سیاسی و معاشی مسائل کا حل عوام کی عدالت
(Prof. Dr Rais Ahmed Samdani, Karachi)
سیاسی و معاشی مسائل کا حل عوام کی عدالت ٭ ڈاکٹر رئیس احمد صمدنی پاکستان میں جب سے رجیم چینج کا عمل ہوا ہے ملک میں معاشی بدحالی، سیاسی افراتفریح، بے یقینی، سیاسی مخاصمت، جوڑ توڑ، لوٹا کریسی کا دور دورہ ہے۔ عمران خان کے مقابل ملک کی تقریبا ً تمام ہی سیاسی جماعتوں کا اتحاد حکمرانی کے مزے لے رہا ہے۔ اس کے باوجود اتحادیوں کی حکومت سکون میں نہیں ہے۔ مہنگائی اور دیگر ناکامیوں کا تمام تر ملبا جو عمران خان کے کھاتے میں تھا وہ اتحادیوں نے حکومت لے کر اپنے اوپر ڈال لیا ہے۔ اتحادیوں میں تمام اتحادی امن و شانتی سے ہیں نون لیگ تمام ترمخالفت سر پر اٹھائے ہوئے ہے۔ سیاست کا عجیب کھیلی بڑے اور چھوٹے میاں صاحب نے شروع کیا ہے۔ شہباز شریف کے لیے وزارت اعظمیٰ اتنی اہم تھی کہ انہوں نے اپنے سابقہ اچھے کاموں کو قربان کردیا۔ حکومت چلانا دور کی بات اسے گھسیٹنا مشکل ہورہا ہے اس کا واحد حل ہے کہ ملک کے اصل وارثوں جو کہ عوام ہیں سے رجوع کریں، وہ جو فیصلہ کریں اسے سب صدق دل سے قبول کریں۔ اس طرح عدالتوں کے فیصلوں پر کب تک گاڑی چلے گی۔عدالتوں کے اختیارات کم کرنے سے حکومت میں ٹہراؤ آئے گا، گورنر راج لگانے سے آپ حکومت کرسکیں گے۔ لوگوں کو جیل میں ڈال کر حکومت چلے گی۔ ان سب باتوں سے حکومت نہیں چل سکتی۔ کوئی ٹھوس قدم اٹھانا ہوگا۔ 26جولائی کی شب عدالت اعظمیٰ کے فیصلے نے ایک فریق کو خوش تو دوسرے کو افسردہ کردیا۔ یہ مقدمہ صوبہ پنجاب میں ہونے والے 20 صوبائی نشستوں پر ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتیجے میں عدالت عظمیٰ میں دائرکیاگیا تھا۔ یہ بیس نشستیں تحریک انصاف کے اراکین جو لوٹے بن چکے تھے سے خالی ہوئی تھیں۔ لوٹوں کوڈی سیٹ بھی عدالت نے ہی کیا تھا۔ بیس میں سے 15 نشستیں تحریک انصاف کے حصے میں آئیں، اس کی ایک وجہ نون لیگ کا تحریک انصاف کے لوٹوں کو نون لیگ کے امیدوار کی حیثیت سے ٹکٹ دینا تھا۔ یہ عمل ہر کسی کے لیے پسندیدہ نہیں تھا۔ نون لیگ کے اپنے کارکن بھی اس عمل پر خوش نہ تھے۔ نتیجہ پنجاب کے عوام نے لوٹوں کو مسترد کردیا۔ اب صوبے کے وزیر اعظم کے انتخاب کا مرحلہ آیا تو پھر سیاست سر چڑھ کر بولی، حکومتی اتحاد نے چودھری شجاعت حسین کو اپنے ساتھ ملا لیا اور ایک خط لکھوا کر ڈپٹی اسپیکر کو پہنچا دیا، اس کی بنیادی پر ڈپٹی اسپیکر نے ق لیگ کے 10اراکین کے ووٹوں کو ریجیکٹ کرتے ہوئے رولنگ دی کہ چودھری پرویز الہٰی کے دس ووٹ کینسل اور حمزہ شہباز وزیر اعلیٰ برقرار رکھنے کا اعلان کردیا۔ یہاں وہی عمل دہرایا گیا جو تحریک انصاف کے ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ دی تھی۔ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے بعد تحریک انصاف سپریم کورٹ چلی گئی۔ جس کی فوری سماعت ہوئی۔ حکومتی اتحاد کو اپنی کشتی ڈوبتی دکھائی دے رہی تھی، یعنی ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ آئین کے خلاف دکھائی دی تو مختلف بیانات سامنے آئے، یہاں تک کہ نون لیگ کے وکیلوں نے بائیک کاٹ کردیا۔ لیکن عدالت کو اس قسم کی باتوں سے کوئی فرق نہیں پڑتا اسے اپنا کام حتمی طور پر کرنا ہوتا ہے، چنانچہ رات نو بجے کے قریب فیصلہ سنا گیا جس میں چودھری پرویز الٰہی کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ اور انہیں رات ساڑے گیارہ بجے گورنر سے حلف لنے اور اگر گورنر حلف نہ لیں تو صدر سے حلف لینے کی ہدایت بھی کی۔ اور ایسا ہی ہوا، نو منتخب وزیر اعلیٰ نے رات 11ایوان صدر میں حلف لیا۔ یہ فیصلہ حکومتی اتحاد کے لیے عام طور پر اور نون لیگ کے لیے خاص طور پر اعصاب شکن ثابت ہونا ہی تھا اور ہوا۔ عدالتوں کو قانون کے مطابق کام کرنا ہی ہوتا ہے۔ کچھ ہی عرصہ قبل جب قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو غیر قانون قرار دیا گیا تھا جس کے نتیجے میں نون لیگ نے شادیانے بجائے تھے اور عمران خان کی حکومت برخاست ہوگئی تھی۔ اس بار پنجاب میں یہ کھیل کھیلا گیا اور مقدمہ کا فیصلہ تحریک انصاف کے حق میں آیا۔ پاکستان اُس وقت سے سیاسی، معاشی ابتری کا شکار ہے جب سے عمران خان کی حکومت کو عالمی طاقت نے ریجیم چینج کرکے، تحریک عدم اعتمام کے نتیجے میں حکومت ختم ہوئی اور تیرہ چودھا جماعتوں کے اتحاد نے حکومت قائم کی۔ اصل حکومت نون لیگ کی ہی رہی، دیگر جماعتیں تو شامل باجا ہیں۔ تمام تر خرابیوں کی ذمہ دار نون لیگ جب کہ اقتدار کے مزے ساری جماعتیں لوٹ رہی ہیں۔ نہیں معلوم اس قسم کی سیاست کی جانب نون لیگ کو کس نے دھکا دیا۔ حکومت لینے کا سب سے زیادہ نقصان نون لیگ کو ہوچکا ہے اور اور مزید ہورہا ہے۔ عمران خان کی بے شمار خامیوں پرخاموشی سے پردہ پڑ چکا جب کہ تمام تر برائیاں نون لیگ کے حصے میں۔ ایسے اقتدار کا کیا فائدہ، عمران خان دنیا کا وہ واحد حکمران ہے جس کی حکومت ختم ہوجانے کے بعد اس کی برائیاں اور خامیاں ہوا ہوگئیں اور وہ عوام میں اور زیادہ مقبول ہوگیا۔ کوئی شک نہیں پنجاب نون لیگ کا گڑ چلا آرہا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کو نون لیگ نے پنجاب سے واش آؤٹ کردیا، لیکن نون لیگ کے حکومت پر برجمان ہوجانے سے عمران خان کو پنجاب میں مقبولیت حاصل ہوئی۔ رہی سہی کثر لوٹوں کو خوش کرنے کے عمل نے پوری کردی۔ اب صورت حال کیا ہوگی کیا نون لیگ تحریک انصاف اور چودھری پرویز الٰہی کو آرام سے پنجاب میں حکومت کرنے دی گئی۔ چودھری پرویز الٰہی اب عمر کے اس حصہ میں ہیں کہ پنجاب جیسا بڑ اور گھمبیر صوبہ کنٹرول کرنا آسان عمل نہ ہوگا۔ اس طرح کی تبدیلیاں یا اکھاڑ پچھاڑ صوبے اور ملک کے مفاد میں کسی صورت نہیں۔ دونوں فریقین کو جس قدر جلد ممکن ہوسکے عوام کی عدالت میں چلے جانا چاہیے۔ عوام کی عدالت ہی دیر پا اور مستقل سیاسی امن فراہم کرسکتی ہے۔جب تک ملک میں سیاسی استحاکام نہیں ہوگا معاشی ابتری بھی ختم نہیں ہوگی۔ مہنگائی کا پہیا اپنے عروج پرہے، روز کے حساب سے نہیں بلکہ گھنٹو ں کے حصاب سے مہنگائی میں اضافہ ہورہا ہے۔ تمام سیاسی قوتوں کو سنجیدگی سے ملک و قوم کے مفاد میں مل بیٹھ کر درست فیصلے پر پہنچنا چاہیے اور حالات اور واقعات کا تقاضہ یہی ہے کہ سیاست داں عوام کی عدالت کارخ کریں، عوام جوبھی فیصلہ کریں انہیں قبول کیا جائے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ملک وقت کے ساتھ ساتھ مزید مشکلات میں چلا جائے گا۔ (27جولائی2022)
|