پنجاب اسمبلی میں جس عہدے پر آج سے چند دن قبل چوہدری
پرویز الٰہی بیٹھے ہوئے تھے آج وہاں پر ایک اور انسان دوست شخص سبطین خان
آچکا ہے دھیمے مزاج کایہ خوبصورت انسان اسی اسمبلی میں وزیر جنگلات بھی رہ
چکا ہے انکی عوامی جدوجہد پر لکھنے سے پہلے انکے پیشرو سابق سپیکر اور
موجودہ وزیر اعلی پنجاب چوہدری پرویز الہی کے چند کاموں کا ذکر کرنا چاہتا
ہوں جس سے عام سرکاری ملازمین میں جو احساس محرومی پایا جاتا تھا وہ کسی حد
تک کم ہو جائیگا بلخصوص شہدا کے خاندان کی پنشن میں چار گنا اضافہ کرنے کے
ساتھ ساتھ انکے بچوں کواچھے سکولوں میں مفت تعلیم دلانے کا بھی اعلان ایسے
خاندانوں کے لیے تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوگا جو اس مہنگائی کے دور میں
غربت کی چکی میں پس رہے ہیں پنجاب حکومت نے شہداء کی فیملی کے بچوں کو ایچی
سن کالج اورگرائمر سکول جیسے اچھے اداروں میں مفت تعلیم اور یونیفارم دلانے
کا اعلان بھی کیا ہے پولیس کارسک الاؤنس بحال کرنے کے ساتھ ساتھ کانسٹیبل
سے لیکر آئی جی تک تمام پولیس کوبقایا جات بھی ملیں گے ٹریفک وارڈنز جو
ہماری پولیس کا خوبصورت چہرہ بھی ہے انکے الاؤنس اور سات وردیاں بھی بحال
کردی گئی ہیں کیونکہ ٹریفک پولیس کا کام صرف چالان کرنا نہیں بلکہ ٹریفک کا
نظم و ضبط بہتر کرنا ہے اسکے ساتھ ساتھ پنجاب بھر میں 150پٹرولنگ پولیس
پوسٹوں کو بحال کرکے انہیں نئی ٹرانسپورٹ مہیا کی جائے گی پولیس کے
ہسپتالوں کوبہتر بنانے اورمفت ادویات کی فراہمی کو بھی یقینی بنا جارہا ہے
پنچایت سسٹم دوبارہ فعال ہونے سے بہت سے مسائل نچلی سطح پرہی حل ہوں جائیں
گے امید ہے چوہدری پرویز الہی پنجاب کے غریب کسانوں کے لیے بھی انقلابی قسم
کے پروگراموں کا بھی اعلان کرینگے تاکہ ایک عام کسان بھی زندگی کی نعمتوں
سے لطف اٹھا سکے خاص کر تعلیم کے حصول کی خاطر اسکے بچوں کو کئی کلومیٹر
پیدل چل کر کسی ایسے سکول میں نہ پہنچنا پڑے جہاں تعلیم کی بجائے جانور
چرانے کی تربیت دی جارہی ہو کیونکہ اگر ہم نے ترقی کرنی ہے اور آگے نکلنا
ہے تو تعلیم کے میدان میں بچوں کی سرپرستی کرنا پڑے گی جیسا کہ میں نے شروع
میں نومنتخب سپیکر سبطین خان کا ذکر کیا تھا تو ان پر جتنا حکومتی نمائندوں
کو اعتماد ہے اتنا ہی اپوزیشن کو ہے وہ ایک سلجھے اور پرانے پارلیمنٹیرین
ہیں گذشتہ روز ہونے والے انتخاب میں سبطین خان185ووٹ لے کرسپیکرپنجاب
اسمبلی منتخب ہوئے تھے اور ان کے مد مقابل مسلم لیگ ن کے امیدوار ملک سیف
الملوک کھوکھرنے 175 ووٹ حاصل کیے 4 ووٹ مسترد ہوئے سپیکر کا یہ انتخاب
خفیہ رائے شماری سے ہوا تھا سپیکر سبطین خان 1958 میں ضلع میانوالی میں
پیدا ہوئے انہوں نے 1982 میں پنجاب یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں ماسٹرز
