پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ پنجاب حال میں ایک
آئینی بحران کاشکار ہوگیا۔ ڈپٹی ا سپیکر دوست محمد مزاری نے 23 جولائی کو
مسلم لیگ ق کے سربراہ چودھری شجاعت حسین کی جانب سے اراکین کے نام لکھے خط
کا حوالہ دے کر 10 ؍اراکین اسمبلی کے ووٹ مسترد کردئیے ۔ ڈپٹی اسپیکر پنجاب
اسمبلی کے اس متنازع رولنگ کی و جہ سے تحریک انصاف کے امیدوار پرویز الٰہی
کی زیادہ ووٹ ملنے کے باوجود شکست ہوگئی اور مسلم لیگ ن کے حمزہ شہباز
دوبارہ وزیراعلیٰ قرار پائے۔ووٹ کالعدم قرار دینے کے فیصلے کو پرویز الٰہی
نے سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔اس کے بعد سپریم کورٹ نے حمزہ شہباز کو
عبوری وزیراعلیٰ بننے کا حکم دیتے ہوئے اسپیکر کی رولنگ پر سماعت جاری رکھی
تاکہ آرٹیکل 63 اے کے تحت مسترد شدہ ووٹوں کا فیصلہ کیا جا سکے۔ مثل مشہور
ہے ’ انصاف میں تاخیر انصاف سے محرومی‘ کے مترادف ہے۔ پاکستان سپریم کورٹ
کے اپنے حالیہ فیصلے میں کمال جرأتمندی کے ساتھ ساتھ بلا کی سرعت کا
مظاہرہ کرکے ا س بحران کا خاتمہ کردیا ۔
عدالتِ عظمیٰ نے تمام تر سیاسی دباو کے باوجود تین دن کے اندر ایک نہایت
سنگین معاملے کو نمٹا کر دکھا دیا کہ آزاد اور پر اعتماد عدلیہ کیسی ہوتی
ہے؟ حکومت کی اتحادی جماعتوں نے اس معاملے میں وسیع بینچ پر اصرار کرکے
فیصلے کو ٹالنے کی بھرپور کوشش کی اور دباو بنانے کے لیے عدالتی کارروائی
کے بائیکاٹ تک کا اعلان کر دیا لیکن وہ اپنی کوشش میں کامیاب نہیں ہوسکے ۔
ایک ایسے وقت میں جبکہ عدالتیں حکمرانوں کے چشم ابرو پر سجدہ ریز ہوجاتی
ہوں اور تیستا سیتلواد یا ہمانشو کمار جیسے انسانی حقوق کے جہد کاروں پر نہ
صرف کارروائی کا حکم دیں بلکہ جرمانہ بھی عائد کرنے لگیں تو معاملہ
تشویشناک ہوجاتا ہے۔ ایک معاملہ دفع 370 کی منسوخی کے فیصلے کی آئینی
حیثیت کا بھی ہے ۔ اس مقدمہ کی سماعت کے لیے پچھلے دو سالوں سے عدالت ہمت
نہیں جٹا پارہی ہے۔ ایسے میں پڑوسی ملک میں تین دن کے اندر بلکہ ایک دن کی
سماعت بعد ہی سرکار کے خلاف دو ٹوک فیصلہ غیر معمولی اہمیت کا حامل ہوجاتا
ہے۔
عدالت عظمیٰ کی اس کارروائی کو دیکھنے پر پتہ چلتا ہے کہ اس نے سیاسی دباو
کا مقابلہ کس پروقار انداز میں کیا؟ سماعت کے آغاز میں اتحادی حکومت، حمزہ
شہباز، ڈپٹی ا سپیکر پنجاب اسمبلی اور پیپلز پارٹی سمیت فریقین کے وکلا نے
رولنگ کی بابت دلائل دینے سےیہ کہہ کر معذرت کر لی کہ عدالت فل کورٹ یعنی
وسیع بینچ تشکیل نہیں دے رہی ہے اس لیے وہ عدالتی کارروائی کا حصہ نہیں
بنیں گے۔ اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اگر ایسا ہے تو آپ نشست پر بیٹھ کر
عدالتی کارروائی سنیں۔ انہوں نے بائیکاٹ کرنے والوں کی تشبیہ اقوام متحدہ
میں بیٹھنے والے مبصرین سے دی ۔ اپنے موقف کی وضاحت میں چیف جسٹس نے وکلا
کے بائیکاٹ پر کہا کہ اصل سوال صرف یہ ہے کہ ارکان کو ہدایات کون دے سکتا
ہے؟ آئین پڑھنے سے واضح ہے کہ ہدایات پارلیمانی پارٹی نے دینی ہیں۔ اس سوال
کے جواب کی خاطر کسی مزید قانونی دلیل کی ضرورت نہیں۔ یہ ایسا پیچیدہ سوال
نہیں ہے کہ جس پر فل کورٹ تشکیل دی جائے۔ ایسی خود اعتمادی کے بغیر بروقت
فیصلوں توقع بے سود ہے۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اپنے تبصرے میں یاددہانی کرائی کہ گورننس میں
