مہاراشٹر کے اندر جاری سیاسی خلفشار کے کئی پہلو ہیں ۔ ان
میں سب سے عیاں خوف و لالچ کا زاویہ ہے مگر اس کا نظریاتی اور سماجی پہلو
بھی کم اہمیت کا حامل نہیں ہے۔ تاریخ کے حوالے سے یہ باتیں بہ آسانی سے
سمجھ میں آتی ہیں۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ ہندو مہا سبھا اور راشٹریہ
سویم سیوک سنگھ کی بانیوں کا تعلق مہاراشٹر سے ہے اور ان فسطائی جماعتوں کا
قیام اسی سرزمین پر ہوا۔ ہندو مہا سبھا ایک سیاسی جماعت تھی اور انتخاب میں
بذاتِ خود حصہ لیتی تھی۔ انگریزوں کے عتاب سے اپنے آپ کو محفوظ و مامون
رکھنے کی خاطرہندو مہا سبھا کے بانی ونائک دامودر ساورکر نے معافی نامہ
لکھا اور انقلابی نظریات سے دستبردار ہوکر نمک خوار و وفاداربن گئے۔ آر
ایس ایس نے انگریزی استعمار کی ناراضی سے بچنے کی خاطر خود کو ہندو تہذیب و
ثقافت کے احیاء کی تنظیم بتا کر سیاست سے کنارہ کشی اختیار کرلی ۔ اس رویہ
سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ تقریر و تحریر میں دلیری کے بلند بانگ دعووں سے
علی الرغم یہ دونوں اپنے سے بڑی طاقت سے لڑنے کا دم خم نہیں رکھتے۔
انگریزوں کی نظر میں امت مسلمہ سب سے زیادہ معتوب تھی لیکن اس کے باوجود نہ
اس کے کسی رہنما نےایسی بزدلی کا مظاہرہ کیا اور نہ تنظیم نے راہ فرار کو
پسند کیا ۔ یہی شجاعت ملت کا وہ امتیاز ہے جس سے یہ لوگ محروم ہیں۔
آزادی کے وقت ہندو مہا سبھا کے رہنما شیاما پرشاد مکرجی رکن پارلیمان تھے
لیکن ان کا تعلق مہاراشٹر سے نہیں بلکہ مغربی بنگال سے تھا ۔ آگے چل کر جب
آر ایس ایس نے اپنی سیاسی شاخ جن سنگھ کے قیام کا فیصلہ کیا تو ان کے پاس
ملک بھر میں چلنے والی سیکڑوں شاکھاوں کے اندر ایک بھی مقبولِ عام سیاسی
چہرا موجود نہیں تھا۔ اس لیے ہندو مہا سبھا کے شیاما پرشاد مکرجی کو مستعار
لےکر جن سنگھ کا سربراہ بنانا پڑا۔ نتن گڈکری سے قبل مہاراشٹر سے کسی رہنما
کو جن سنگھ یا بی جے پی کی قیادت کرنے کا موقع نہیں ملا۔ نتن گڈکری کو خود
بدعنوانی کے الزام میں استعفیٰ دینا پڑا اور آج بھی سنگھ کی پشت پناہی کے
باوجود سرکار میں ان کی کوئی اہمیت نہیں ہےکیونکہ ریاستِ مہاراشٹر کے اندر
وہ مقبول عام رہنما نہیں ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ مہاراشٹر کے اندر سنگھ پریوار
کی یہ درگت کیوں ہے کہ ناگپور کے گریجویٹ حلقہ ٔ انتخاب سے اس کے امیدوار
کو شکست فاش کا سامنا کرنا پڑتا ہے حالانکہ اسی شہر سے ایک مرکزی وزیر اور
سابق وزیر اعلیٰ آتے ہیں اور سنگھ ہیڈ کوارٹر بھی وہیں ہے ؟ مہاراشٹر کی
سیاست کے بین السطور چلنے والی لہرو ں کا راز ان سوالات کے جواب میں اندر
پوشیدہ ہے۔
جنگ آزادی کے دوران ان دونوں تنظیموں کو مقبولیت اس لیے نہیں ملی کیونکہ
وہ سماج میں کے اندر نفرت و عناد پیدا کرکے عوام کو آزادی کی جدوجہد سے
دور کررہی تھیں۔ عوام اس بات کو سمجھتے تھے کہ یہ انگریزوں کے مفاد میں کام
کررہے ہیں اسی لیے سرکار کو ان پر کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ ایسی صورتحال میں
