عالمی ذرائع ابلاغ میں وزیر اعظم مودی کی بدنامی ایک
بدیہی حقیقت ہے اور اس کو سدھارنے کی خاطر منصوبہ بند کوشش کے تحت جرمنی
میں جاکر وزیر اعظم مودی جمہوری اقدار کی وکالت کرتے ہیں ۔ 27 جون کومہمان
خصوصی کی حیثیت سے G-7ممالک کی میٹنگ کے موقع پر انہوں نے ’ریزیلیئنس ڈیمو
کریسیز سٹیٹمنٹ 2022 ‘ پر دستخط بھی کیے۔ اس بیان میں سول سوسائٹی کے اندر
تنوع اور آزادی کی حفاظت، آن لائن اور آف لائن خیالات سمیت اظہار رائے کی
آزادی کے تحفظ پر زور دے کر جمہوریت کو مضبوط کرنے کا عزم کیا گیا اور کہا
گیا کہ :’ ہم جمہوریت کا دفاع کریں گے اور استحصال کے علاوہ تشدد کے خلاف
مل کر لڑیں گے۔ عالمی سطح پر جمہوری اقدار کا تحفظ کریں گے۔ ہم عوامی
مباحثے، میڈیا کی آزادی اور آن لائن اور آف لائن معلومات کی شفافیت کے دفاع
کے لیے مل کر کام کریں گے'۔ یہ اعلامیہ جس دن جاری ہوا اسی روز ان الفاظ کو
کھوکھلا ثابت کرنے کے لیے آلٹ نیوز کے شریک بانی محمد زبیر کو گرفتار کرلیا
گیا ۔ اس طرح سارے کیے کرائے پر پانی پھِر گیا ۔
اس سے قبل مئی کے پہلے ہفتے میں وزیر اعظم مودی یورپ کے دورے پر گئے تھے۔
اس دوران بھی صحافیوں کے سوالات سے اعراض برتنے کی وجہ سے مودی جی کی قلعی
کھل گئی ۔ وزیر اعظم اپنے غیر ملکی دوروں پر وہاں مقیم ہندوستانی نژاد
لوگوں کے سامنے خوب چندرا چندرا کر تقریر کرتے ہیں۔ اس میں بے شمار جھوٹے
سچے دعوے بھی کیے جاتے ہیں ۔ ان کو ذرائع ابلاغ میں خوب اچھالا بھی جاتا ہے
مگر صحافیوں کے سامنے جاتے ہی ان کے ہاتھ پیر پھولنے لگتے ہیں ۔ اقتدار
سنبھالنے کے بعد سے وزیر اعظم کا یہی رویہ رہا ہے کہ وہ صحافیوں کے سوالات
لیے بغیر صرف اپنے ہم منصبوں کے ساتھ مشترکہ بیان جاری فرماکر کنی ّ کاٹ
لیتے ہیں۔ حالیہ جرمنی دورے کے موقع پر معروف نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے کے
چیف انٹرنیشنل ایڈیٹر رچرڈ واکر اس مسئلہ کو ایک ٹوئٹ کے ذریعے
اجاگرکردیا۔انہوں نے لکھا، 'مودی اور شلٹز برلن میں پریس سے خطاب کرنے والے
ہیں۔ وہ دونوں حکومتوں کے درمیان 14 معاہدوں کا اعلان کریں گے۔ ہندوستانی
فریق کی درخواست پروہ ایک بھی سوال نہیں لیں گے'۔
وزیر اعظم کی ہچکچاہٹ تو خیر ان کاایک شخصی پہلو ہےلیکن اس ٹویٹ میں واکر
نے پریس کی آزادی کے معاملے میں ہندوستان کے آٹھ مقام نیچے اترنے کا بھی
ذکر کردیا۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ'رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز کی تازہ ترین
رپورٹ میں، آزادی صحافت کی بابتہندوستان 142 ویں مقام سے 150 ویں نمبر پر آ
گیا ہے۔مودی چونکہ ہندوستان کے اندر کے انسانی حقوق کے ریکارڈ پر بات کرنے
سے کتراتے ہیں اس لیے ان کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے ۔
ملک کے اندر سرکار مخالف آوازوں کے تئیں عدم برداشت کا دائرہ دن بہ دن
وسیع ہوتا جارہا ہے۔ بھیما کورے گاوں کے احتجاج کی آڑ میں اشتراکی افکار
کے حاملین دانشوروں کو اربن نکسل کا نام دے کر نشانہ بنایا گیا ۔ اس کے بعد
دہلی فساد کے بہانے سی اے اے کی تحریک چلانے والے رہنماوں پر ہاتھ ڈالا گیا
