سید احمد شاہ گردیزی رحمتہ اﷲ علیہ

 تحریک آزادی کشمیر کے ایک اہم رہنما
(۰۲ رمضان یوم وفات)
تحریک آزادی کشمیر مختلف ادوار سے گزر کر ہم تک پہنچی ہے ۔ ہر دور میں مختلف شخصیات نے اپنا کردار ادا کیا۔ جب ہم تحریک آزادی کشمیر کی تاریخ پر نظر ڈالتے ہیں توہمیں پتہ چلتا ہے کہ اس تحریک کےلئے قربانی دینے والے لوگوں کی تعداد اتنی زیادہ ہے کہ دنیا کی کسی بھی تحریک کو یہ شرف حاصل نہیں ہو سکا کہ اس کے لئے اتنی قربانیاں دی گئی ہوں۔ کشمیر کی تحریک آزادی میں منگ کے مقام پر ضلع پونچھ میں آج بھی وہ درخت موجود ہے جہاں آزادی چاہنے کے جرم میں سردار سبز علی خان اور سردار ملی خان کی زندہ کھالیں کھینچی گئی تھیں۔ سری نگر میں ریشم خانہ کے مزدوروں کی تحریک 1931ءمیں توہین قرآن کی تحریک ”ہل سرنگ“ ضلع پونچھ (اب باغ) میں مسجد کی بحالی کی تحریک ، عوامی حقوق کی تحریک، 1947ءکی تحریک ، موئے مبارک کی تحریک، مقبول بٹ شہید کی تحریک، سید علی گیلانی کی تحریک۔ یہ تمام تحریکیں، کشمیری قوم کا سرمایہ افتخار ہیں۔ اور ان تحریکوں کو چلانے والے محرکین قومی محسنوں کی حیثیت رکھتے ہیں۔ دنیا میں وہی قومیں اپنے مقاصد حاصل کر پاتی ہیں جو اپنے محسنوں کو یاد رکھتی ہیں۔

1920ءسے لے کر اپنی زندگی کے آخری لمحے یعنی 1937ءتک کشمیر کی تحریک آزادی میں ایک اہم کردار ادا کرنےوالی شخصیت سید احمد شاہ گردیزی کی شخصیت کے ساتھ المیہ یہ پیش آیا کہ انہیں بھلا دیا گیا ہے ۔ نئی نسل کو مسلسل ان سے ناواقف رکھا گیا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج کشمیر کی نوجوان نسل احمد شاہ گردیزی کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتی اور اگر جانتی ہے تو یہ معلومات انتہائی محدود ہیں۔

ضلع پونچھ میں مہاراجہ کے ظالمانہ دور میں توہین قرآن ، مسجد کی بحالی اور عوامی حقوق کی تحریک کے قائد سید احمد شاہ گردیزی ضلع پونچھ (اب باغ) کے قصبہ چمن کوٹ کے قریب ہل سرنگ میں سید فقیر شاہ کے گھر پیدا ہوئے تھے۔ ان کا سن پیدائش 1901ءتھا۔ ۔ سید احمد شاہ گردیزی کو یہ فخر حاصل تھا کہ انہوں نے انتہائی نا مساعد بہ حالات میں تعلیم حاصل کی۔ آپ مولانا محمدعلی جوہر اور مولانا شوکت علی کے قریبی ساتھیوں میں سے تھے اور تحریک خلافت میں انہوں نے بھرپور حصہ لیا تھا اسی طرح آپ برما کے شہروں رنگون اور مانڈلے میں دعوت و تبلیغ کے کاموںمیں مصروف رہے۔

سید احمد شاہ گردیزی نے اپنے علاقے میں آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کی تنظیم قائم کی اور گاﺅں گاﺅں مسلم کانفرنس کا پیغام پہنچایا۔ یہ بات مہاراجہ کو کیسے بھا سکتی تھی ؟ مہاراجہ نے انہیں پہلے تو جاگیر دے کر خریدنے کی کوشش کی لیکن جب وہ زر و مال کے سامنے نہ جھکے تو انہیں کئی بار جیل میں ڈالا گیا ۔ تاہم سید احمد شاہ گردیزی کبھی نہ بک سکے۔

