ایک خوشخبری یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ کے دوسرے معمر ترین جج
، جسٹس اے ایم کھانوِ لکر سبکدوش ہوگئے۔ یہ خوشخبری اس لیے ہے کہ اپنے
آخری مہینے میں انہوں نے جو تباہی مچائی اس کو دیکھ کر اندیشہ لاحق ہوتا
ہے کہ اگر ان کو کچھ اور موقع ملتا تو نہ جانے کیا کیا کرجاتے؟ اس لیے کہ
عدلیہ اگر مقننہ کو خوش کرنے کے لیے انتظامی احکامات صادر کرنے لگے تو
عدالتی نظام پارہ پارہ ہوجاتا ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ یہ پہلی بار ہورہاہے
لیکن پہلے یہ کبھی کبھار ہوجاتا تھا اس لیے استثنائی کہہ کر نظر انداز کیا
جاسکتا تھا لیکن اب معمول بنتا جارہا ہے۔ چیف جسٹس رنجن گوگوئی کے بعد جسٹس
ارون کمار مشرا اور اب اے ایم کھانوِ لکرچار سال کے اندر یکے بعد دیگرے تین
لوگوں کے ذریعہ یہ مظاہرہ نہایت سنگین صورتحال کا غماز ہے ۔ ان لوگوں نے تو
جسٹس پی این بھگوتی کو شرمندہ کردیا ہے جنھوں نے جنتا پارٹی کے ذریعہ
کانگریس کی ۹؍منتخبہ سرکاروں کے تحلیل کا فیصلہ درست ٹھہرا دیا تھا اور پھر
جب اندرا گاندھی دوبارہ اقتدار میں آئیں تو کفارہ ادا کرنے کے لیے ان کی
ایسی تعریف و توصیف کی اس سے چاپلوس سیاسی رہنما وں کو بھی عار محسوس ہو۔
بابری مسجد کے نہایت غیر منصفانہ فیصلے کے بعد سابق چیف جسٹس رنجن گوگوئی
کو ایوان بالا کی رکنیت سے نواز کر حکومتِ وقت نے یہ عندیہ دیا تھا کہ ایسے
لوگوں کی خدمت رائیگاں نہیں جائے گی بلکہ اس کی خاطر خواہ قدر دانی ہوگی ۔
جسٹس رنجن گوگوئی نے اپنے انعام کو انتظامیہ اور عدلیہ کے درمیان ایک پُل
قرار دیا ۔ ان کے بیان کردہ پُل کو عبور کرکے ایک سال بعد جسٹس اے کے مشرا
انسانی حقوق کمیشن کے سربراہ بن گئے ۔ اس عہدے کو ان کی سبکدوشی کے لیے کچھ
عرصہ خالی رکھا گیا ۔ ارون کمارمشرا کا مسئلہ یہ تھا منموہن سرکار نے
بلاوجہ ان کی ترقی روک دی تھی اس لیے مودی حکومت نے جیسے ہی انہیں سپریم
کورٹ میں بھیجا احسانمندی کے تلے دب کر انہوں نے مودی جی کو مثالی رہنما
قرار دے دیا۔ اسی لیے جج لویا کا معاملہ انہیں دیا گیا مگر تین ججوں کی
کھلی مخالفت کے سبب انہیں ہٹنا پڑا ۔ اس کے بعدجسٹس شرما نے مودی کے منظور
نظر گوتم اڈانی کے حق میں کئی فیصلے کرکے ان کا خوب بھلا کیا ۔ انہوں نے دو
مرتبہ سینئر وکیل گوپال شنکر نارائن کو دھمکی بھی دی۔ اور پھر ججوں کی
بدعنوانی پر کتاب لکھنے کی پاداش میں پرشانت بھوشن سے بھڑ گئے ۔ ان پر ہتک
عزت کا دعویٰ کرکے اپنی بے عزتی کرائی اور رخصت ہونے کے بعد انسانی حقوق کے
کمیشن کی سربراہی کا عہدہ پاکر خوش ہوگئے۔ جسٹس اے ایم کھانوِ لکر نے چونکہ
ارون کمار مشرا سے زیادہ سرکار کی خدمت کی ہے اس لیے وہ بڑے انعام کے حقدار
ہیں۔
امسال فروری میں جسٹس ایم اے کھانوِ لکر نے ایف سی آر آئی یعنی غیر ملکی
چندے سے متعلق قانون میں ترمیم کے مقدمہ میں فیصلہ سنایا کہ غیر ملکی تعاون
حاصل کرنا کوئی بنیادی حق نہیں ہے۔ اس طرح مودی سرکار کی عائد کردہ