۔ ا بھی حال میں تیستا سیتلواد ، سری کمار اور سنجیو بھٹ کو سپریم کورٹ کے
فیصلے کا بہانہ بناکر حراست میں لیا گیا ۔ یہی کیا کم تھا کہ محمد زبیر کو
گرفتار کرلیا گیا۔ سرکاری دہشت گردی کا یہ سلسلہ ختم ہونے کا نام نہیں لے
رہا ہے۔ تیستا کے بعد اب معروف سماجی جہد کار میدھا پاٹکر پر شکنجہ کسنے کی
تیاری ہے۔ مدھیہ پردیش پولیس نے ان کے ساتھ 12 لوگوں کے خلاف وادی نرمدا کے
متاثرین کی فلاح و بہبود کے نام پر قائم شدہ ٹرسٹ کو چندہ دینے کے لیےعوام
کو گمراہ کرنے کا الزام لگا کر مقدمہ درج کرلیا ہے۔ بڑوانی ضلع میں درج ایف
آئی آر کے اندر الزام لگایا گیا ہے کہ ان کے ذریعہ سے جمع کی گئی رقم سیاسی
اور ملک مخالف ایجنڈے کے لیے استعمال کی گئی ۔ یہاں ملک سے مراد مودی ہے
کیونکہ وہ اپنے آپ کو بھارت کے نام نہاد بھاگیہ ودھاتا (تقدیر کا مالک )
سمجھتے ہیں ۔ عوام کو گمراہ کرکے ہزارہا کروڈ کا مالک بن جانے والی جماعت
جب ایسے الزامات لگاتی ہے تو ہنسی آتی ہے۔
موجودہ حکومت صرف میدانِ کار میں سرگرمِ عمل جہد کاروں سے ہی نہیں ڈرتی
بلکہ جیل میں بند قیدیوں سے خوفزدہ ہے۔ اس فہرست میں انسانی حقوق کے معروف
کارکن جی این سائی بابا ایک نمایا ں نام ہے۔ وہ جسمانی طور پر تقریباﹰ 90
فیصد معذور ہیں اور نقل و حرکت کے لیے وہیل چیئر استعمال کرتے ہیں۔ سن 2017
میں مہاراشٹر کی ایک عدالت نے ماؤ نواز باغیوں سے تعلق رکھنے اور ’ملک کے
خلاف جنگ چھیڑنے‘ جیسی سرگرمیوں سے متعلق الزامات کے تحت انہیں عمر قید کی
سزا سنائی تھی۔ اس سے قبل وہ دہلی یونیورسٹی کے ایک کالج میں اسسٹنٹ
پروفیسر کے طور پر پڑھاتےتھے مگرپچھلے سال انہیں ملازمت سے برخاست کر دیا
گیا۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں ان کے ساتھ کیے جانے والے ناروا سلوک پر شدید
تنقید کرتی رہی ہیں لیکن حکومت کے کان پر جوں نہیں رینگتی۔ انہوں نے اپنی
نظموں اور خطوط پر مبنی کتاب کا نام ’میرے راستے سے اتنا ڈرتے کیوں ہو؟‘
رکھ کر مودی سرکار کی سب سے زیادہ دکھتی رگ کو چھیڑ دیا ۔ اس نام کا انتخاب
شاہد ہے کہ اپنی تمام تر معذوری اور مظلومیت کے باوجود وہ ڈرے نہیں ہیں
بلکہ ڈرا رہے ہیں۔
کتاب ’میرے راستے سے اتنا ڈرتے کیوں ہو؟‘ کی تقریب رونمائی کے موقع پر
کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے جنرل سیکرٹری ڈی راجا نے سائی بابا کی فوری
رہائی کا مطالبہ کرنے کے بعد نہایت جرأتمندانہ انداز میں کہا کہ موجودہ
حکومت اگر یہ سمجھتی ہے کہ وہ کمیونسٹوں کو ’دہشت گرد‘ قرار دے کر یا انہیں
سلاخوں کے پیچھے ڈال کر شکست دے سکتی ہے، تو اس کی بہت بڑی غلطی ہے۔ ڈی
راجا کے مطابق یہ حکومت چند لوگوں کو ’اربن ماؤ نواز‘، 'اربن نکسلائٹ‘،
'ملک دشمن‘ اور ’دہشت گرد‘ قرار دے کر یا انہیں جیلوں میں اذیتیں دے کر
اپنے مقاصد میں کامیا ب نہیں ہو سکتی۔ انہوں نے خبردار کیا کہ ایک کمیونسٹ
کو مارا تو جا سکتا ہے، لیکن نریندر مودی کسی کمیونسٹ کو شکست نہیں دے
سکتے۔ یہ بات نہ صرف اشتراکیوں پر بلکہ عدل و قسط کو قائم کرنے کی خاطر بلا
خوف و خطر میدان میں اترکرڈٹ جانے والے سارے جہد کاروں پر صادق آتی ہے ۔
