مجاہد آزادی مولانا محمد علی جوہر

مولانا محمد علی جوہر ہندوستان کی تاریخ آزادی میں ایک اہم نام ہے ۔ لیکن یہاں کی متعصب کن ذہنیت نے ان کی خدمات و قربانیوں کو نظر انداز ہی نہیں بلکہ فراموش کردیا ہے۔ ملک کی بھر کی تاریخ کی نصابی کتابوں میں مولانا کا ذکر بہت کم کیا گیا ہے۔ مولانان محمد علی جوہر کی پیدائش 10 دسمبر 1878 .ء کو رامپور میں ہوئی۔ آپ کے آبا افغانستان سے ہجرت کرکے ہندوستان میں روہل کھنڈ میں آباد ہوئے بعد میں آپ کا خاندان رامپور میں آباد ہوا۔ آپ کے خاندان تعلق افغانستان کے یوسف زئی قبیلے سے تھا۔ مولانا کے بچپن میں ہی ان کے والد کا انتقال ہوگیا تھا آپ کی پرورش آپ کی والدہ نے کی جو بی اماں کے لقب سے مشہور ہیں۔ مولانا نے اپنی تعلیم اندرون وطن دارالعلوم دیوبند،مسلم علی گڑھ یونیورسٹی اور بعد میں بیرون ملک لنکن کالج ، آکسفورڈ یونیورسٹی سے مکمل کی ۔ وطن واپسی کے بعد مولانانے رامپورمیں ایجوکیشن ڈائرکٹر کی حیثیت سے خدمات انجام دیں۔اسکے بعد برودہ سول سروس میں ملازمت اختیار کرلی۔

مولانا محمد علی جوہر ایک ماہر مقرر و ادیب تھے جن کے مضامین اردواور انگریزی دونوں اخبارات میں شائع ہوتے تھے۔انھوں نے اردو میں ’ہمدرد‘ اور انگریزی میں’ Comrade‘ نامی ہفت روزہ اخبارات جاری کے جس میں انکے بھائی شوکت علی ان کی مدد کیا کرتے تھے۔مولانا محمد علی جوہر نے پہلی عالمی جنگ کے بعد1919 میں انگلستان کا دورہ کیا۔تاکہ ترکی کی خلافتِ عثمانیہ کو برقرار رکھا جا سکے لیکن انگلستانی حکومت نے مولانا کی مانگ کو مسترد کردیا۔ محمد علی وطن لوٹ آئے اور خلافت کمیٹی تشکیل دی۔ خلافت کمیٹی کا مقصد خلافت کو قائم کرنے کے لیے برطانوی حکومت پر دباؤ ڈالنا تھا جس کے لیے ’خلافت تحریک‘شروع کی گئی۔ چونکہ برطانوی حکومت نے اس مطالبہ کو مسترد کردیا تھا اس لیے خلافت تحریک ’تحریکِ عدم تعاون ‘ میں تبدیل ہوگئی۔ مولانا نے برطانوی حکومت کی طرف سے عطا کیے گئے اعزازات اور ’سر ‘ کا خطاب لوٹا دیا۔ اس تحریک عدم تعاون کی ہندوستان کے کئی مسلم رہنماؤں نے قولی و عملی تائید کی جن میں مولانا شوکت علی ،مولانا ابوالکلام آزاد، حکیم اجمل خان اور مختار احمد انصاری شامل ہیں ۔ بعد میں مہاتما گاندھی اور کانگریس پارٹی بھی اس تحریک میں شامل ہو گئے ۔ حکومت کے خلاف یہ تحریک دن بدن زور پکڑتی جارہی تھی کہ اچانک چوری چورا کے مقام پر عوام نے پولیس کے ظلم کے خلاف تشدد کا استعمال کرتے ہوئی پولیس چوکی کو آگ لگادی اس واقعے کے بعد گاندھی جی نے اس تحریک کے خاتمے کا اعلان کر دیا۔