رکاوٹ کی آئین اجازت نہیں دیتا۔ اس نظیر یہ پیش کی گئی کہ صدر کی سربراہی
میں 1988 کے اندر نگران کابینہ کو سپریم کورٹ نے کالعدم قرار دے چکی ہے ۔
ان کے مطابق فل کورٹ کی تشکیل کا مطالبہ کیس لٹکانے سے زیادہ کچھ نہیں ہے
کیونکہ ستمبر کے دوسرے ہفتے سے پہلے دیگر جج بھی دستیاب نہیں ہیں۔وہ گورننس
اور بحران کے حل کی خاطر مقدمہ جلد نمٹانا چاہتے ہیں۔ سرکاریں دراصل ارکانِ
اسمبلی کی خریدو فروخت کے لیے اس طرح کے التواء سے فائدہ اٹھاتی ہیں۔
مہاراشٹر کا معاملہ تقریباً ڈیڑھ ماہ سے معلق ہے اور عدالت اس کا فیصلہ کب
کرے گی کوئی نہیں جانتا ۔ اس کی وجہ سے حلف برداری کے بعد بھی ایک وزیر
اعلیٰ اور اس کا نائب دیگر وزراء سے بے نیاز ہوکر من مانے طریقہ پر ریاست
کی حکومت چلارہے ہیں۔ عدالت کوئی فیصلہ دینے کے بجائے اس کو وسیع بینچ میں
بھیج کر ٹال مٹول کر رہی ہے۔
سپریم کورٹ نے دن بھر کی سماعت کے بعد تقریباً رات پونے نو بجے فیصلہ سنایا
۔ اپنے مختصر فیصلے میں مسلم لیگ ق کے مسترد ووٹوں کو شمار کرنے کا حکم
دیتے ہوئے اس نے گورنر پنجاب کو ہدایت کی ہے کہ وہ اسی شب تین گھنٹے کے
اندریعنی رات ساڑھے گیارہ بجے چودھری پرویز الہیٰ سے حلف لیں۔ اس بابت خدشہ
تھا کہ مبادہ گورنر بہانہ بازی کریں گے اس لیے سپریم کورٹ نے یہ بھی کہا کہ
اگر گورنر پنجاب حلف نہیں لے سکتے تو ان کی جگہ صدر پاکستان اس ذمہ داری کو
ادا کریں۔اس فیصلے چیف سیکرٹری پنجاب کو پرویز الہیٰ کا بطور وزیر اعلیٰ
نوٹیفیکیشن جاری کرنے کا حکم دے کر تمام صوبائی مشیران اور معاونین خصوصی
کو عہدے سے فی الفور ہٹادیا گیا ۔ اس کے بعد صدر پاکستان عارف علوی نے
چودھری پرویز الہیٰ سے حلف لے کر اپنی آئینی ذمہ داری نبھا ئی اور وہ بیس
سال کے بعد وہ دوبارہ صوبہ پنجاب کے وزیر اعلیٰ بن گئے لیکن فرق یہ ہے کہ
پچھلی بار ان کی پاس دو سوارکان اسمبلی تھے مگر اس مرتبہ صرف دس ہیں ۔ اب
معلوم ہوا کہ وزیر اعلیٰ بننے کے لیے سب سے زیادہ ارکان کی ضرورت نہیں ہوتی
۔ ایوان پارلیمان کی نشست چھوڑ کر اسمبلی کی رکنیت باقی رکھنے کا ان کا
فیصلہ بھی مفید ثابت ہوا ۔ اسے کہتے ہیں جس کو اللہ رکھے اس کو کون چکھے ۔
عدالت کے اس فیصلے کا پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شاہ محمود قریشی نے
خیرمقدم کرتے ہوئے کہا کہ ’سپریم کورٹ نے بڑے حوصلے، بردباری سے حکومت کی
دھمکیوں کو برداشت کیا۔‘ وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف نےآئین نےتمام
اداروں کے متعینہ حدود کا پابند رہنے کی تلقین کرتے ہوئے دوسروں کے اختیار
میں مداخلت کرنے سے منع کیا ۔انہوں نے آئین اورپارلیمنٹ کی بالادستی پر
کوئی سمجھوتہ نہیں کرنے اور فل کورٹ کی تشکیل کو انصاف کا تقاضہ بتاکراس
فیصلے کو عوامی حصول انصاف کی توقعات کو دھچکا قرار دیا ۔اپنا عہدہ گنوانے
والے حمزہ شہباز نے کہا کہ ’ایک متنازعہ فیصلے کے ذریعے عوام کے ووٹوں سے
منتخب حکومت کو گھر بھیجا گیا ہے۔عوام دیکھ رہی ہے کہ تحریک انصاف کو آئین
سے کھلواڑ کرنے کی کھلی چھٹی دی جاتی ہے، دوسری طرف ایک آئینی اور قانونی
طریقہ کار کو ردی کی ٹوکریوں میں پھینک دیا جاتا ہے۔‘ حمزہ شہبار بھول گئے
