چُوہے نے اندازہ لگا لیا کہ جاٹ گاؤں چھوڑ کر اب شہری زندگی گزار رہا ہے،
بلکہ اب شہری ہی بن چکا ہے۔ اُس کا اندازہ کچھ غلط بھی نہ تھا، جاٹ نے شہر
منتقل ہونے کے بعد مضافات میں گھر بنا لیا، جہاں ابھی ارد گرد فصلیں تھیں،
گھر کے باہر اس نے چھوٹا سا ایک باغیچہ بنانے کی کوشش کی کہ دیہاتی زندگی
میں کھلے ماحول کا عادی تھا، لان میں گھاس لگائی، اطراف میں کچھ پودے، کہ
جن کی کاٹ چھانٹ کے بعد ماحول کی خوبصورتی میں اضافہ کیا جا سکے۔ کچھ پودے
اپنے تئیں اپنی عاقبت سنوارنے کے لئے بھی لگا لئے، کہ قرآن پاک میں اُن کا
ذکر تھا۔ گھاس نے بہت خوبصورت ماحول پیدا کیا، شام کو وہاں بیٹھ کر چائے
پینے کا الگ ہی مزہ تھا، بعض اوقات دوست احباب بھی آجاتے، یوں جہاں چائے کا
مزہ دوبالا ہو جاتا وہاں فیس بُک کا پیٹ بھرنے کا اہتمام بھی ہو جاتا۔
سرگرمیاں جاری تھیں،گھاس اور پودے پھل پھول رہے تھے، ماحول مزید دلکش ہو
رہا تھا، کہ انہی دنوں میں ایک’’ اندرونی دشمن‘‘ اپنی منصوبہ بندی کر چکا
تھا۔
ایک خوشگوار صبح جاٹ کیا دیکھتا ہے کہ لان میں ایک جگہ مٹی ابھری ہوئی ہے
اور کچھ مٹی پڑی ہوئی ہے، اوپر سے سوراخ نہیں تھا، جاٹ نے جان لیا کہ یقینا
چوہے کی کارروائی ہے، جو اُس نے دشمنی نکالنے کے لئے شروع کی ہے۔ جاٹ نے
پانی کا پائپ اٹھایا اور سوراخ کے منہ پر رکھ کر پانی کھول دیا، اب دیکھتے
ہیں کہ کدھر جاتا ہے چھپا ہوا دشمن؟ بہت دیر پائپ کھلا رہا، مگر نہ وہ
سوراخ بھرا اور نہ ہی مایوس یا پریشان ہو کر چوہا برآمد ہوا۔ اس سوراخ میں
کچھ مٹی ڈال کر اسے بند کر دیا گیا۔ اگلے روز کیا دیکھتے ہیں کہ مزید دو
جگہوں پر بھی معمولی مٹی نکلی ہوئی ہے، وہاں پھر پائپ والی سرگرمی دہرائی
گئی، اور اُسی قسم کی مایوسی کا دوبارہ بھی سامنا کرنا پڑا۔ جہاں بہت دیر
تک پانی ڈالا جاتا بعد میں کافی دور سے پانی کے اخراج کا پتہ چل جاتا، گویا
چوہے نے نیچے سُرنگ کی صورت غاریں بنا رکھی تھیں، جن کا اوپر لان میں کھڑے
ہو کر اندازہ لگانا ممکن ہی نہ تھا۔دوسرا نقصان یہ ہوا کہ جہاں مٹی وغیرہ
ڈالی جاتی وہاں لان کی خوبصورتی پر ایک دھبہ سا لگ جاتا۔ اب یہ روز کا
معمول بن گیا، جگہ جگہ مٹی ڈالنے کی وجہ سے دھبے بنتے گئے، کسی جگہ مٹی
زیادہ ہوگئی تو کسی جگہ کم۔
جاٹ اور چوہے کا مقابلہ جاری رہا، جاٹ نے بہت مشورے کئے، مختلف چوہے مار
دواؤں کا اہتمام کیا، ایک دوکان پر گئے ، دکان دار کو چوہے کی واردات سے
آگاہ کیا، انہوں نے دوائی دی، اسے آلو یا اَمرود وغیرہ پر لگانے کے بعد
چوہے کو دعوتِ شیراز دینے کی ہدایت کی، مگر کوشش کے باوجود کوئی چوہا دعوت
پر نہ آیا۔ ایک صاحب نے مخصوص پنجرہ لانے کو کہا، مگر چوہے اُس کی گرفت میں
بھی نہیں آئے، کئی طرح کی دوائیں آزما لیں، مگر آفاقہ نہ ہوا۔ چوہے کے
پروگرام یا منصوبے کا اندازہ تو نہیں ہو سکا، مگر جاٹ نے تہیہ کر لیا تھا
کہ اب یہاں یہ چوہا رہے گا، یا پھر جاٹ۔ چوہے نے بھی اپنی سرگرمیاں مزید
تیز کر دی تھیں، اب اتنے سوراخ دکھائی دیتے تھے کہ گھاس کم اور سوراخواں