تحریک خلافت پر مولانا کی کوششو ں کا اندازاہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ، کہا جاتاہے کہ اس وقت بچے بچے کی زبان پر مولانا محمد علی جوہر کے تعلق سے یہ شعر تھا۔
’’ بولی اماں محمد علی کی بیٹا جان خلافت پے دے دو‘‘

13 نومبر 1930 کی گول میز کانفرنس میں مولانا محمد عل جوہر شرکت کے لئے لندن گئے تب انھوں نے برطانوی حکومت کے سامنے اپنی یہ واضح مانگ رکھ دی کہ یا وہ تولندن سے ہندوستان کی آزادی کا پروانہ لے کر جائیں گے یا پھر وہیں اپنی جان دے دیں گے۔ اللہ نے آپ کی بات رکھ لی اور لندن میں قیام کے دوران آپ بیمارپڑ گئے اورلندن ہی میں 4 جنوری 1931 .ء کو آپ کی وفات ہوگئی۔ ان للہ وان الیہ راجعون۔ مولانا کی تدفین سر زمین انبیاء فلسطین میں کی گئی جہاں آج بھی آپ کی قبر موجود ہے۔

مولانا جوہر ہی وہ شخصیت ہے جس نے مہاتما گاندھی کو کانگریس اور ہندو طبقہ سے آگے بڑھا کر ہندوؤں اور مسلمانوں کا قومی رہنمابنایا۔ مولانا نے اپنی زندگی میں بہت سارے انقلابی کام کیے جس میں سے چند ایک یہاں بیان کیے جارہے ہیں۔

مولانا محمد علی جوہر کی ملی خدمات:
۱) مولانا محمد علی جوہر ایک ماہر مقرر و خطیب تھے اپنے ہفت روزہ اخبارات کے ذریعے مولانا ہمیشہ مسلمانوں کی اصلاح کے لیے مضامین لکھتے رہتے تھے۔
۲) مولانا محمد عل جوہر ہی وہ واحد شخصیت ہے جنھوں نے ہند کی ملت اسلامیہ میں خلیفہ کے عہدے کی اہمیت واضح کی۔
۳) مولانا محمد عل جوہر نے ہی ہندوستان میں خلافت تحریک کی بنیاد ڈالی جس نے آگے چل کر تحریک عدم تعاون کی شکل اختیار کرلی ۔ آگے چل کر عوام کو اسی نہج پر نمک ستیہ گرہ ، ترک موالات اور بھارت چھوڑو جیسے کامیاب احتجاج کی راہ ملی۔
۴) خلافت تحریک کے تئیں اُن کے جذبات اور کاوشوں کو دیکھتے ہوئے انھیں ’ مولانا ‘ کے خطاب سے نوازا گیا۔

مولانا محمد علی جوہر ؒ کی تعلیمی خدمات:
۱) مولانا نے بیرون ملک جاکر ہی اعلیٰ تعلیم حاصل کی ایسا نہیں ہے انگلستان جانے سے پہلے ہی آپ دارالعلوم دیوبند سے فراغت حاصل کرچکے تھے جہاں پر آپ کی فکر پروان چڑھی۔ جب آپ اپنی تعلیم مکمل کر کے وطن واپس لوٹے تب آپکو رامپور میں ایجوکیشن ڈائریکٹر کی ذمہ داری دی گئی ۔
۲) اینگلو اورینٹل کالج جو کہ سرسید احمد خان ؒ کا دیرینہ خواب تھا اُسے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں تبدیل کرانے کے لیے بھی مولانا نے کا فی جدوجہد کی ۔
۳) مولانا محمد علی جوہر جامعہ ملیہ اسلامیہ کے بانیوں میں بھی آپ کا نام شامل ہے جسے بعد میں علی گڑھ سے دہلی منتقل کر دیا گیا۔
ہندوستان کی مسلم عوام وقت کے ساتھ ملت کے اس رہنما کو فراموش کرتی جارہی ہے ۔ اللہ ہمیں اس خوابِ غفلت سے بیدار کرے۔ آمین
Abdul Muqeet Abdul Qadeer
About the Author: Abdul Muqeet Abdul Qadeer Read More Articles by Abdul Muqeet Abdul Qadeer: 8 Articles with 13564 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.