پابندیوں کی توثیق فرمادی گئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے ایمنسٹی جیسے اداروں کو
اپنا دفتر بند کرنا پڑا اور اب تو ان پر بڑا جرمانہ بھی لگا دیا گیا ہے۔ اس
کے بعد ذکیہ جعفری معاملہ میں جسٹس کھانوِ لکر کی بینچ نے اول تو وزیر اعظم
مودی کو کلین چٹ دی ۔ اس کے بعد مقدمہ خارج کرتے ہوئے اپنے حدود سے نکل کر
انہوں نے انتظامی احکامات صادر فرمادئیے اور مجرمانہ سازش کا اندیشہ ظاہر
کرکے تفتیش کا حکم دے دیا ۔ اس کا فائدہ اٹھا کر گجرات کی سرکار نے ایس
آئی ٹی تشکیل دےدی نیز تیستا سیتلواد، سری کمار اور سنجیو بھٹ کو گرفتار
کرلیا۔ اس طرح مظلومین کی مدد کرنے والوں کی حوصلہ شکنی کو قانونی حمایت
حاصل ہوگئی۔ جسٹس کھانوِ لکر کا بلڈوزر یہیں نہیں رکا بلکہ انہوں نے چھتیس
گڑھ میں قبائلی طبقہ کے حقوق کی خاطر کام کرنے والے گاندھیائی رہنما ہمانشو
کا مقدمہ خارج کرتے ہوئے ان پر پانچ لاکھ کا جرمانہ لگا دیا ۔ اس سے یہ
اشارہ دیا گیا کہ اگر کوئی سرکار کے خلاف عوام کے حقوق کی بحالی کی خاطر
سپریم کورٹ کا رخ اختیار کرے گا تو اس کی خیر نہیں ۔
مذکورہ بالا متنازع فیصلوں کے بعد لوگ سمجھ رہے تھے کہ اب بہت ہوچکا لیکن
اپنی سبکدوشی سے صرف دو دن قبل ایک ایسا فیصلہ سنا دیا جس سے حکومت وقت کو
گویا انسانی حقوق کے قتل عام کا پروانہ مل گیا۔پرونشن آف منی لانڈرنگ ایکٹ
(PMLA) کے تحت انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ED) کے ذریعہ کی گئی گرفتاری، ضبطی
اور جانچ کے عمل کو چیلنج کرنے والی سو سے زیادہ عرضیاں زیر سماعت تھیں۔ ان
سب کو عدالتِ عظمیٰ میں یکجا کردیا گیا تھا ۔ جسٹس کھانوِ لکر نے جاتے جاتے
اس پر ایک ایسا فیصلہ سنا دیا کہ جس تصور محال تھا ۔ سپریم کورٹ نے واضح
کیا کہ انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ ( ای ڈی) کو منی لانڈرنگ ایکٹ کے تحت گرفتاری
اور سمن جاری کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ جسٹس اے ایم کھانوِ لکر کی قیادت
والی بنچ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ای ڈی کے پاس پریونشن آف منی لانڈرنگ
ایکٹ ( پی ایم ایل اے ) کے تحت تحقیقات اور جائیداد ضبط کرنے کے تمام
اختیارات ہیں۔
سپریم کورٹ کی بنچ نے اعتراف کیا کہ ای ڈی، ایس ایف آئی او اور ڈائریکٹوریٹ
آف ریونیو انٹیلی جنس جیسی تفتیشی ایجنسیاں گو کہ پولیس نہیں ہیں اس کے
باوجود ان کے ذریعہ تحقیقات کے دوران جمع کئے گئے ثبوت حقیقی ہیں۔ سپریم
کورٹ کے مطابق اس ایکٹ کے تحت کسی ملزم کی گرفتاری غلط نہیں ہے۔ یعنی ای ڈی
جانچ کے دوران ضرورت پڑنے پر کسی کوبھی گرفتارکرسکتی ہے اور اس کا ایسا
کرنا غلط نہیں ہے ۔ عدالت نے یہ بھی کہا کہ منی لانڈرنگ کیس میں گرفتار
ہونے والے شخص کو ای ڈی حکام کو یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ انہیں کیوں
گرفتار کیا جا رہا ہے۔ سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ معاملے کی اطلاع رپورٹ (ای
