اعتراف پر کہ
، ’’شیو سینا کو اپنے ہی لوگوں نے دھوکہ دیا ہے۔‘‘یہ مشہور شعر صادق آتا
ہے ؎
دل کے پھپھولے جل اٹھے سینے کے داغ سے
اس گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے
|