باقی ہے جسم وجاں ابھی قرض آزادی. . . . .
(Muhammad Ahmed Tarazi, karachi)
باقی ہے جسم وجاں ابھی قرض آزادی. . . . . محمد احمد ترازی
|
|
باقی ہے جسم وجاں ابھی قرض آزادی. . . . . محمد احمد ترازی تاریخ گواہ ہے کہ غلامی کی لعنت حساس افراد اور زندہ قوموں کیلئے ہمیشہ ذہنی اذیت، روحانی بے چینی اور قلبی درد و کرب کا باعث رہی ہے،جبکہ احساس غلامی اور محرومیت نے ہمیشہ محکوم اور غیور انسانوں اور غیور قوموں کے لہو کو گرم رکھا اور نتیجتاً حکمران قوموں کی ظاہری شفقت و مہربانی اور آئین پسندی کے باوجود محکوم قوموں نے غلامی کی زنجیروں کو توڑ ڈالا،یہ بھی حقیقت ہے کہ غلامی کی زنجیریں ٹوٹنے کا عمل کبھی خاموش نہیں ہوتا،غلامی کی زنجیروں پر موت کے رقص ہوتے ہیں، آزادی کے متوالے سولیوں پر چڑھتے ہیں،سروں کے نذرانے پیش کرتے ہیں،جانوں کی قربانی دی جاتی ہے اور شہداءکے بہتے ہوئے خون سے در یا سرخ ہوجاتے ہیں،گاؤں دیہات لٹتے ہیں،شہر جلائے جاتے ہیں لیکن آزادی کے متوالے آگ و خون کے دریاؤں سے گزر کر آزادی کی منزل تک پہنچ ہی جاتے ہیں،آگ و خون کے دریاؤں سے گزرنے کا احساس اور تجربہ برصغیر کے مسلمانوں سے زیادہ کسی اور قوم کو نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ غلامی کا طوق گلے سے اتارنے کیلئے ہمیشہ سینہ سپر رہے،انہوں نے ہندو قوم کی طرح عزت و آزادی کے سودے نہیں کئے،پلاسی کے میدان سے لے کر سرنگا پٹم کی سرزمین تک1857ء کی جنگ آزادی سے لے کر تحریک خلافت،تحریک ہجرت اور تحریک عدم تعاون اورجلیانوالہ باغ کے المیہ سے لے کر واقعہ کانپور مچھلی بازار،سانحہ مسجد شہید گنج اور حادثہ قصہ خوانی بازار تک ایسے تما م مواقع پر مسلمانان ِ ہند جرات و بہادری کے ساتھ بڑھ چڑھ کر مردانگی کا مظاہرہ کرتے اور اپنے خون سے آزادی کے چراغ روشن کرتے رہے ۔ مسلمانان برصغیر کی جدوجہد ِ آزادی بلاشبہ انتہائی کٹھن اور صبر آزما کام تھی انہیں کئی محاذوں پر برسرپیکار رہنا پڑا،ایک طرف انگریز کی غلامی سے نجات کا مرحلہ درپیش تھا تو دوسری طرف ہندو بنیے کے متوقع رام راج کے برسراقتدار آنے کے خطرات لاحق تھے،انگریزوں اور ہندوؤں دونوں کی غلامی کے طوق انہیں اپنی گرفت میں لینے کیلئے بے چین تھے،کیونکہ دونوں ہی مسلمانوں کے ازلی دشمن تھے،انگریزوں کے ذہن سے صلیبی جنگوں میں مسلمانوں کے ہاتھوں ذلت آمیز شکست کبھی محو نہیں ہوسکی اسی طرح ہندو برصغیر کے میدانوں میں سلطان محمود غزنوی،سلطان محمد غوری،ظہیر الدین محمد بابر،احمد شاہ ابدالی جیسے مایہ ناز سورماؤں اور جری جرنیلوں کے ہاتھوں اپنی ذلت آمیز شکستوں کے واقعات نہیں بھولے تھے،یہی وجہ تھی جب آزادی کی گھڑیاں قریب آئیں تو دونوں قوموں نے اپنے سینوں میں چھپائی ہوئی برسوں کی دشمنی،نفرت اور بغض کا برملا اظہار کیا،انگریز نے حالات و واقعات سے مجبور ہوکر مسلمانان برصغیر کا مطالبہ تو منظور