سی آئی آر) کو ایف آئی آر کے ساتھ نہیں جوڑا جاسکتا ہے اور ای سی آئی
آر انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ کا ایک داخلی دستاویز ہے۔ سپریم کورٹ نے واضح
کیا کہ ملزم کو ای سی آئی آر دینا لازمی نہیں ہے اور گرفتاری کے دوران
وجوہات کا انکشاف کرنا ہی کافی ہے۔یعنی انفورسمنٹ ڈائریکٹوریٹ (ای ڈی)
کاگرفتاری کے وقت اس کی بنیاد کا انکشاف کردینا کافی اور مناسب ہے۔
سپریم کورٹ کی توثیق کے بعد اب حکومت کے پاس اپنے مخالفین کو دہشت گرد کی
مانند کچلنے کے سارے اختیارات مل گئے ہیں ۔ ایک ایسا قانون جس کے تحت
عشاریہ پانچ فیصد سے کم معاملات میں جرم ثابت ہوتا ہے اور ننانوے فیصد سے
زیادہ بے قصور لوگوں کومن مانے طریقہ پر جیلوں میں ٹھونس دیاجاتا ہو درست
ہے۔ اس کے تحت ان لوگوں کو بے گھر کرکے کاروبار پر قفل لگا سکتی ہے۔ ای ڈی
کے فیصلوں کو جس ٹریبونل میں چیلنج کیا جاسکتا ہے دو سال سے اس کا کوئی
سربراہ نہیں ہے یعنی اس کے خلاف کوئی شنوائی ممکن نہیں ہے۔ اس معاملےکا سب
سے خطرناک پہلو یہ ہے کہ یہاں عدل و انصاف کا وہ بنیادی اصول بالائے طاق
رکھا گیا ہے جس کے تحت جب تک کسی پر جرم ثابت نہ ہوجائے اس کو بے قصور مانا
جاتا ہے ۔ اب تو جس پر ای ڈی نے ہاتھ ڈال دیا وہ قصور وار ہے۔ ای ڈی اس پر
جو چاہے اوٹ پٹانگ الزام لگائے ان کو غلط ثابت کرنے کی ذمہ داری ملزم پر
ہے۔ ایک ایسے ملزم پر کہ جس کو دباو ڈال کر بیان لکھنے پر مجبور کیا
گیاہواور حسب ضرورت گھریاروزگار چھین لیا گیا ہو۔ اس سے بڑی سرکاری دہشت
گردی اور کیا ہوسکتی ہے؟
سپریم کورٹ کا کام صرف یہ دیکھنا نہیں ہے کہ قانون کے مطابق ای ڈی کو یہ
اختیارات حاصل ہیں یا نہیں بلکہ اسے جاننا چاہیے تھا کہ وہ آئین میں کسی
متعینہ حقوق کو پامال تو نہیں کرتا ؟ اس کے ذریعہ عوام کن مصائب میں گرفتار
اس کا بھی پتہ لگایا جانا چاہیے ۔ عوامی مفادات سے آنکھیں موند کر قانون
کو ٹٹولنا اور اس کے تحت قانونی اختیار کا تعین کردینا کافی نہیں ہے۔ ایوان
پارلیمان میں منظور ہونے والا کوئی قانون اگر عوام کے بنیادی حقوق سلب کرتا
ہے اور حکومت کو انہیں پامال کرنے کی کھلی چھوٹ دیتا ہے تو اس پر لگام
لگانا بھی سپریم کورٹ کی ذمہ داری ہے۔ ملک بھر میں منی لانڈرنگ کا الزام
لگا کر اب تک حزب مخالف کے کئی بڑے رہنماوں کو گھیرا جا چکا ہے۔ ان کے خلاف
معاملات درج کرکے انتقامی کارروائی کی جارہی ہے اور لوگوں کو اپنی پارٹی
چھوڑ کر بی جے پی میں شامل ہونے کے لیے مجبور کیا جارہاہے۔ مہاراشٹر کے
اندر اقتدار کی تبدیلی میں ای ڈی کی دھمکیوں کا سب سے اہم کردار بتایا
جارہا ہے۔ پہلے بدعنوان مخالفین کو دھمکی دی جاتی ہے اور جب وہ اپنی
وفاداری بدل کر کمل تھام لیتے ہیں تو انہیں عام معافی دے دی جاتی ہےاور
چہار جانب اس شعر کی تفسیر نظر آتی ہے؎
حاکم وقت کے قدموں پہ سبھی ابن الوقت
رکھ کے دستار کو سر اپنا بچا لے گئے ہیں
|