عوام بنام سرکار( قسط نمبر 1)

وطن عزیز کو بنے75سال مکمل ہو رہے ہیں آزادی کا جشن مناتے ہوئے اس خیال کو نظر انداز کرنا میرے لئے ممکن نہیں ہے کہ برصغیر کے ایک چوٹی کے قانون دان کے بنائے ہوئے ملک میں آج بھی قانون کی حکمرانی کی منزل ہم سے کوسوں دور ہے پاکستان میں آپکو کتنے شہری حقوق حاصل ہیں آپکی جان اور مال کتنا محفوظ ہے آپکو لکھنے بولنے اوراظہار کی کتنی آزادی ہے اوراپنی سوچ کے اظہار کے بعد آپ خود کتنے محفوظ ہیں ان سوالات کا مثبت جواب دیناآسان نہیں بلکہ انتہائی تکلیف دہ ہے ، مجھے کہنے دیجئے کہ دھونس جبر تشدد کے رجحان اور اپنی سوچ کو دوسروں پر مسلط کرنے کی دانستہ کوششوں نے ہمارے معاشرے کو ایک ایسی’’ گرفتار سوسائٹی‘‘ کی شکل دی ہوئی ہے جہاں مختلف شعبہ ہائے زندگی کے لوگ دوسروں کی رائے اور آواز کو کچلنے میں مصروف ہیں سوشل میڈیا نے اظہار کی جتنی آزادی دی ہے اس سے کہیں زیادہ آپکی بات کو دبانے اور رائے کو کچلنے والے بھی وہاں اپنا اپنا ایجنڈا لئے موجود ہیں سودوسروں کی پوسٹ پر جاکر بدکلامی طنز اور تمسخر اڑانا عام بات ہے جو ایک طرح سے’’ ذہنی ٹارچر‘‘ جیسا ہے، علمائے کرام کی اپنے حاضرین جو اہل ایمان میں سے ہوتے ہیں انہیں تنقید کا نشانہ بنائے بغیر کوئی بات مکمل نہیں ہوتی ، عدالت میں جج کی گھن گرج سے درو دیوار لرز جاتے ہیں مگر افسوس کہ انکے فیصلے نہیں اب جج ہی زیادہ بولتے ہیں اور دوسروں کی تضحیک کرتے ہیں گاؤں تحصیل یا گلی محلے میں مخالفین کی آواز کو دبانے انکی عزت نفس مجروح کرنے اور انہیں انتقام کا نشانہ بنانے کے لئے جس طرح’’ بحکم ایس ایچ او‘‘ پولیس کی اپنی مرضی کو قانون کا نام دیا جاتا ہے اسکا مہذب معاشروں میں کوئی تصور نہیں کر سکتا،یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ ملک کے بڑے سے بڑے عہدے پر فائز افسران ہوں یاملک اور عوام کے مقدر کو نوچنے والے حکمران سب کو اپنے اپنے معاملے میں عدم تحفظ لاحق ہے بڑے سے بڑا افسر، سیاستدان، مذہبی راہنما ہو یاسڑک پر چھابڑی لگا کر چند سو روپے کمانے والا ایک عام آدمی کوئی بھی یہ بات یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ ملک میں انصاف کے ادارے ٹھیک کام کر ہے ہیں اسلئے اس پر جھوٹی ایف آئی آر نہیں ہو سکتی یا اسکے ساتھ کوئی ظلم زیادتی ہو جائے تو اسکی انصاف تک آسانی سے رسائی ہو سکے گی ، یہ سارے وہ عوامل ہیں جو ایک انسانی معاشرے کی اچھی یا بری تصویر پیش کرتے ہیں ،بطور صحافی شاید ہی کوئی ایسا دن ہو جب پولیس کی طرف سے خیر کی خبر آئی ہو من گھڑت، یکطرفہ ناقص تفتیش، افسران اور اہلکاروں کی جرائم کی سرپرستی یا پھر تھانوں اور ناکوں پرشہریوں کے ساتھ بدکلامی جیسے واقعات سے متاثرین چیخ رہے ہوتے ہیں مجھے بڑے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ انگریز کے خلاف طویل سیاسی جدو جہدکر کے آزادی حاصل کرنے والی قوم اور اسکے شہریوں کو اکیسویں صدی میں بھی انگریز سرکار کے نقش قدم پر چلتے ہوئے عوام کو ہانکنے مارنے اور سیاستدانوں کے اشاروں پر ناچنے والی ایسی ظالمانہ پولیس کا سامناہے جسکے بڑے بڑے افسران اپنی یونیفارم اور عہدے بچانے کے لئے ماتحت اہلکاروں کو شریف شہریوں کے گھروں میں گھسا کربہنوں بیٹیوں کے سروں سے دوپٹے کھینچتے ہیں پولیس اتنی دلیر ہے کہ موبائل کیمرے کے اس دور میں بھی عورتوں بچوں اور بزرگوں تک کو بے خوفی سے تشدد کا نشانہ بناتی ہے پولیس میں تقرریاں سیاسی ایجنڈے اور سیاسی جماعت سے وفاداری کی بنیاد پر کی جاتی ہیں سیاستدان کسی منشور پر کام کرنے اور اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ لینے کی بجائے پولیس گردی کے ذریعے الیکشن چھیننے کی کوش کرتے ہیں، ماضی اور حال کے حکمران پولیس کے معاملے میں ایک جیسے ہیں نہ جانے یہ سیاستدان اپنے کارناموں سے پولیس کا چہرہ اور کتنا بگاڑیں گے کیا پولیس کا کام حکمرانوں کی غلام بن کر انکے غیر قانونی اور ناجائز احکامات کی تعمیل بجا لانا ہے (جاری ہے )
 

Faisal Farooq Sagar
About the Author: Faisal Farooq Sagar Read More Articles by Faisal Farooq Sagar: 107 Articles with 76387 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.