کرلیا لیکن پاکستان کے وجود کو گہری اور خطرناک ضربیں لگانے سے باز نہیں آئے،پاکستان میں شامل ہونے والے دو بڑے صوبے بنگال اور پنجاب کو تقسیم کردیا گیا،باونڈری کمیشن سے تمام بے اصولیاں کرائیں گئیں،الغرض پاکستان کو لولا لنگڑا بنانے کیلئے انہوں نے تمام ممکنہ کوششیں روا رکھیں،دوسری طرف ہندوؤں اور سکھوں نے بھی اگرچہ پاکستان کے قیام پر بظاہر رضا مندی ظاہر کردی تھی لیکن اندرونی طور پر وہ پاکستان کے وجود کو چند ساعتوں یا چند مہینوں زیادہ دیکھنے کے متحمل نہیں تھے،وہ برصغیر کے مسلمانو ں کو صفحہ ہستی سے مٹا دینا چاہتے تھے اور خاص کر انہوں نے بھارت میں شامل ہونے والے علاقوں کے مسلمانوں پر لوٹ کھسوٹ اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا،مسلمانوں کے محلے قصبے،شہر اور دیہات لوٹے انہیں آگ لگائی،ہزاروں لاکھوں بے گناہ بچوں،جوانوں اور بوڑھوں کو تہہ تیغ کیا نوجوان لڑکیوں اور عورتوں کو اغوا کیا،نواکھلی سے لے کر لاہور تک کشمیر سے لے کر راس کماری تک غریب مسلمانوں پر ایک قیامت گزر گئی،پورا مسلم ہندوستان جل رہا تھا،بہار سے لے کرمشرقی پنجاب تک آگ لگی ہوئی تھی لیکن انگریز وں کا”نیرو“ لارڈ ماؤنٹ بیٹن اور ہندوؤں کا” نیرو“مہاراجہ پٹیالہ جو پنجاب کا رنجیت سنگھ بننا چاہتا تھا چین سے بیٹھے بانسری بجارہے تھے، مسلمانوں کی دنیا لٹتی رہی اور مسلمانوں کے ازلی دشمن 14اگست 1947ء کی صبح آزادی تک بانسری بجاتے رہے ۔ چودہ اگست 1947ء کو دنیا کے نقشے پرایک آزاداسلامی جمہوری مملکت پاکستان بن کر ابھری،جس کے قیام کیلئے مسلمانان ہند نے بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جنا ح کی قیادت میں ایک طویل جنگ لڑی،یہ وہ سیاسی اور جمہوری حقوق کی بازیابی کی جنگ تھی جس کیلئے مسلمانان ِہند نے قید و بند کی صعوبتیں تو ایک طرف ہزاروں ماؤں نے اپنے جگر گوشوں کی شہادت سے،ہزاروں بہنوں نے اپنی عزتوں اورعفتوں کے نذرانے دے کراور ہزاروں معصوموں نے بوڑھوں نے اپنی جانوں کی بازی ہار کر ظالم و متعصب انگریز وں اور ہندوؤں سے اپنے پاک وطن کی آزادی حاصل کی،یہ حصول پاکستان کی طویل جدو جہد پر مبنی تاریخی واقعات زندہ اور باغیرت قوم کی تاریخ ہیں جو آج ہمارے لئے قابل رشک اور قابل زکر ہیں،یہ اُن نیک جذبوں اور پاکیزہ آرزؤں کی تاریخ ہے جس کی قوت اور اثر سے ہندوستان کی تین سو سالہ شب ظلمت کا سینہ چیر کر آزادی کا سورج طلوع ہوا مگر اِن پاکیزہ فولادی جذبوں کی تاریخ کا آخری باب 11ستمبر 1948ء کو بانی پاکستان حضرت قائد اعظم محمدعلی جناح کی وفات کے ساتھ ہی ختم اور مکمل ہوگیا اور اُس کے بعد جس تاریخ کا آغاز ہوا اُس کے صفحات پر کارناموں کی جگہ المیے رقم ہوئے،بابائے قوم اور شہید ملت لیاقت علی خان کی وفات کے بعد سے تا حال ہماری قومی تاریخ المیوں در المیوں کی تاریخ جس کے صفحات کا ایک سرا مقبوضہ کشمیر کی لہو رنگ وادی،سری نگر کے خوں آلود پہاڑوں سے لے کر ڈھاکہ اور چٹاگانگ کی خون آلود گلیوں تک پھیلا ہوا ہے تو دوسر سرا صوبہ بلوچستان و پختونخواہ کے کوہساروں سے لے کر کراچی کی سڑکوں تک سسکتی ہوئی مظلوم انسانیت اور بے بسی و لاچارگی کی تاریخ بیان کرتا ہے،اِن المیوں نے ہمیں ایک متحد و منظم قوم سے چھوٹے چھوٹے انسانی گروہوں اور بکھرے ہوئے بھیڑوں کے ریوڑ میں تبدیل کردیا،انگریزوں اور ہندو بنیے سے لڑ کر پاکستان حاصل کرنے والی قوم جغرافیائی،لسانی اورنسلی تضادات میں الجھ کر بکھر گئی،اقتدار مافیا نے کبھی جمہوریت،کبھی اسلام،اور کبھی غریب پروری کے لبادوں میں روپ بدل بدل کرجمہوریت کی دھجیاں اڑائیں،اسلام کے ساتھ کھلا مذاق کیا اور سیاست کا وہ کھیل کھیلا جس کے احوال دیکھ کر شاید گورستانوں کے گل فروش بھی شرمندہ ہوتے ہوں،سیاستدانوں کی باہمی چپقلش،سیاسی مفادات کی کالی آندھی نے تحریک پاکستان کے مقاصد کے ساتھ قرار داد مقاصد کو بھی نہ صرف دھندلا کر رکھ دیا بلکہ بانیان پاکستان اور تحریک پاکستان کے گمنام شہیدوں کی ارواح کو بھی زخم لگائے جنہوں نے اپنا سب کچھ اس مملکت عظیم کے قیام کیلئے قربان کیا تھا ۔ قوم گذشتہ 64برس سے اپنی ناکام تمناؤں اور حسرتوں کے لاشے اٹھائے امید بر آس رہی جبکہ حکمرانوں نے ہر مرتبہ وطن عزیز پاکستان کے جواز کی توہین کی اور قیام پاکستان کے بنیادی مقصد کو فراموش کردیا،ہر مرتبہ وعدہ خلافی کی گئی،حکمرانوں نے پاکستان کو اپنے باپ کہ جاگیر سمجھ کر اس بری طرح لوٹا کہ آج پوری قوم کاسہ گدائی لئے ورلڈبینک،آئی ایم ایف جیسے اسلام اور پاکستان دشمن اداروں کے سامنے کھڑی ہے جو اپنی مرضی سے ہمارابجٹ بنواتے ہیں ہم پر ٹیکس لگواتے ہیں،بخدا یہ سریحاً توہین ہے اُن جذبوں کی جو قیام پاکستان کیلئے دی جانے والی قربانیوں کے پیچھے کارفرما تھے،یہ توہین ہے اُس خون کی جو پاکستان کیلئے شہدا کے بدن سے بہا،یہ توہین ہے اُس نظریئے کی جس کی بنیاد پر تحریک پاکستان چلائی گئی اور یہ توہین ہے اُس تاریخ کی جس کی پیشانی پر اسلام کی 12سو سالہ حکمرانی کا تاج سجا رہا اور جس نے دنیا کو رہنے،سہنے اور جینے کے ڈھنگ اور قرینے سکھائے،آج اسی قوم کی تباہی و بربادی پر باطل ہنس رہا ہے،قوم بانیان پاکستان کی قربانیوں اور مقاصد کو بھول کر مفادات میں الجھ گئی ہے ہر کوئی کہیں بھی ہو اپنی مفاداتی جنگ سے باہر نہیں آرہاہے،اس وقت قوم جس دور آشوب سے گزر رہی ہے وہ انتہائی خطرناک اور بھیانک منظر کی عکاسی کررہا ہے،وہ جنگ جوامریکہ کل تک افغانستان اور عراق میں لڑرہا تھا آج کمال مہارت سے اُس نے وہ جنگ پاکستان کے اندر شروع کر ا رکھی ہے جس سے ہمارا اسلامی تشخص اور مقام ہی متاثر نہیں ہورہا بلکہ اس کا براہ راست اثر ہماری آزادی اور خود مختاری پر پڑرہا ہے ا ور دشمن چاروں طرف سے منہ کھولے ہمیں نگلنے کیلئے تیار کھڑاہے،لہٰذا اس نازک وقت میں ہمیں اسلام کی درخشاں تاریخ کی روشنی میں اپنے گھوڑے ہر لمحے تیار رکھنے چاہیے، دشمن نے پاکستان کو کبھی معاف نہیں کیا اُس کا تو مقصد ہی یہی تھا کہ پاکستان چند ماہ میں ختم ہوجائے لیکن وہ بابائے قوم قائد اعظم محمد علی جناح کے اِس قول اور حقیقت کو بھول گیا کہ ”پاکستان خدا کی مرضی ہے اور یہ مرضی پوری ہوکر رہے گی پاکستان قیامت تک زندہ رہے گا ۔