ظفر محمود وانی
مظفر آباد کے نزدیک واقع روحانی و سیاحتی مقام "پیر چناسی" کے بارے میں آج
کل سوشل میڈیا پر بہت کچھ لکھا جا رہا ہے اورچند عوامی حلقوں کی طرف سے اس
مقام پر کچھ سرکاری اداروں کی طرف سے تجاوز اور اپنی حدود سے باہر آ کر
عوام پر روک ٹوک کے اقدامات پر مختلف عوامی حلقوں کی طرف سے احتجاج بھی کیا
جا رہا ہے۔مختلف اداروں کی طرف سے ایسے غیر ضروری اور نامناسب اقدامات ، جن
کی وجہ سے یہاں عوامی سرگرمیوں اور سہولیات کے لئے دستیاب جگہ، اور مواقع
میں کمی آتی جا رہی ہے۔ ساتھ ہی عوام پر غیر ضروری روک ٹوک کا عمل بھی
عوامی ردعمل پیدا کرنے کا باعث بن رہا ہے۔ ایسے غیر ضروری اقدامات یہاں بڑی
تعداد میں آنے والے مقامی اور غیر مقامی زائرین اور سیاحوں کی مشکلات میں
اضافہ کا باعث بن رہے ہیں ۔
ان اقدامات کے خلاف عوامی حلقوں اور سول سوسائٹی کی طرف سے شدید رد عمل بھی
دیکھنے میں آ رہا ہے اور ساتھ ہی اسی وجہ سے کچھ تبصرہ نگار مسئلے کی شدت
کو ایک سیاسی مسئلہ کے طور پر اور دیگر ایسی ہی یا اس سے ملتی جلتی امثال
کے ساتھ ملا کر دکھانے اور ذکر کرنے کی کوشش بھی کر رہے ہیں جس کے منفی
اثرات عوام کی سوچ پر مرتب ہونے کاخدشہ بھی دکھائی دے رہا ہے ۔ تو ضرورت اس
امر کی ہے کہ اس مسئلے کا عملی اور حقیقی تناظر میں ایک جائزہ عوام اور
حکام کے سامنے پیش کیا جائے تاکہ عوام کو حقیقت حال سے آگاہی ہو سکے اور اس
مسئلے میں شامل فریقین اپنے اپنے روئیوں کو احسن طریقے سے تبدیل یا بہتر
بنا کر اس اہم مسئلے کو وسیع تر عوامی مفاد میں حل کر سکیں ۔
سوشل میڈیا پر یہاں ایک کیمپ کے باؤنڈری فینس یعنی حفاظتی باڑھ پرنصب شدہ
ایک بورڈ کی تصویر لگائی گئی ہے ,۔صورت حال کچھ یوں ہے کہ یہ بورڈ تو پہلے
سے ہی یہاں لگا ہوا ہے ، اس سے کچھ آگے زیارت کی طرف پولیس کا وائرلیس
سٹیشن بھی ہے ۔عام طور پر دیکھا جاتا تھا کہ زائرین اپنی گاڑیاں زیارت کے
نزدیک تک لا کر سڑک کے دونوں طرف پارک کر دیتے تھے، جس کی وجہ سے بعض اوقات
یہاں سے گاڑی کو موڑنا تک مشکل ہو جاتا اور تعطیل والے دن یہاں ان گاڑیوں
اور زائرین کی کثیر تعداد کی وجہ سے ہجوم کی کیفیت بھی پیدا ہو جاتی۔یہ
متذکرہ کیمپ اب قائم نہیں کیا گیابلکہ چند سال قبل یہاں قائم کیا گیا تھا
جوکہ اس خاص عوامی سیاحتی مقام پر نہیں ہونا چاہیے تھا ,۔بلکہ پیر چناسی کے
سامنے والی غیر آباد پہاڑی پر ہونا چاہیے تھا جہاں گاڑی کی اپروچ بھی ہے ۔
جب یہاں یہ کیمپ اور ساتھ پولیس کا وائرلیس سٹیشن قام کیا گیا تھا،اس وقت
کسی نے اس بارے میں آواز نہیں اٹھائی تھی۔ جب کہ مناسب وقت اعتراض کرنے کا
تب ہی تھا ۔ اب بھی ادارے کے اہلکاروں کو اپنی حدود جن کو باقاعدہ باڑھ لگا
کر یہاں موجود سڑک سے الگ کیا گیا ہے اور جس کیمپ کی حد پر متذکرہ بورڈ لگا
نظر آ رہا ہے،ان باقاعدہ مسلح افواج کے اہلکاروں کا اپنے کیمپ کی فینس یا
باڑھ کی حدود سے باہر آ کر سول زائرین ,اور سیاحوں اور ان کی گاڑیوں کو
روکنا اور کنٹرول کرنے کی کوشش کرنا مناسب نہیں۔اس طرح غیر ضروری طور پر
عوام کے اندر ان اہلکاروں اور ان کے محکمے کے خلاف رد عمل اور منافرت پیدا
ہوتی ہے ۔
یہاں اگر ٹریفک , سیاحوں اور زائرین کو ترتیب میں لانے کی ضرورت ہے، تو یہ
کام ٹریفک پولیس کے ذریعے کروایا جانا چاہیے اور سب سے اہم یہ کہ یہاں ان
تنصیبات کو روز بروز پھیلانے اور ان کی حدود کو وسیع سے وسیع تر کرتے رہنے
کے بجائے صرف انتہائی اہم مقصد اور ضرورت کے مطابق ہی محدود، محفوظ تنصیب
ہونی چاہیے ۔ اصل تنصیب کے علاوہ باقی کیمپ کو یہیں وسعت دیتے رہنے کے
بجائے مشرقی سمت میں سامنے والی غیر آباد پہاڑی پر شفٹ کیاجانا چاہیے تاکہ
بنیادی دفاعی مقصد بھی پورا ہوتا رہے، اور ساتھ ہی ساتھ کثیر تعدار میں
یہاں آنے والے زائرین اور سیاحوں کو بھی ذرا وسعت اور بہتر سہولت میسر آ
سکے ۔
حکومت اور سول متعلقہ اداروں کو بھی اس مقام پر سہولیات میں اضافہ کرنا
چاہیے ،مناسب پارکنگ بنانی چاہیے اوریہاں قام چھوٹی چھوٹی دکانوں اورہوٹلوں
کوخود روطریقے سے بے ترتیبی سے پھیلتے اور بڑھتے دینے کے بجاے مناسب ،بہتر
اور مفید منصوبہ بندی کے ذریعے کسی ترتیب میں لانا چاہیے ۔ اب جب کہ مظفر
آباد سے پیر چناسی تک بہترین سڑک تعمیر ہوچکی ہے، تو اس سہولت کی وجہ سے
اور اس مقام کی روحانی و سیاحتی اہمیت کی وجہ سے مقامی و غیر مقامی سیاح و
زائرین کی بڑی تعداد اس مقام پر آتی ہے اور اس بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر
اس مقام پر سہولیات نہ ہونے کے برابر ہیں ۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے کہ
حکومتی سطح پر متعلقہ اداروں کی مدد سے اس مقام کی اور یہاں موجود عوامی
سہولیات کی توسیع اور بہتری کے فوری اور موثر اقدامات کیے جائیں اور حکومتی
سطح پر ہی یہاں موجود اداروں کے اعلی حکام سے بات کر کے اس معاملے کو عوام
کے مفاد کے مطابق فوری طور پر حل کیا جانا چاہیے ۔
|