سائی بابا جیسے لوگ آزمائش میں مبتلا ہونے کے باوجود کامیاب و کامران ہوتے
ہیں اور ان پر ظلم ڈھانے والوں کو شکست فاش سے دوچار ہونا پڑتا ہے۔
بکُر انعام یافتہ مشہور ناول نگار اروندھتی رائے نے مذکورہ کتاب کی رونمائی
کے موقع پر نہایت اہم باتوں کی جانب قوم کی توجہ مبذول کرائی۔ انہوں نے
اپنی تقریر کی شروعات ایک سوال سے کی اور پوچھا آج ہم یہاں کیا کر رہے ہیں؟
اس کے بعد ازخود جواب دیتے ہوئے کہا ’’ ہم ایک 90 فیصد مفلوج پروفیسر کی
کتاب کے اجراء میں جمع ہوئے ہیں، جو سات برسوں سے محصور ہے۔ اسی سے اندازہ
لگایا جاسکتا ہے کہ ہم کس طرح کے ملک میں رہ رہے ہیں اور یہ کتنی شرمناک
بات ہے‘‘۔ ارون دھتی رائے عرصہ ٔ دراز سے بی جے پی ٹرول آرمی کے نشانے پر
ہیں ۔ ان لوگوں نے موصوفہ کو طرح طرح سے ڈرانے دھمکانے کی کوشش کی لیکن وہ
ساری کوششیں رائیگاں رہیں۔ رائے نے عصرِ حاضر کےہندوستان کا موازنہ اس
ہوائی جہاز سے کیا ہے، جو پیچھے کی جانب محوِ پرواز ہو۔ ان کے مطابق ’’اس
ملک کے رہنما ہوائی جہاز کو الٹی سمت میں اڑا رہے ہیں، سب چيزيں گر رہی ہیں
اور ہم ایک حادثے کی طرف بڑھ رہے ہیں ‘‘۔وہ بولیں کہ جب انہوں نے ایک پائلٹ
دوست سے یہ پوچھا کہ کیا وہ جہاز کو پیچھے کی طرف اڑا سکتاہےتو وہ زور سے
ہنسا ۔ اس پر رائے رائے نے کہا لیکن یہاں (ملک میں تو ) بالکل وہی ہو رہا
ہے۔
ماضی میں جھانکتے ہوئے’دی گاڈ آف اسمال تھنگز‘ اور ’دی منسٹری آف اٹموسٹ
ہیپی نیس‘ جیسے نادرِ روزگار ناولوں کی مصنفہ کا کہنا تھا کہ سن 1960 کے
عشرے میں ہندوستان دولت اور اراضی کی تقسیم نو جیسی ’حقیقی انقلابی
تحریکوں‘ کی قیادت کر رہا تھا اور اب حال یہ ہے قومی رہنما محض ’پانچ کلو
چاول اور ایک کلو نمک‘ بانٹ کر ووٹ مانگتے ہیں نیزکامیاب بھی ہوجاتے ہیں۔
باسٹھ سالہ رائے کے مطابق ایک زمانے میں ہندوستان کا ذکر خیر ایک ’نفیس
قوانین‘ کی سرزمین کے طور پر ہوتا تھا لیکن حقیقت میں اس ملک کے اندر قانون
کا نفاذ ذات، طبقے، جنس اور نسل‘ کو پیش نظر رکھ کر مختلف انداز میں کیا
جاتا ہے۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے کہ اس کا انکار ممکن نہیں ہے۔ قانون کے
رکھوالوں کی جانب سے انصاف کی پامالی کا ایک نمونہ پریاگ راج کے محمد جاوید
پر این ایس اے یعنی قومی سلامتی کی دفاع نافذ کرنا ہے۔ اس طرح یوگی سرکار
نے دھاندلی کی ساری حدیں پار کردی ہیں ۔ محمد جاوید اگر قومی سلامتی کے لیے
خطرہ تھے اس کا اطلاق پہلے کیوں نہیں کیا گیا اور اب کیوں گیا؟ بات دراصل
یہ ہے کہ غیر قانونی طور پر ان کی اہلیہ کا مکان زمین دوز کرکے یوگی حکومت
بری طرح پھنس چکی ہے ۔ عام قانون کے تحت ان کو جیل میں رکھنا عدالت کے لیے
ناممکن ہے اس لیے ان پر ایک ایسی دفع لگا دی گئی جس کے آگے عدلیہ بے بس
ہے۔ سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس نے اس طرح کے سرکاری دباو کا سرِ عام
اعتراف کیا۔ یوگی ہوں یا مودی ،یہ لوگ پہلے غلط کام کرنے کے بعد اپنی
بدنامی کے ڈر سے ایسےظالمانہ حربے استعمال کرتے ہیں۔ افسوس کہ اس کی قیمت
بے قصور عوام کو چکانی پڑتی ہے۔ |