حکومت نے ان کی پشت پناہی بھی کی ہوگی اور اس نمکخواری کا یہ اثر ہے کہ آج
بھی ہے ان کے ذریعہ انگریزوں کے مظالم کا ذکر شاذو ناد ہی ہوتا ہے۔ ان
لوگوں کا سارا غم وغصہ مسلم حکمرانوں سے شروع ہوکر وہیں ختم ہوجاتا
ہے۔انگریزوں کے دور کو نظر انداز کرنا ان لوگوں کی مجبوری ہے کیونکہ مسلم
حکمرانوں کے زمانے میں تو یہ تنظیمیں موجود ہی نہیں تھیں اس لیے ان سے یہ
نہیں پوچھا جائے گا کہ انہوں نے خود اس کا مقابلہ کیسے کیا؟ مگر انگریزوں
کی بابت تو مواخذہ ہوگا کہ انہوں نے اپنی ذمہ داری کو ادا کرنے میں کوتاہی
کیوں کی ؟ اس تلخ سوال سے بچنے کی خاطر یہ لوگ اس دورِ غلامی کو ہی نظر
انداز کردیتے ہیں۔
فی زمانہ تبدیلیٔ مذہب کی آزادی ہندو احیاء پرستوں کے آنکھوں کا کانٹا
بنی ہوئی ۔ عالمی دباو کے تحت اس پر مکمل پابندی لگا کر اس حق کو سلب
کردینے جرأت ان میں نہیں ہے اس لیے ریاستی سطح پر مختلف قوانین بناکر
رکاوٹیں پیدا کی جارہی ہیں ۔ داعیانِ اسلام کی مانند عیسائی مشنری کے خلاف
بھی دل کھول کر زہر اگلا جاتا ہے۔ اڑیسہ کے اندر ایک مسیحی راہب کو معتوب
کرنے کے بعد بچوں سمیت زندہ جلانے کا واقعہ بھی رونما ہوچکا ہے۔ گرجاگھروں
پر غنڈوں بدمعاشوں کے ذریعہ حملے کروائے جاتے ہیں اور مشنری کو ہراساں و
پریشان کرنے سانحات بھی رونما ہوتے رہتے ہیں۔ ایسے تمام مواقع پر بی جے پی
کے تحت کام کرنے والا انتظامیہ حملہ آوروں کے ساتھ ہوتا ہے ۔ اس سے آگے
بڑھ کر اب سرکاری سطح پر عیسائیوں کے بڑے بڑے تعلیمی اداروں میں بھی دخل در
معقولات ہونے لگا ہے۔ بیرونی امداد کو مختلف بہانوں سے روکنے کی کوشش کی
جارہی ہے۔ عالمی شہرت یافتہ مدر ٹیریسا کے ادارے تک کو نشانہ بنانے سے یہ
زعفرانی سر کار نہیں ہچکچائی لیکن اس کے باوجود انگریزی استعمارکبھی بھی ان
کے نشانے پر نہیں آیا ۔اس معاملے میں ان کی اپنی مجبوری کا احساس پیروں کی
زنجیر بنا ہوا ہے اور وہ اس کا پاس و لحاظ کرنے کے سوا کوئی چارۂ کار نہیں
ہے۔
اس جملۂ معترضہ سے لوٹ کر مہاراشٹر کی سیاست کی جانب چلیں تو سماج کے تانے
بانے سے یہ بات صاف ہے کہ یہاں پر برہمن مذہبی طبقہ کو مراٹھی زبان میں بھٹ
جی کہا جاتا ہے۔ کشتریہ سماج کا مہاراشٹر میں بول بالہ نہیں رہا ۔ شیواجی
کا مراٹھا سماج ریزرویشن کے حصول کی خاطر فی الحال اپنے آپ کو پسماندہ
طبقات میں شمار کیے جانے کی خاطر تحریک چلا رہا ہے ۔ شیواجی کے بعد پیشواوں
نے ان کے سامراج پر قبضہ کرلیا جو برہمن تھے۔ مہاراشٹر کی آبادی میں کسان
اور مزدوروں کی بہت بڑی تعداد کا تعلق پسماندہ ذاتوں سے ہے ۔ مہاراشٹر کے
اندرزراعت کے شعبے میں مسائل کی سنگینی کا اندازہ کسانوں کی خودکشی سے
لگایا جاسکتا ہے۔ صنعتوں کا دائرہ بتدریج سکڑ رہا ہے۔ دلتوں اور قبائلی
لوگوں کی بھی اچھی خاصی تعدا دیہاں موجود ہے۔ قبائلی عوام کی معیشت جنگلوں
پر منحصرتھی۔ انہیں بغیر کوئی متبادل فراہم کیے جنگلات سے محروم کردیا گیا
ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے کچھ علاقوں میں نکسلوادیوں کے اثرات ہیں ۔ دلت