میں مٹی کے نشانات زیادہ ہو گئے تھے۔ اس سے پہلے کہ جاٹ اپنی شکست کا
اعتراف کرتا، اُس نے بازی ہی الٹ دینے کا فیصلہ کر لیا، اگلے روز لان کو
پانی لگانے کا سلسلہ ختم کر دیا گیا، گھاس خشک ہو گئی اور چوہے باعزت طریقے
سے اپنے مشن کی تکمیل کرکے واپس لوٹ گئے۔
’’ اندرونی دشمنوں ‘‘میں اگرچہ چوہے نے مرکزی کردار ادا کیا، مگر اُن کی
رخصتی کے بعد ’’ابھی عشق کے امتحان اور بھی ہیں‘‘ کے مصداق بات ختم نہ ہوئی
تھی۔ جاٹ نے جو پودے لگا رکھے تھے اُن میں انجیر کا پودا بھی شامل تھا۔
دیکھا گیا کہ کچھ چھوٹے چھوٹے انجیر لگے ہوئے ہیں۔ روز ہی دیکھتے کہ کتنا
اضافہ ہوا، سائز میں اور کتنے بڑے ہو گئے، آخر کچھ کی رنگت جامنی مائل ہونے
لگی، اندازہ ہوا کہ کل تک یہ پک جائے گا۔اگلی صبح کیا دیکھتے ہیں کہ وہ
انجیر شاخ سے تو نہیں ٹوٹا، تاہم زیادہ تر حصہ کھایا جا چکا ہے۔ ہو نہ ہویہ
کسی پرندے کی شرارت ہے۔ پھر ایسے ہونے لگا کہ جو بھی انجیر پکنے کے قریب
پہنچتا اگلی صبح تک وہ کھایا جا چکا ہوتا۔ جاٹ جب سے شہر میں آیا تھا، دیر
تک سونے کی عادت بھی اپنا لی تھی، ایک روز انجیر پر حملہ آور ہونے والے
دشمن کی تلاش کی جستجو نے گہری نیند سونے نہ دیا، پودے کے قریب جا کر اسے
بہت غور سے دیکھا، چوڑے چوڑے پتّوں کے نیچے چھپے کچّے انجیر دکھائی دے رہے
تھے، کہ اتنے میں سات فٹ کی بلندی سے کسی چیز کے زمین پر گرنے کی آواز آئی،
دیکھا تو ایک گلہری جان بچانے کے لئے چھلانگیں لگاتی ایک طرف کو بھاگ گئی
ہے۔ جاٹ اس کا کر تو کچھ نہیں سکتا تھا، تاہم یہ راز اُس پر فاش ہوگیا کہ
وہ گلہری ہی ہے جو ہر روز انجیر اُس کے ہاتھوں سے اُچک کر بھاگ جاتی ہے۔ یہ
مقابلہ نہ صرف جاری ہے بلکہ گلہری نے ابھی تک جاٹ کے ہاتھ کوئی انجیر سلامت
نہیں آنے دی۔ اگر گلہری کا یہ خیال ہے کہ چوہے کی طرح جاٹ ضِد میں آکر
انجیر کا درخت ہی اکھاڑ پھینکے گا تو یہ اُس کی خام خیالی ہے۔ انجیر جاٹ کے
حصے میں آئے یا نہ آئے، درخت قائم رہے گا۔
ایک روز جاٹ نے دیکھا کہ انجیر سمیت دیگر پودوں کے پتّے کسی چیز نے کتر کتر
کر کھا لئے ہیں۔ بات بڑھنے لگی، غور کیا تو معلوم ہوا کہ سبز اور پیلے رنگ
کے بڑے بڑے ٹِڈّے پتوں پر بیٹھتے ہیں، اور آری کی طرح کاٹ کاٹ کر کھاتے
جاتے ہیں۔ جاٹ نے اُن کے خاتمے کی بھی کچھ تراکیب نکال ہی لیں۔ یہ تمام
مقابلہ جات جاری ہیں۔ یہ احوال گھر کے پیچھے بنائے گئے ماحول کا تھا، گھر
کے سامنے والوں کا معاملہ بھی مختلف نہیں، بسا اوقات بکریوں کے ریوڑ گزرتے
ہیں، اور جاٹ کی محنت کو لمحوں میں اُجاڑ جاتے ہیں،بے حس چرواہے جاٹ کے
احتجاج پر کان نہیں دَھرتے اور یہ سٹپٹا کر رہ جاتا ہے۔ جاٹ سخت پریشان ہے،
کہ’’ اندرونی دشمنوں‘‘ چوہوں، گلہریوں، ٹِڈّوں اور بکریوں نے فطری ماحول کو
تباہ کر رکھا ہے اور’’ بیرونی دشمن‘‘ بے حس حکمران اور ظالم بیوروکریسی ملک
کے ساتھ وہی حشر کر رہی ہے جو چوہے، گلہری، ٹِڈّے جاٹ کے گھر کے لان اور
پودوں کا کر رہے ہیں۔
|