سیاست اور محبت

سیاست کے اپنے رنگ ہیں جو رہنماؤں سے اب عام لوگوں پر چڑھتے نظر آتے ہیں۔پاکستان میں یہ خیال ہی روح فرسا ہے کہ سیاست کبھی ریاکاری سے پاک ہوسکے گی،کیونکہ سیاست میں حقائق کبھی طشت ازبام نہیں کئے جاتے،کچھ دہائیاں پہلے حالات مختلف تھے کہیں کوئی نیلسن منڈیلا نظر آجاتے تھے ان سے پہلے ذوالفقار علی بھٹو اور ان سے پہلے محمد علی جناح کے ادوار سیاست میں سچائی کا برملا اظہاربنے مگر جس طرح وقت گزرتا گیا،بنیادی انسانی اقدار کے انحطاط پذیر ہونے کے ساتھ ساتھ سیاست کے معاملات بھی گراوٹ کا شکار ہوتے چلے گئے۔اب تو سیاست کا چلن ہی کچھ ایک طرز پر گامزن ہے،زیادہ تر سیاستدان اپنے مفاد کو ملکی،عوامی یا قومی مفاد قرار دیکر مناصب کے حصول کی تگ ودو کے دائرے میں گھومتے رہتے ہیں۔ان سے اپنائیت کی توقع رکھنا فضول ہے کیونکہ ان کے دل میں کچھ اور ذہن میں کچھ اور اور زبان پر کچھ اور ہوتا ہے،بقول شاعر
دل میں کچھ ذہن میں کچھ اور زباں پر کچھ تھا
سچ کو کیا کیا نہ چھپالینے کے حیلے دیکھے۔

اہل سیاست کے زیادہ تر لوگ اہل دل نہیں ہوتے انکے بیانیوں پر یقین کرلینا سادہ لوح عوام کی کمزوری ہے،وطن اور قوم کے سچے ہمدرد بن کر دکھانے والے زیادہ تر عوام کی محبتیں سمیٹ کر اپنے عزائم کی تکمیل کرلیتے ہیں،حالانکہ حقیقت میں یہ صرف اپنے ''فائدے ''سے عشق کرتے ہیں،انکے دعوؤں کی سچائی کا بھید کھل جانے پر بھی عوام کو انکی بتائی جانے والی تقریباً ایک جیسی مجبوریاں ان کیخلاف بغاوت پر آمادہ کرنے سے روک لیتی ہیں۔سیاست میں ایسے کردار اب بکثرت پائے جاتے ہیں جن کے بارے میں شاعر برجستہ کہتے ہیں
ان سے امید نہ رکھ، ہیں یہ سیاست والے
یہ کسی سے بھی محبت نہیں کرنے والے

اب یہاں پر سیاسی کارکنوں کا احوال بھی سیاست میں عشق کی چوٹ کھانے والے عام لوگوں سے کچھ مختلف نہیں بلکہ دیکھا جائے تو حقیقی وفادار سیاسی کارکن سیاست کی اڑتی دھول کی گرد بن جاتے ہیں،سچے سیاسی کارکنوں کی جدوجہد سے ہی سیاستدان اقتدار کے ایوانوں کی زینت بنتے ہیں مگر سیاسی کارکن کے سامنے اقتدار کے بعد تبدیلی کا جو خواب دکھایا جاتا ہے وہ ہر بار چکناچور ہوجاتا ہے،سیاست کے اس کھیل میں سیاسی کارکنوں کے لئے سب سے اذیت ناک مرحلہ انکے رہنماؤں کی جانب سے کامیابی ملنے پر رابطے ختم کردینا ہوتا ہے،سیاست کا یہ حالیہ چلن تو عشق کرنے والوں پر بھی اپنا رنگ چڑھا رہا ہے،بقول شاعر
عشق میں بھی سیاستیں نکلیں
قربتوں میں بھی فاصلہ نکلا

یہ اس قدر دور ہوجاتے ہیں کہ انکی قریب رہتے ہوئے بھی تلاش رہتی ہے،اقتدار کی راہداریوں میں کہیں کامیاب سیاسی رہنما سے انکے سیاسی کارکنوں کے ملنے کی سبیل بنتی بھی ہے تو وہ فقط فوٹو سیشن اور میڈیا کے سامنے میل ملاقات کے چرچے تک محدود ہوتی ہے،پروٹوکول کے تقاضے سیاسی کارکنوں کا اقتدار میں لانے کے مقاصد پر مبنی حقیقی بیانیہ دبادیتے ہیں۔

اب تو سیاست سے ریاست پر قبضہ کرلینے والے سیاستدانوں کے چلن کو عوامی سطح پر بھی شرف قبولیت مل رہا ہے،شعبدہ باز سیاستدانوں کی رنگ بازی کا رنگ عام گھریلو معاملات پر چڑھنے کی روایت بھی پنپ رہی ہے کہ
ملک تو ملک گھروں پر بھی ہے قبضہ اس کا
اب تو گھر بھی نہیں چلتے ہیں سیاست کے بغیر

سیاست کا حقیقی عمل تو سیاستدانوں کو عوام کی خدمت سے انکے دل جیتنے کا ہونا چاہئے تھا مگر اب عوام کو دلفریب نعروں اور پرکشش وعدوں سے روایتی دو نمبر عاشق کی طرح پھنسایا جاتا ہے،محبت کے دعوے کئے جاتے ہیں اور پھر اقتدار ملنے کے بعد بڑی ڈھٹائی سے کہا جاتا ہے ''رات گئی بات گئی ''سیاست میں محبت کے اس سلسلے کو اب روکنا بہت ضروری ہے کیونکہ پاکستان اس وقت جن گھمبیر مالیاتی مسائل سیدوچار ہے،اب عوام کو وعدوں اور امیدوں سے بہلانے کا وقت گزر چکا ہے،اس وقت وہی سچا سیاستدان بنے گا جو عوام سے سچی محبت کرے گا،عوام ہی حقیقی خیرخواہی چاہنے والوں کو کامیابی نصیب ہوگی,قوم کے دکھ،درد بانٹنے کی کاوشیں ہی حالات بہتر بنائیں گی،کیونکہ سیاست میں سچی محبت کے چلن سے ہی قدرت بھی مہربان ہوتی ہے،نیت ٹھیک ہونے پر حالات بہتر ہونے شروع ہوجائیں گے اور ملک میں ترقی و خوشحالی کا سفر رواں دواں ہونے پر عوام کو حقیقی ریلیف مل سکے گا،اسی لئے تو استاد شاعر جگر مرادابادی کہتے ہیں
ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے
 

Safdar Ali Khan
About the Author: Safdar Ali Khan Read More Articles by Safdar Ali Khan: 14 Articles with 6616 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.