رہنماوں کی آرزو مندی اور ابن الوقتی نےسماج کو پہ درپہ تقسیم کرکے ان کو
سیاسی طور پر بے وزن کر دیا ہے۔
اس سماجی تناظر میں جن سنگھ کے برہمنوں نے جب کام شروع کیا تو ان کو کچھ
سرمایہ داروں کی پشت پناہی حاصل ہوگئی اور وہ سیٹھ و بھٹ جی کی جماعت
کہلانے لگی ۔ اس کا اثرو رسوخ بہت محدود تھا کیونکہ دیہات میں پسماندہ
طبقات کے کسان مزدور کانگریس کے ساتھ تھے اور شہروں میں صنعتی محنت کش طبقہ
اشتراکی جماعتوں کا ہمنوا تھا ۔ قبائلی حمایت بھی انہیں کے درمیان منقسم
تھی ۔ کانگریس نے دلت سماج کو ان رہنماوں کے توسط سے اپنا حامی بنا رکھا
تھا ۔ اس لیے مہاراشٹر میں جن سنگھ کی دال بالکل نہیں گلتی تھی ۔ اس حقیقت
کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ ایمرجنسی کے باوجود کانگریس کا یہ قلعہ محفوظ
رہا ۔ یشونت راو چوہان اور ان کے شاگرد شرپوار کی بغاوت سے قبل مہاراشٹر
میں کوئی غیر کانگریسی حکومت قائم نہیں ہوسکی ۔یہ لوگ بھی انفرادی واجتماعی
سطح پر تنظیمی اعتبار سے تو کانگریس سے الگ ہوئے مگر نظریاتی طور اسی فکر
کے حامل رہے اسی لیے موقع بہ موقع بڑی آسانی سے ایک دوسرے کے حلیف بنتے
رہے ۔
بالا صاحب ٹھاکرے کی شخصیت کی بنیاد پر قائم شدہ شیوسینا کے لیے یہ ناممکن
تھا کہ کانگریس کو اقتدار سے بے دخل کرپاتی لیکن بی جے پی کی طاقت اور
حمایت نے اسے اس قابل بنایا ۔سوال یہ ہے کہ بی جے پی کو کانگریس کی سرپھٹول
کا فائدہ اٹھا کر اقتدار میں حصہ دار بننے کا موقع کیسے مل گیا؟ کانگریس
اور راشٹروادی کا نگریس کے برخلاف مہاراشٹر کے اندر شیوسینا اور بی جے پی
کا سیاسی اتحاد قائم ہوا اور صحیح معنیٰ میں غیر کانگریسی سرکار 1995میں
بنی۔ اس کے وزیر اعلیٰ شیوسینا کے رہنما منوہر جوشی تھے اور اس میں بی جے
پی شامل تھی۔اس کے بعد 2014 میں دیویندر فذنویس کی قیادت میں بی جے پی کی
سرکار بنی اور اس میں شیوسینا شامل تھی ۔ اس موقع پر دو سوالات اہمیت کے
حامل ہیں ۔ اول تو یہ کہ 1995میں ایسا کیا ہوگیا کہ شیوسینا کو اقتدار میں
آنے کا موقع مل گیا اور 2014 میں شیوسینا کے بجائے بی جے پی کی حکومت
کیونکر قائم ہوگئی؟ شیوسینا کے اقتدار میں آنے کی ایک اہم ترین وجہ
کانگریس کے اندر باہمی عدم اعتماد اور شرد پوار کی آرزو مندی تھا ۔ وزیر
اعظم نرسمھا راو اور وزیر اعلیٰ شرد پوار کے درمیان جاری سرد جنگ کا فائدہ
اٹھا کر شیوسینا اور بی جے پی نے پہلی بار مہاراشٹر میں اقتدار سنبھالا ۔اس
بارادھو ٹھاکرے اور ایکناتھ شندے میں اسی طرح ٹھنی ہوئی ہے اس لیے ممکن ہے
کانگریس اور این سی پی اس کا فائدہ اٹھاکر اقتدار میں آجائیں لیکن اس سے
بی جے پی کا فائدہ اٹھانا مشکل ہے کیونکہ شیوسینک شندے سے زیادہ بی جے پی
سے ناراض ہیں ۔ سیاسی بساط پر یہ نئی حکومت کیا گل کھلائے گی اس کا اندازہ
لگانا مشکل ہے لیکن آپسی لڑائی کا انجام جگ ظاہر ہے۔ موجودہ صورتحال میں
ایکناتھ شندے کی مجبوری پر احمد فراز کا یہ شعر معمولی ترمیم کے ساتھ صادق
آتا ہے؎
اس قدر مسلسل تھیں دقتیں سیاست کی
آج پہلی بار اس سے میں نے بے وفائی کی
|