استاد جی، استاد جی

پاکستان میں چاہے جمہوری دور ہو کہ غیر جمہوری دور کام ہمیشہ سے مشکل تھے اور ہیں۔

اول دفاعی بجٹ کا مکمل اور شفاف آڈٹ ۔دوم عدلیہ کے اہم فیصلوں پر مخلصانہ اور من و عن عمل درآمد وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ فوجی ادارہ ایک گیٹڈ کمیونٹی بن گیا جس کے احاطے میں سویلین قانون اور آئینی حدود و قیود داخل نہیں ہوسکتے۔یہ گیٹڈ کمیونٹی اپنے ہی قوانین اور روایات پر عمل پیرا رہتی ہے اور سویلین آئینی ڈھانچے نے اس حقیقت کو اگر شعوری نہیں تو لاشعوری طور پر عملی زندگی کی حقیقت کے طور پر قبول کرلیا ہے۔

البتہ کبھی کبھی کہنے کو سویلین عدلیہ اس گیٹڈ کمیونٹی سے متعلق شکایات کا علامتی نوٹس لے لیتی ہے اور پارلیمنٹ کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی جانب سے سال ڈیرھ سال میں ایک آدھ دکھ بھرا شکوہ سامنے آجاتا ہے۔

جہاں تک عدلیہ کے اہم فیصلوں پر مخلصانہ اور من و عن عمل درآمد کا معاملہ ہے تو ہر حکومت صرف ان پر مکمل عمل درآمد کرتی ہے جن سے اس کا مفاد براہِ راست متاثر نہ ہو۔زیادہ تر فیصلے ٹال مٹول ، قانونی موشگافیوں اور پراسرار خاموشی کی دھول میں چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔رفتہ رفتہ عوام کی یادداشت سے یہ فیصلے محو ہوجاتے ہیں، عدلیہ نئے مقدمات کے انبار میں الجھ جاتی ہے اور گزشتہ فیصلے وقت کی فائلوں کے بوجھ میں دب کر دم توڑ دیتے ہیں۔

چاہے سیاسی معاملات میں انٹیلی جینس ایجنسیوں کے کردار کو محدود کرنے کی اصغر خان کی پیٹیشن ہو ، کہ این آر او کا فیصلہ ہو، کہ لاپتہ افراد کی تلاش کا معاملہ ، کہ پٹرولیم کمپنیوں اور اوگرا کی لوٹ مار کی تحقیقاتی رپورٹ ہو ، کہ چینی کے نرخ طے کرنے کی عدالتی ضد ہو، کہ نیشنل انشورنس کارپوریشن سکینڈل کی چھان بین کے لیے ایف آئی اے میں ظفر قریشی کی دوبارہ تعیناتی ہو ، یا کیبنٹ سیکرٹری کے افسر بکارِ خاص بنانے کے فیصلے کی واپسی ۔کوئی بھی اور کچھ بھی ٹس سے مس ہونے کو تیار نہیں۔

امریکہ میں سن دو ہزار میں عدلیہ نے فیصلہ کردیا کہ ایل گور ہار گیا ہے اور بش صدارتی انتخاب جیت گیا ہے۔اس فیصلے پر انتہائی مایوسی کے باوجود کسی مائی کے لال کی جرات نہیں ہوئی کہ عمل درآمد نا کرتا۔

بھارتی سپریم کورٹ نے حکم دیا کہ تاج محل کو آلودگی سے بچانے کے لیے اردگرد قائم دو سو کے لگ بھگ چمڑا ساز فیکٹریاں اس تاریخ تک ہٹا لی جائیں۔کسی نے نہیں سوچا کہ عدالت سے فیصلے پر نظرِ ثانی کرنے کی درخواست کی جائے۔ہا ہا کار کے باوجود فیکٹریاں مقررہ وقت میں دوسری جگہ منتقل ہوگئیں۔

دہلی ہائی کورٹ نے حکم دیا کہ دارلحکومت میں چلنے والی تمام بسیں ایک سال کے اندر اندر ڈیزل سے سی این جی پر منتقل کردی جائیں تاکہ اہلِ دلی تازہ ہوا میں سانس لے سکیں۔مقامی حکام نے ڈرتے ڈرتے درخواست کی کہ اگر عدلیہ اپنی ڈیڈ لائن میں زرا سا اضافہ کردے تو بہت نوازش ہوگی۔عدلیہ نے مشروط طور پر ایسا ہی کیا اور پندرہ ماہ میں دلی کا ٹریفک دھواں پچاس فیصد کم ہوگیا۔

لیکن پاکستان میں حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں کہ عدلیہ کو اب کوئی یہ بھی بتانے کے لیے تیار نہیں کہ حج اسکینڈل کی تحقیقات کرنے والے تبادلہ زدہ افسرحسین اصغر کو عدالت کے سامنے پیش ہونے سے دراصل کون روک رہا ہے۔

پاکستان غالباً واحد ملک ہے جہاں فیصلوں پر عمل نہ ہونے کے باوجود صدرِ مملکت سے لے کر صوبائی وزیر تک یہ کہنے کی مہربانی ضرور کرتے ہیں کہ ہم عدلیہ کا احترام کرتے ہیں۔

لیکن عدلیہ عملاً اس بوڑھے مکینک کی طرح ہوگئی ہے جسے محلے کے تمام لوگ احتراماً استاد جی استاد جی کہتے ہیں لیکن کام برابر والےعسکری آٹوز سے ہی کرواتے ہیں۔

وسعت اللہ خان- کراچی