✕
ARTICLES
Recent Articles
Most Viewed Articles
Most Rated Articles
Featured Articles
Featured Articles - English
Interviews
Featured Writers
HamariWeb Writers Club
E-Books
Post your Article
NEWS
BUSINESS
MOBILE
CRICKET
ISLAM
WOMEN
NAMES
HEALTH
SHOP
More
SHOP
AUTOS
ENews
Recipes
Poetries
Results
Videos
Calculators
Directory
Photos
Urdu Editor
Travel & Tours
English
اردو
Home
Articles
Recent Articles
Most Viewed Articles
Most Rated Articles
Featured Articles
Featured Articles - English
Interviews
Featured Writers
HamariWeb Writers Club
E-Books
Post your Article
Home
Urdu Articles
Politics Articles
عمران خان کے اچھے دن، برے دن
(Muhammad Hanif, Karachi)
عمران خان کے خلاف سازش چھ مہنے یا ایک سال پہلے شروع نہیں ہوئی۔ ان کے خلاف سازش اسی وقت شروع ہو گئی تھی جب وہ پانچویں یا چھٹی جماعت کے طالب علم تھے۔ اور ایچی سن کالج میں داخلے سے پہلے لاہور کے سینٹ انتھونی سکول میں پڑھتے تھے۔
سازش کے عینی گواہ ان کے ایک گورے استاد تھے جنھوں نے مجھے یہ واقعہ سنایا۔ میں نے ان سے پوچھا تھا کہ عمران خان پڑھائی میں کیسے تھے۔ ان کے استاد نے کہا کہ پڑھائی میں تو بس ایسے ہی تھے لیکن کرکٹ اس عمر میں بھی بہت عمدہ کھیلتے تھے۔
بلکہ اتنے اچھے تھے کہ جب دوسرے سکولوں سے کرکٹ کا میچ ہوتا تھا تو وہ یہ شرط رکھتے تھے کہ عمران خان ٹیم میں شامل نہ ہو اور ہمیں کئی دفعہ یہ شرط ماننی پڑتی تھی۔
ذرا ظلم کی انتہا دیکھیں کہ آپ 13-14 سال کے ہیں اور آپ کو ٹیم میں اس لیے شامل نہیں کیا جاتا کہ آپ لاہور میں اپنی عمر کے تمام کھلاڑیوں سے اچھے ہیں۔
عمران خان کے چاہنے والے اب بھی یہ ہی کہتے ہیں کہ ان کو سازش کر کے وزرات عظمیٰ سے اس لیے ہٹایا گیا کیونکہ قائد اعظم کے بعد وہ واحد رہنما تھے جو پاکستان سے مخلص تھے۔
جنھوں نے ایک پیسے کی کرپشن نہیں کی، مغرب کو للکارا، امریکہ کو ایبسولوٹلی ناٹ کہا۔ اپنے کسے بیٹے بھتیجے کو کوئی عہدہ نہیں دیا۔ (فرح گوگی کا نام بھی میرے خیال میں اس لیے لیا جاتا ہے تاکہ ہمارے تجزیہ نگاروں کے خشک تجزیوں میں تھوڑا رنگ بھرا جا سکے)
عمران خان کے ساتھ وہ ہی کیا گیا جو 13-14 سال کی عمر میں ان کے ساتھ کیا جاتا تھا کہ تو سب سے اچھا ہے اس لیے تو میچ سے باہر چل، بنچ پر بیٹھ کر میچ دیکھ۔
میرا نہیں خیال کہ عمران خان نے کبھی باہر بنچ پر بیٹھ کر پورا میچ دیکھا ہو گا۔
عمران خان اپنی ناکامی کا ایک واقعہ خود بھی سناتے ہیں کہ وہ پروفیشنل کرکٹر کے طور پر اپنے ہی شہر لاہور کے قذافی سٹیڈیم میں بیٹنگ کرنے کے لیے اترے اور اس پہلے ہی میچ میں صفر پر آؤٹ ہو گئے۔
وہ فرماتے ہیں کہ وکٹ سے واپس پویلین تک کا سفر ان کی زندگی کی سب سے لمبی واک تھی۔ لیکن کیا انھوں نے بقول ان کے اتنی بڑی شرمندگی کے بعد کرکٹ چھوڑ دی؟ انھوں نے کرکٹ کی دنیا کا سپر سٹار بن کر دم لیا۔
وہ حضرت علی کے اس قول کی زندہ مثال ہیں جس میں فرمایا گیا ہے کہ میں نے اپنے رب کو اپنے ارادوں کی ناکامی سے پہچانا۔
جب عمران خان سیاست کے بیابانوں کے مسافر تھے تو ہر ٹی وی شو میں، ہر اس مجلس میں پہنچ جاتے تھے جہاں وہ اپنی بات کر سکتے تھے۔ خود بھی سیاست کے پرانے اور گمنام گرگوں کے پاس جاتے تھے۔
کبھی کامریڈ معراج محمد خان کے گھر، کبھی ٹریڈ یونین لیڈر طفیل عباس کے فلیٹ پر۔ ہمارے جیسا ہر دو ٹکے کا صحافی ان کے گلیمر کی وجہ سے ان سے ملتا تھا لیکن اندر سے یہی سمجھتا تھا کہ اس بندے کو بس کرکٹ آتی ہے، سیاست اسے ہم سمجھاتے ہیں۔
اور عمران خان صبر سے بیٹھ کر سنا بھی کرتے تھے۔ سیاست میں جیسے جیسے ان کا عروج شروع ہوا تو انھیں سیاست سکھانے والے بھی بڑھتے گئے۔