کی ڈگری حاصل کی اور یہ اب تک چار مرتبہ پنجاب اسمبلی کے رکن منتخب ہوچکے
ہیں 1990 کے عام انتخابات میں حلقہ پی پی 39 (میانوالی-IV) سے 29,582 ووٹ
حاصل کرکے آزاد امیدوار کے طور پررکن منتخب ہوئے انہوں نے اسلامی جمہوری
اتحاد (IJI) کے امیدوار کو شکست دی تھی۔ 1990 سے 1993 تک پنجاب میں صوبائی
وزیر جیل خانہ جات کے طور پر خدمات انجام دیں انہوں نے 1997 کے عام
انتخابات میں اسی حلقہ سے آزاد امیدوار کے طور پر پنجاب کی صوبائی اسمبلی
کی نشست کے لیے انتخاب 15,390 ووٹ حاصل کرکے ناکام رہے 2002 کے عام
انتخابات میں حلقہ پی پی-46 (میانوالی-IV) سے پاکستان مسلم لیگ (ق) کے
امیدوار کے طور پر پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے 36,815 ووٹ حاصل کرکے دوبارہ
منتخب ہوئے جنوری 2003 میں انہیں وزیراعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کی
صوبائی کابینہ میں شامل کر کے کے صوبائی وزیر برائے معدنیات و معدنیات مقرر
کیا گیا جہاں وہ 2007 تک رہے 2008 کے عام انتخابات میں حلقہ پی پی-46
(میانوالی-IV) سے مسلم لیگ (ق) کے امیدوار کے طور پر پنجاب کی صوبائی
اسمبلی کی نشست پر حصہ لیا 27,319 ووٹ حاصل کیے لیکن وہ کامیاب نہیں ہوئے
2013 کے عام انتخابات میں حلقہ پی پی-46 (میانوالی-IV) سے پاکستان تحریک
انصاف (پی ٹی آئی) کے امیدوار کے طور پر پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے لیے ایک
بار پھر منتخب ہوئے 2018 کے انتخابات میں حلقہ پی پی 88 (میانوالی-IV) سے
پی ٹی آئی کی ٹکٹ پر پھر ایمپی اے بن گئے 27 اگست 2018 کو انہیں وزیراعلیٰ
پنجاب سردار عثمان بزدار کی صوبائی کابینہ میں شامل کیا گیا 29 اگست 2018
کو انہیں پنجاب کا صوبائی وزیر برائے جنگلات، جنگلی حیات اور ماہی پروری
مقرر کیا گیا جون 2019 میں انہیں قومی احتساب بیورو لاہور نے بدعنوانی کے
الزام میں گرفتار کیا تھا جس کی وجہ سے انہیں پنجاب کے صوبائی وزیر برائے
جنگلات، جنگلی حیات اور ماہی پروری کے عہدے سے ہٹا دیا گیا مگرجنوری 2020
میں انہیں دوبارہ پنجاب کا صوبائی وزیر برائے جنگلات، جنگلی حیات اور ماہی
پروری مقرر کیا گیا۔27 جولائی 2022 کو پی ٹی آئی نے انہیں پنجاب کی صوبائی
اسمبلی کے اسپیکر کے لیے نامزد کیا جو سابق اسپیکر چوہدری پرویز الٰہی کے
وزارت اعلیٰ کے لیے منتخب ہونے کی وجہ سے خالی ہوئی تھی اسپیکر کے عہدے کا
انتخاب 29 جولائی 2022 کو ہوا، جس میں وہ کامیاب ہوئے جبکہ حالیہ آئینی
بحران کے دوران پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر بھی رہے امید ہے وہ پنجاب
اسمبلی کے تقدس اور وقار کی بحالی میں اپنا کردار ادا کرکے تاریخ میں سنہری
اور انمٹ نقوش چھوڑیں گے ۔
|