دہلی سرکارکے وزیر صحت ستیندر جین کی 30 مئی (2022)
کو گرفتار ی عمل میں آئی۔ اس موقع پر نائب وزیر اعلی منیش سسودیا نے ٹویٹ
کرکے الزام لگایا کہ جین کے خلاف آٹھ سال سے فرضی مقدمہ چل رہا ہے۔ اب تک
کئی بار انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی) ستیندر کو بلا چکا ہے۔ اس درمیان ای
ڈی نے کئی سالوں تک فون کرنا بند کر دیا کیونکہ انہیں کچھ نہیں ملا۔ اب یہ
معاملہ دوبارہ شروع ہوا کیونکہ ستیندر جین ہماچل کے الیکشن انچارج
ہیں۔انہوں نے کہا ہماچل میں بی جے پی بری طرح ہار رہی ہے۔ اسی لیے ستیندر
جین کوگرفتار کرلیا گیا تاکہ وہ ہماچل نہ جا سکیں۔ انہیں چند روز میں رہا
کر دیا جائے گا کیونکہ کیس مکمل طور پر جعلی ہے۔منیش سسودیہ کے چند دن
83روز بعد بھی پورے نہیں ہوئے لیکن اس سے قبل ان کی اپنی گرفتاری کا ماحول
بن گیا۔ یہ اتنا سنگین معاملہ ہے کہ وزیر اعلیٰ کو اپنے نائب کی حمایت میں
پریس کرکے احتجاج کرنے کی نوبت آگئی ۔ اروند کیجریوال نے خبر رساں ایجنسی
اے این آئی پر کہا کہ :’’ ہم جیل جانے سے نہیں ڈرتے۔ یہ لوگ ساورکر کی
اولاد ہیں جنہوں نے اپنی جان بچانے کے لیے انگریزوں سے معافی مانگی تھی۔ ہم
بھگت سنگھ کے بچے ہیں جو انگریزوں کے آگے نہیں جھکے بلکہ ان سے لڑتے ہوئے
تختۂ دار چوما تھا۔
منیش سسودیہ کو تادمِ تحریر گرفتار تو نہیں کیا گیا مگرجب دہلی کے ایل جی
نے ایکسائز پالیسی کے حوالے سے سی بی آئی انکوائری کا فرمان جاری کردیا تو
دہلی کے اروند کجریوال سمجھ گئے کہ عنقریب سسودیہ کو بھی جیل میں جاناہوگا
۔ اس لیے انہوں نے پیشگی پریس کانفرنس کرکے دباو بنانے کی کوشش کی تاکہ اس
کا خاطر خواہ سیاسی فائدہ اٹھایا جاسکے۔کیجریوال نے کہا کہ وہ اس بات کا
اعلان کئی ماہ پہلے کرچکے تھے ۔ یہ دعویٰ درست ہے۔ ۲؍ جون کو ایک پریس
کانفرنس میں انہوں نے اس خدشے کا اظہار کیا تھا۔ کیجریوال کے مطابق جب بی
جے پی کے ذرائع سے ان کو اس کی اطلاع ملی تو انہوں نے پوچھا کہ منیش سسودیا
کو کس الزام میں گرفتار کیا جائے گا؟ اس کا جواب ملا ابھی تک یہ طے نہیں ۔
وجوہات کی تلاش کی جاری ہے مگر بہت جلد ان پر ہاتھ ڈالا جانا طے ہے ۔ اروند
کیجریوال نے یہ انکشاف بھی کیا کہ اب ہمارے ملک میں ایک نیا طریقہ رائج
ہوچکا ہے ۔ اس کے تحت پہلے یہ طے کیا جاتا ہے کہ کس کو گرفتار کرنا ہے ۔ اس
کے بعد اس فرد خاص کے خلاف جھوٹے الزامات گھڑے جاتے ہیں اور بالآخر
گرفتاری ہوجاتی ہے ۔
وزیر اعلیٰ اروندکیجریوال کے مذکورہ دعویٰ ویسے تو درست ہے لیکن اسے نیا
کہنا غلط ہے۔ یہ پرانا طریقۂ کار ہے ۔ خود ان کی ریاست دہلی میں فرقہ
وارانہ فساد کی تحقیقی رپورٹ دہلی سرکار کے اقلیتی کمیشن نے شائع کرکے
فسادیوں کی صاف نشاندہی بھی کردی ۔ اس کے باوجود فساد کی سازش رچنے کے بے
بنیاد الزام میں سی اے اے اور این آر سی کے خلاف تحریک چلانے والے بے قصور
لوگوں کو مرکزی حکومت کی پولیس نے اسی طرح گرفتار کرلیا جیسے اب جین کو