ایک دفعہ میں نے انھیں یہ کہتے سنا کہ مجھے ہر وقت کوئی نہ کوئی مشورہ دیتا رہتا ہے، میں نے فیصلہ کیا ہے کہ جس نے مشورہ دینا ہے وہ پہلے پارٹی کو چندہ دے۔
پھر ملک کے سب سے بڑے سیٹھ چندہ دینے کے لیے قطار میں لگ گئے، عمران خان کو مشورے دینے والے بھی وہ آ گئے جو ملک کے اصلی وارث ہیں اور خالی مشورے ہی نہیں دیتے الیکشن وغیرہ کا بندوبست بھی کر لیتے ہیں۔
ساڑھے تین سال تک ایک پیج کا وزیر اعظم رہنے کے بعد اب عمران خان کے پھر برے دن آ گئے ہیں۔ ہمت نہ انھوں نے ہاری تھی نہ ہاریں گے لیکن کبھی کبھی ان کے چہرے پر مایوسی کا سایہ سا آ کر گزر جاتا ہے، خاص طور پر جب وہ فرماتے ہیں کہ مجھے یقین نہیں تھا کہ مجھے نکال کر ان چوروں کو پھر لے آئیں گے۔
انسان کے برے دن اسی وقت آتے ہیں جب ہماری صحافی برادری کے ستارے آپ کو بٹھا کر ایک بار پھر لیکچر دینا شروع کر دیں۔ بیچ میں تعریف بھی کرتے ہیں جس پر وہ تھوڑا سا شرما جاتے ہیں۔
ہمارے فخر اوکاڑہ اور کامیڈی اور اپنے ہاتھ سے لکھی تاریخ کے بے تاج بادشاہ محترم آفتاب اقبال نے اپنے عمران خان والے انٹرویو میں ایک تو سکوپ یہ نکالا کہ یہ کیا بادشاہ بنے جسے بادشاہوں والی گیم شطرنج میں کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
پھر انھیں بتایا کہ وہ اس وقت ذوالفقار علی بھٹو سے زیادہ مقبول لیڈر ہیں۔ تھوڑا ڈر سا لگا کہ بھٹو کو ہٹانے سے کام نہیں چلا تھا تو اس کو لٹکانا پڑا تھا۔ اور ظاہر ہے جیسا کہ آفتاب اقبال نے فرمایا کہ عمران خان سے اسی طرح چھوٹی چھوٹی غلطیاں ہوئی ہیں جیسی اکبر بادشاہ اور سکندر اعظم سے ہوئی تھیں۔
لیکن ہماری حالیہ تاریخ ہمیں یہی بتاتی ہے کہ لاہور کی جم پل والے لیڈروں کو میچ سے باہر بنچ پر تو بٹھایا جا سکتا ہے، لٹکایا نہیں جا سکتا۔
Partner Content: BBC Urdu
< PREVIOUS
پاکستان سری لنکا نہیں
NEXT >
جس لمحے رعب ختم سب ختم
Facebook
WhatsApp
Pinterest
Twitter
Comments
Print
14 Jul, 2022
Views: 1817
About the Author:
محمد حنیف
Read More Articles by
محمد حنیف
:
15 Articles with 29620 views
Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile
here.
Add Your Article
Article Categories
Politics
سیاست
Society & Culture
معاشرہ اور ثقافت
Religion
مذہب
Other/Miscellaneous
متفرق
Literature & Humor
ادب و مزاح
Education
تعلیم
Health
صحت
Famous Personalities
مشہور شخصیات
Science & Technology
سائنس / ٹیکنالوجی
Novel
افسانہ
Sports
کھیل
True Stories
سچی کہانیاں
Books Intro
تعارفِ کتب
Travel & Tourism
سیر و سیاحت
Career
کیریر
Entertainment
انٹرٹینمنٹ
Kids Corner
بچوں کی دنیا
Poetry
شعر و شاعری
100 Lafzon Ke Kahani
سو لفظوں کی کہانی
Young Writers
نوجوان قلم کار
Arts
ہنر
Military Democracy
سول فوجی جمہوریت
Hamariweb Writers Club
ہماری ویب رائٹرز کلب
Recent
Politics
Articles
بیڑ مسجد دھماکہ :ہندو دہشت گردوں پر یو اے پی اے
ڈونلڈ ٹرمپ پر چینی سرخ آنکھوں کا قہر
کانپور تشدد: جنگل راج میں چیتے کی سواری
پانی زندگی ہے
View all Politics Articles
Most Viewed
(
Last 30 Days
|
All Time
)
چین کی معاشی پالیسیاں اور عالمی ترقی
"Can a Green Card Be Canceled in America? Understanding the Risks and Protections"
The Evolving Political Landscape of Pakistan: Challenges and Opportunities
بلوچستان کی جغرافیائی اہمیت اور عالمی سازشیں
قرار داد پاکستان اور قیام پاکستان کا مقصد
Musharraf Era, Martial Law and Major Reforms:
لال مسجد آپریشن کی کہانی تصویروں کی زبانی
بھارتی جاسوس کلبھوشن کو پکڑنےوالے کیپٹن قدیر شہید کی داستان