کہ اسی عدالت کے فیصلے نے چار ماہ قبل ان کے والد کو ملک کا وزیر اعظم
بنایا ہے۔ ایسا تو نہیں ہوسکتا کہ ہر فیصلہ انہیں کے حق میں آئے۔ عمران
خان نےپوری قوم کا شکریہ ادا کیا جبکہ مسلم لیگ ن کی نائب صدر مریم نواز نے
اسے عدالتی تختہ پلٹ کا نام دیا ۔
عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے نے سیاستدانوں کے علاوہ سیاسی مبصرین کو بھی مختلف
خانوں میں منقسم کردیا ہے۔ ملک کی سیاسی صورتحال پر معروف صحافی احمد بلال
محبوب نے مایوسی کا اظہار کیا۔ ان کے مطابق اپنے خلاف آنے والے فیصلے کو
دونوں جانب میں سے کوئی بھی قبول نہیں کرے گا اور یہ سلسلہ اسی طرح جاری
رہے گا۔ اس کی وجہ یہ بتاتے ہوئے وہ بولے سیاست میں لوگ ایک دوسرے کو
برداشت کرتے ہیں اور آپس میں گفتگو ہوتی ہے اس کے برعکس اگر لوگ ایک دوسرے
کو برباد کرنے کی کوشش کریں گے تو معاملہ آگے نہیں جائے گا۔ایک اور مبصر
سلمان غنی نے اس صورتحال پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’بدقسمتی سے
اب ایوان کے فیصلے بھی عدالتوں میں ہو رہے ہیں، اگر یہ فیصلے ایوانوں میں
ہوتے تو سپریم کورٹ کی ضرورت پیش نہیں آتی، تاریخ خود کو دوہرا رہی ہے پہلے
وفاق میں بھی یہی ہوا۔ جمہوری عمل کوانتخابات پر جا کر ختم ہونا
چاہیےمگرپہلے اتحادی جماعتیں قبل ازوقت انتخابات چاہتی تھیں تو عمران خان
نہیں چاہتے تھے آج موجودہ حکومت کہتی ہے کہ ہم مدت پوری کریں گے۔‘ انہوں نے
امید جتاتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی عدالتوں پر سب کو اعتماد ہے اور وہ کوئی
ایسا فیصلہ نہیں دیں گی جس سے بحران میں اضافہ ہو۔
سیاسی لوگ تو اپنی سہولت کے لحاظ سے تبصرے کرتے رہتے ہیں لیکن چونکہ عدالت
نے اپنی ذمہ داری کما حقہُ ادا کی اس لیے وہاں بھی ہندوستان کی طرز پر
عدلیہ کے پر کترنے پر بحث تیز ہوگئی۔ سپریم کورٹ کےحالیہ فیصلے کے بعد
حکمران اتحاد میں شامل جماعتوں کی طرف سے یہ بیانیہ پیش کیا جا رہا ہے کہ
سپریم کورٹ کے اختیارات کو کم کرنے یا ان کے امور کی نگرانی کرنے کے حوالے
سے قانون سازی کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے آئین کی دفع 191 چونکہ سپریم کورٹ
کو عدالتی اُمور نمٹانے کے لیے طریقہ کار بنا نے کا اختیار دیتا ہے اس لیے
اعلیٰ عدالتوں میں ججز تقرریوں اور ترقیوں کے حوالے سے بھی سپریم کورٹ کے
اختیارات محدود کرنے کی تجویز آرہی ہے۔ مقننہ قانون میں ترمیم کر کے سپریم
کورٹ پر پابند ی وضع کر سکتا ہے ۔اس کے لیے دو تہائی اکثریت کے بجائے
پارلیمنٹ میں سادہ کثرت رائے کافی ہے لیکن ابھی تک اس سے گریز کیا گیا ہے۔
عدالت کے بیباک رخ نے سیاستدانوں کو اپنے مفاد کی خاطر ان خطوط پر سوچنے کے
لیے مجبور کردیا ہے اور اس کے لیے ہندوستان کا حوالہ دیا جارہا ہے۔ ان
لوگوں کی دلیل ہے کہ پارلیمنٹ اعلیٰ ترین ہے کیونکہ آئین اسی پارلیمنٹ نے
بنایا ہے اور تمام ادارے اسی پارلیمنٹ کے بنائے ہوئے آئین کے تابع ہیں۔
ایسا کہنے والے بھول جاتے ہیں کہ ایوانِ پارلیمان بھی آئین کی پابند ہے۔
اقتدار کی ہوس میں آئین کی دھجیاں اڑانے والوں کی زبان پر یہ نصیحت زیب
نہیں دیتی۔ ایسے لوگوں کی خدمت میں کسی گمنام شاعر کا یہ شعر پیش خدمت ہے؎
یہ سیاست نہیں عدالت ہے
اس عدالت کا احترام کرو
(۰۰۰۰۰۰۰جاری)
|