“ انشاءاللہ پاکستان قیامت تک زندہ وآباد اور قائم و دائم رہے گا،دشمن کی کوئی چال کوئی حربہ پاک سر زمین کو نقصان نہیں پہنچاسکے گا،ہم کل بھی آزاد تھے،آج بھی آزاد ہیں اور اپنے ربّ کی عطا سے کل بھی آزاد ہونگے،آج ہم اس پاک سر زمین کے مرغزاروں، ریگزاروں،اور آباد قصبوں اور شہروں میں اپنی آزاد فضاوں کے ساتھ محو رقص ہیں،یہاں کی سر سبز و شاداب وادیاں ہمیں زندگی کے جبر سے بے خبر کئے ہوئے ہیں،جبکہ اس کے دامن میں جاری دریا اور اس کی تہوں میں چھپے خزانے ہماری توانائیوں کے جواب میں اپنا سب کچھ نچھاور کرنے کے کیلئے تیار ہیں،یہاں کے پہاڑوں کی بلندیاں اور سمندر کی وسعتیں ہماری ہمتوں کی آزمائش کیلئے محو انتظار ہیں،قدرت کی اَن گنت عطیات اس خطہ ارضی کے دامن میں پوشیدہ ہیں،لیکن افسوس کہ ہماری تمام توانائیاں سہل انگاری کی نظر ہوگئیں،ہماری خوابیدہ صلاحتیں کسی معجزہ کے ظہور کا انتظار کررہی ہیں،اب وقت آگیا ہے کہ ہم سہل انگاری کے فریب اور معجزوں کے انتظار کے سحر سے باہر نکلیں اور سوچیں کہ وہ کون سے دشمن ہیں جنہوں نے ہمیں 65 برس تک قیام کے پاکستان کی اصل منزل سے دور رکھاہوا ہے،پاکستان ہمارے پاس اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت ہے،یہ امانت ہے اُن شہداءکی جنہوں نے اس کی بنیادیں اپنے گرم لہو سے اٹھائیں،یہ امانت ہے ہماری آئندہ نسلوں کی جنہیں کل اس کا پاسبان بننا ہے،یاد رکھیں کہ پاکستان ایک حقیقت ہے یہ عطیہ خداوندی ہے اس نعمت سے فیضیابی کیلئے ہمیں اپنے آپ کو پورے خلوص اور عزم صمیم کے ساتھ تیار کرنا ہوگا جس طرح ہمارے آباءو اجداد نے اپنی انتھک محنت اور کامل جذبہ ایمان سے اسلام کے پیغام حق کو جزیرہ ہائے عرب کے ریگزاروں سے نکال کر دنیا ئے عالم کے گوشہ گو شہ تک پہنچایا تھا،آج ہمیں اُسی جذبہ اور ایمان کے ساتھ رخت سفر باندھنا ہوگا،آیئے ہم سب مل کر اپنے بزرگوں کی اِس امانت کی حفاظت کریں، پاکستان کی نامکمل عمارت کی تعمیر کریں اور اُس تصور پاکستان کی تکمیل کریں جس کی تخریب ہمارے دشمنوں کا مقصد و مدعا ہے،آج تکمیل پاکستان کیلئے ہمیں اسی جذبے،اسی ولولے اور وہی قربانیاں دینا ہونگی جس کا نظارہ تشکیل پاکستان کے وقت ہمارے آباؤ اجداد نے پیش کیا تھا،دوستو ! سفر ابھی ادھورا ہے،تکمیل پاکستان کی منزل ابھی باقی ہے۔ آیئے آج کے دن پاکستان کو حقیقی منزل تک پہنچانے کیلئے اپنا قومی و ملی کردار ادا کرنے کا عہد کریں ”کہ باقی ہے جسم وجاں ابھی قرض آزادی . . . . . .
|