40 ارب کا ٹیکس

غریب سے عوام بجلی کی بلز کی مد میں اربوں روپے وصول کیے جا چکے ہیں

غریب عوام سے 40ارب روپے کا ٹیکس
کب کیسے اور کیوں لیا جائے گا ؟؟؟؟؟؟؟
جولائی 2022 کے بلوں میں حکومت غریب عوام سے اربوں روپے ٹیکس وصول کر چکی ہے 3000 روپے معمولی قسم کے بجلی صارف سے فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں وصولی ہو چکی ہے
جبکہ فی میٹر کے حساب سے جس کا کاروبار ہے یا نہیں جس کا ایک یونٹ بھی خرچ ہوا ہے یا جس کے صرف دس یونٹ ہی خرچ ہوئے اس سے بھی 6000روپے کے حساب سے سیلز ٹیکس کا پروگرام لاگو ہونے والا تھا کہ تاجران کی چیخ وپکار نے حکومت کو عوام سے 40 ارب روپے کی نقدی سے محروم کر دیا کیونکہ عوام جولائی کے ماہ میں بل ادا اس لئے کر چکی ہے کہ پارلیمنٹ میں عوام کے نمائندے ہوتے ہیں جو کسی بھی ملک کے عوام کی ترجمانی کرتے ہیں مگر کسی بھی جماعت کے منتخب رکن نے غربت کی دلدل میں پھنسی ہوئی عوام کی نہ آواز بلند کی اور نہ ہی عوام کی چیخیں کسی کے کانوں تک نہیں پہنچیں اور پہلے اس طرح تمام عوامی نمائندے ہونے کا اخلاقی حق کھو چکے ہیں کسی بھی طرح سے تمام منتخب نمائندے عوام کے حقوق کے محافظ ثابت نہیں ہو پا رہے اب اس بات کو ثابت کرنے کے لئے کسی ثبوت کی ضرورت نہیں حکمران اپنی کارکردگی کا خور ملاحظہ فرمائیں

مبینہ طور پر 20ارب سے زائد کا فیول ایڈجسٹمنٹ عوام سے لیا جا چکا ہے جیسے جیسے حکومت میں دانشوروں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے تیسے تیسے ملک جنگل کے دور میں پھلتا پھولتا نظر آتا ہے ہے۔ کسی بھی ذی شعور انسان کو اس کی فکر کیا ہونی ہے
ملال تک نہیں !!!!!!
تاجران کے احتجاج سے فیصلہ واپس لینے سے حکومت کا 40ارب روپے کا نقصان ہوا ہے اس سارے نقصان کو پورا کرنے کے لئے عوام ہی سے پیسے وصول کئے جائیں گے کیونکہ ملکی ذرائع پیدا وار کو تباہ کرنے بعد چند ایک ادارے جو عوام کا بنیادی حق ہے اس پر اس قدر ٹیکسز عائد کیے گئے ہیں کہ فیصل آباد جیسے خود کشی کے واقعات پھر سے جنم لینے لگے ہیں غربت کے ہاتھوں تنگ خود کشی سے وہ چند افراد کی موت نہیں تھی بلکہ پوری انسانیت کی موت تھی انسانیت کی موت کے زمہ دار موجودہ حکمران ہیں تازہ تازہ بجٹ کے فوری بعد ایک منی بجٹ کا پروگرام اس بات کا غماض ہے کہ بجٹ میں اتنے ٹیکس لگائے جائیں گے کہ غریب آدمی کے لئے اس ملک میں میں سانس لینا اور کھانا پینا بھی محال ہوگا

پچھلی کئی دہائیوں سے عوام غریبی کے عذاب سے دو چار ہیں دنیا تحقیقات وایجادات میں ایک دوسرے پر سبقت لیتے ہی جا رہے ہیں اور دنیا کے خطے میں ہمارا واحد ملک ہے جہاں سونے سے پہلے بھی روٹی کی فکر اور سونے کے بعد بھی روٹی کی فکر لاحق ہوتی ہے یہ فکر ایک موذی مرض کی طرح پھیل رہی ہے یہ ایک ایسی بیماری ہے جس کا فوری طور علاج نہ کیا گیا تو انجام سے آنکھیں مت چرائیں ۔
حکمرانوں کے سقراط مشوروں کی بوریاں لیکر آتے ہیں اور عوام کو سمجھاتے ہیں کہ اگر اس ملک میں۔ جینا ہے تو آدھی روٹی ترک کر دو اس ملک میں جینا ہے تو چائے چھوڑ دیں دوسری جانب گیس کا بحران اس قدر شدید ہے کہ عوام پہروں بھوک کاٹتے ہیں اور دو دو دن بعد روٹی میسر ہوتی تو ہو گی مگر وہ بھی سوکھی ہر بجٹ سے پہلے ایک لہر جنم لیتی ہے کہ شاید اس بجٹ میں عوام کو ریلیف فراہم کیا جائے گا مگر ٹیکس کا ایسا انجیکشن عوام کو لگایا جاتا ہے کہ عوام سالوں بیہوشی میں رواں دواں ہو جاتے ہیں
اگر حمزہ شہباز وزیر اعلیٰ پنجاب ہوتے تو وہ ہر غریب کو سولر دینے والے تھے جو بجٹ میں کہا گیا۔۔شاید!!!!!

الیکشن سے پہلے ان کا اعلان تھا کہ سو یونٹ کے استعمال پر بجلی فری دی جائے گی الیکشن کمیشن کے اعتراض پر کہا گیا کہ یہ بات بجٹ میں کہی گئی تھی لہذا عوام کو ریلیف دینے کی بجائے موجودہ حکومت نے منی بجٹ کی تیاری کرنا شروع کر دی ہے اور اس بجٹ میں ریلیف کا (ر) جہاں بھی ہو گا اس کو ایڈٹ کر کے وہاں پر (ٹ) ٹیکس ریلپیس کر دیا جائے گا ۔بجٹ کے فوری اہداف میں عوام کو ریلیف کی بجائے ٹیکس کے کلچر میں دفن کر دیا جائے

تہذیب یافتہ قومیں عوام کے بنیادی حقوق کا خیال رکھتی ہیں ہمارے ہاں تہذیب کی سانس دشواریوں کا شکار ہے اگر اسی طرح ظلم ہوتا رہا لوگ خاموش رہے تو تاریخ کی دیواروں پر لکھے ہوئے نوحے ضرور پڑھ لیں ۔۔۔۔۔۔

سیف علی عدیل
About the Author: سیف علی عدیل Read More Articles by سیف علی عدیل: 19 Articles with 26542 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.