حراست میں لیا گیا ہے۔ فی الحال شور شرابہ کرنے والے اروند کیجریوال سمیت
ان کے سارے ساتھی اپنے ہندو رائے دہندگان کی ناراضی سے بچنے کے لیے خاموش
تماشائی بنے رہے ۔ تبلیغی جماعت کے کارکنان پر دہلی کے اندر کورونا جہاد کا
جھوٹا الزام لگایا گیا اور ستیندر جین اپنی پریس کانفرنس میں اعدادو شمار
پیش کرکے مرکزی حکومت کا بلاواسطہ تعاون کرتے رہے ۔
یہ تو خیر پرانی باتیں ہیں لیکن ابھی حال میں دہلی کے مدن پور کھادر علاقے
میں جب انسداد تجاوزات آپریشن کے دوران لوگوں نے پولیس پر پتھراؤ کیا تو
کشیدگی پھیل گئی ۔ اس دوران عام آدمی پارٹی کے رکن اسمبلی امانت اللہ خاں،
عوام کی مدد کے لیے موقع واردات پر پہنچ گئے۔ اس وقت پولیس نے انہیں حراست
میں لے لیا بس پھر کیا تھا لوگوں کی مخالفت اور پتھراؤ میں اضافہ ہوگیا
اور صورتحال بے قابو ہوگئی۔ پولیس نے بھیڑ کو منتشر کرنے کے لیے طاقت کا
استعمال کیا۔ اس موقع پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے امانت اللہ خاں نے میونسپل
کارپوریشن پر غریبوں کے مکانات گرانے کا الزام لگایا۔ انہوں نے کہا کہ اگر
ان کی گرفتاری سے لوگوں کے گھر بچ سکتے ہیں تو وہ جیل جانے کو تیار ہیں۔
انہوں نے تجاوزات ہٹا نے میں اپنا تعاون پیش کیا لیکن ساتھ ہی یہ الزام بھی
لگایا کہ جن غریبوں کے گھر گرا ئے جا ر ہے ہیں ان میں سے ایک بھی تجاوزات
نہیں ہیں۔ آگے چل کر پولیس نے پورے علاقے کو گھیرنے کے بعد کچھ پتھر اؤ
کرنے والوں کو حراست میں لینے کا دعویٰ کیا ۔
یہ معاملہ تو فرقہ وارانہ بھی نہیں تھا کہ ہندو رائے دہندگان کی ناراضی کا
خطرہ ہوتا اس کے باوجود عام آدمی پارٹی کے کسی بڑے رہنما کی جانب سے اس کی
مذمت نظر نہیں آئی۔ دہلی پولیس نے اے اے پی کے ایم ایل اے امانت اللہ خاں
کو ہسٹری شیٹر اور برے کردار کا حامل قرار دیا اور عدالت کو بتایا کہ ان کے
خلاف 18؍ ایف آئی آر درج ہیں۔ ان سارے بے بنیاد الزامات کے بعد انہیں
عدالتی حراست میں بھیجا گیا لیکن ایک دن کے بعد انہیں ساکیت کورٹ سے ضمانت
مل گئی ۔یہ سب ہوتا رہا مگر جھاڑو والی ابن الوقت جماعت اس وقت سوچ رہی تھی
کہ مودی کی رام بھگت مرکزی سرکارکیجریوال کی ہنومان بھگت صوبائی سرکار پر
ہاتھ نہیں ڈالے گی لیکن اب پتہ چلا کہ یہ کل یگ ہے۔ اس میں اپنا کام نکل
جانے پر کسی کو بھی جیل بھیجا جاسکتا ہے۔ عام آدمی پارٹی اس وقت تک بی جے
پی کی منظورِ نظر تھی جب تک کہ کانگریس کی جڑ کاٹ رہی تھی۔ اب چونکہ وہ کمل
کے راستے کا روڑا بن گئی ہے تو اس کو ہٹانے کا کام شروع ہوگیا ہے۔
عام آدمی پارٹی اگر اپنے سیاسی مفادات سے اوپر اٹھ کر مظلوموں کے ساتھ
کھڑی ہوجاتی تو آج اس کے ساتھ مسلمان سیسا پلائی دیوار کی طرح کھڑے ہوتے
تو اوریہ نوبت نہیں آتی۔ اس خود غرض جماعت نےتو اپنےمیونسپل کاونسلر طاہر
حسین کو بھی پارٹی سے نکال کر دامن جھٹک لیا ۔ طاہر حسین کےہندو پڑوسی
گیانیندر کوچر نے تو میڈیا سےکہا’’جہاں تک میں جانتا ہوں، طاہر حسین فسادات