سید احمد شاہ گردیزی نے اپنے علاقے کے مسائل اور لوگوں کے مطالبات اس انداز میں پیش کئے کہ لوگوں کی بند زبانیں کھل گئیں۔ آپ نے برصغیر کے تمام اہم قومی راہنماﺅں اور اخبارات سے رابطہ قائم کیا اور مسلمانوں کی آواز ان تک پہنچائی ۔ ان قومی راہنماﺅں اور اخبارات میں مولانا ظفر علی خان اور ان کے اخبارات شامل تھے ۔ علاوہ ازیں آپ ماہنامہ ”المجاہد“ پونچھ میں بھی لکھتے رہے۔آج کے دور میں قارئین کرام کو شاید اس بات کا اداراک نہ ہو سکے کہ اس زمانے میں اخبارات میں لکھنا کتنا جان جوکھوں کا کام تھا ؟ تنگ دستی اور غربت کے زمانے میں سید احمد شاہ گردیزی کی خدمات جلیلہ اس قابل ہیں کہ انہیں ہمیشہ یاد رکھا جائے ۔

افسوس کہ کشمیری ، تحریک آزادی کا وہ کردار برقرار نہ رکھ سکے جو سید احمد شاہ گردیزی جیسے بزرگوں نے متعین کیا تھا ۔ خاص طور پر کشمیریوں کی پہلی سیاسی جماعت مسلم کانفرنس پر ایسے ایسے لوگ چھا گئے جن کا تحریک آزادی سے دور کا تعلق بھی نہ تھا ۔منزل انہیں ملی جو شریک سفر نہ تھے کے مصداق ایسے لوگوں نے قوم کی نئی نسل کو قوم کے حقیقی محسنوں سے دور رکھنے کی بھرپور کوششیں کیں اس لئے کہ ایسے لوگ جانتے ہیں کہ حقیقی حریت پسندوں سے آگاہ ہونے کے بعد نوجوان نسل ان کے دھوکے میں نہ آسکے ۔

تاہم نوجوان نسل میں اب یہ جذبہ پروان چڑھ رہا ہے کہ قومی محسنوں کی قربانیوں کو یاد رکھا جائے ۔یہی وجہ ہے کہ کسی حکومتی سرپرستی کے بغیر نوجوان نسل نے اپنے محسنوں کی یادیں منانے کا سلسلہ شروع کر دیا ہے ۔ ایسے محسنوںمیں سے ایک سید احمد شاہ گردیزی مرحوم بھی ہیں ۔ ہل سرنگ ، ضلع پانچھ(اب باغ) میں ان کے نام پر ایک ٹورنامنٹ کے علاوہ ایک کل پاکستان مقابلہ مضمون نویسی بھی منعقد ہو چکا ہے ۔ یہ سب کام نوجوانوں نے کئے ہیں ۔ وہ نوجوان جو اپنے محسنوں کی قربانیوں کا احترام کرتے ہیں اور ان سے راہنمائی اور ہدایت حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ سید احمد شاہ گردیزی مرحوم کی ملکیتی زمین میں اب امراض سینہ کا ایک ہسپتال قائم ہے جو چمن کوٹ کے قریب واقع ہے اور جہاں آزاد کشمیر کے کونے کونے سے مریض آتے ہیں ۔ سید احمد شاہ گردیزی کی قبر بھی اسی ہسپتال کے ساتھ مرجع خلائق ہے۔ ہل سرنگ سے کوہالہ متبادل سڑک کو ان سے موسوم کیا گیا ہے ۔
Sardar Muhammad Ashiq Khan
About the Author: Sardar Muhammad Ashiq Khan Read More Articles by Sardar Muhammad Ashiq Khan: 49 Articles with 37523 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.