میں ملوث نہیں ہیں۔ وہ امن کی کوششوں میں شامل تھے۔‘‘ کوچر نے گواہی دی کہ
’’24 فروری کو، دن ہنگامےوالے دن ، میں نے طاہر حسین کو ہندو مسلم مذہبی
رہنماؤں اور اسسٹنٹ پولیس کمشنر کے ساتھ امن کی گزارش کرتے ہوئے دیکھا۔
پولیس عہدیداروں کی موجودگی میں انہوں نے ہندو اور مسلم برادری سے تعلق
رکھنے والے مذہبی رہنماؤں سے ملاقاتیں بھی کیں لیکن عام آدمی پارٹی ان کی
حمایت میں آگے نہیں آئی ۔ جس ہندو متوسط طبقہ کی خوشنودی کے لیے عام
آدمی پارٹی نے ظلم و جبر کی مخالفت سے گریز کیا تھا آج وہ اس کے ساتھ
نہیں ہے۔ اروند کیجریوال کی حالتِ زار پر اب نواز دیوبندی کے یہ ا شعار
صادق آتے ہیں؎
جلتے گھر کو دیکھنے والو پھونس کا چھپرّ آپ کا ہے
آگ کے پیچھے تیز ہوا ہے آگے مقدر آپ کا ہے
اس کے قتل پے میں بھی چپ تھا میرا نمبر اب آیا
میرے قتل پے آپ بھی چپ ہیں اگلا نمبر آپ کا ہے
اروند کیجریوال نے ایل جی اور مرکزی حکومت کو نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ ان
کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑنے کی وجہ عام آدمی پارٹی مکمل ایماندارہونا ہے۔
بی جے پی اس کو بدنام کر کے یہ پیغام دینا چاہتی ہے کہ ہر کوئی اس کی مانند
بدعنوان ہے ۔ یہ ایک مبالغہ آمیز دعویٰ ہے لیکن جب مرکزی حکومت اور اس کے
ادارے زعفرانی بدعنوانی سے آنکھیں موند کر صرف مخالفین کے پیچھے پڑجائیں
تو اس انتقامی تفریق و امتیاز کی مخالفت ضروری ہوجاتی ہے۔ کیجریوال یہ سوال
تو پوچھ ہی سکتے ہیں کہ مرکزی حکومت کمل کے اونٹ کو نگل کر جھاڑو کی مکھی
کیوں چھانتی ہے؟ کیجریوال کے مطابق مرکزی حکومت پنجاب میں جیت کے بعد عام
آدمی پارٹی کی پورے ملک میں توسیع کو روکنا چاہتی ہے۔ یہ دعویٰ درست نہیں
ہے ۔ پنجاب کے ساتھ اترپردیش میں انتخاب ہوا وہاں سنجے سنگھ کی انتھک کوشش
کے باوجود عآپ کو ایم آئی ایم سے بھی کم ووٹ ملے ۔ اس کے علاوہ گوا سے
بڑی امیدیں وابستہ کی گئی تھیں مگروہاں بھی آپ کاکھاتہ تک نہیں کھل سکا ۔
گجرات میں عام آدمی پارٹی کے داخلہ سے بی جے پی کا بھلارہا ہے۔ اس لیے ہر
کسی کو حیرت ہے کہ آخر بی جے پی کو عآپ جیسی معمولی پارٹی سے اتنی
پریشانی کیوں ہے؟ دراصل بی جے پی کا معاملہ یہ ہے کہ ان تو وہ اپنے سائے سے
بھی ڈرنے لگی ہے اور جب اروند کیجریوال گجرات میں زہریلی شراب پی کر مرنے
والوں کے اہل خانہ سے ہمدردی جتاتے ہیں اور گجرات کی شراب بندی پر تیکھی
تنقید کرتے ہیں تو بی جے پی کے پسینے چھوٹنے لگتے ہیں کیونکہ ایک زمانے میں
دہلی بھی بی جے پی کا گڑھ سمجھا جاتا تھا ۔ وہاں سے لال کرشن اڈوانی اور
سشما سوراج جیسے لوگ انتخاب لڑا کرتے تھے۔ مدن لال کھرانا بہت مشہور وزیر
اعلیٰ تھے لیکن اب عام آدمی پارٹی نے جھاڑو سے اس کا سپڑا صاف کردیا ہے۔
بی جے پی کو ڈر ہے کہ کہیں گجرات میں جھاڑو چل جائے تو مودی اور شاہ دنیا
کو منہ دکھانے لائق نہیں رہیں گے۔
|