کرناٹک کے حجاب مخالف سابق وزیر اور بی جے پی کے سینئر رہنما کے ایس
ایشورپا نے امسال فروری میں پیشنگوئی کی تھی کہ ایک دن آئے گا جب راشٹریہ
سویم سیوک سنگھ کا جھنڈا قومی پرچم بن جائے گا۔ اس کے بعد ان پر رشوت خوری
کا الزام لگا کر ایک ٹھیکیدار نے خودکشی کرلی تو ان کا سنگھاسن ڈولنے لگا۔
ایسے میں انہیں مئی میں پھر سے بھگوا جھنڈے پر پیار آگیا ۔ ایس ایشورپا نے
کہا، ’بھگوا کےتئیں احترام نہ توکل سے ہے اور نہ آج سے ہے۔ ہزاروں سال
پہلے سے اس کا احترام کیا جاتا رہا ہے۔ بھگوا پرچم قربانی کی علامت ہے۔ اس
میں کوئی شک نہیں کہ آر ایس ایس کا جھنڈا ایک دن قومی پرچم بن جائے گا۔ اس
طرح انہوں نے دیش بھگتی کے نقاب میں اپنی بدعنوانی چھپانے کی ناکام کوشش کی
مگر ناکام ہونے کے بعد رسوا ہوکر رخصت ہوئے۔ ایشورپا کے مطابق قربانی کے
جذبے کو بڑھانے کے لیے آر ایس ایس بھگوا جھنڈا سامنے رکھ کر پوجا کی کرتی
ہے۔ آئین کے مطابق ترنگا قومی پرچم ہے مگر ہم اسے وہ احترام دیتے ہیں جو
ترنگے کو ملنا چاہیے۔ خیر بھگوا جھنڈا تو قومی پرچم نہیں بن سکا مگر آر
ایس ایس نے اسے قربان کرکے ترنگا پرچم کو علی الاعلان اپنا لیا ۔ اب بیچارے
ایشورپاّ جیسے بھگوا پریمیوں پر کیا گزر رہی ہوگی اس کا اندازہ لگانا مشکل
نہیں ہے۔
یہ عجب اتفاق ہے اس سے قبل جب اٹل بہاری واجپائی کی حکومت قائم ہوئی تو
پہلی بار آر ایس ایس نے اپنے مرکزی دفتر پر ترنگا لہرایا ۔ اب جبکہ نریندر
مودی کے ہاتھوں میں اقتدار ہے تو یوم آزادی سے قبل راشٹریہ سویم سیوک سنگھ
نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس کی پروفائل پر روایتی بھگوا جھنڈے کو ترنگے سے
بدل دیا۔ وزیر اعظم نریندر مودی نے یوں تو عوامی فلاح و بہبود کا کوئی
قابلِ ذکر کام نہیں کیا لیکن سنگھ کا مکھوٹا ضرور بدل دیا۔ وزیر اعظم
نریندر مودی کی اپیل پر آر ایس ایس سربراہ موہن بھاگوت نے بھی اپنے ٹوئٹر
اکاؤنٹ پر ترنگے کی تصویر ڈالی ہے ۔ کانگریس کے جنرل سکریٹری جے رام رمیش
نے سنگھ کے حوالے سے یہ سوال کیا تھا کہ کیا وہ وزیر اعظم کے ذریعہ ترنگا
لہرانے کی درخواست کو مانے گی؟ اس کے دباو میں آکر سنگھ پروپگنڈا انچارج
نریندر ٹھاکر نے کہا کہ آر ایس ایس اپنے تمام دفاتر میں قومی پرچم لہرا کر
یوم آزادی کا جشن منا رہا ہے۔ ٹھاکر نے کہا کہ آر ایس ایس کے کارکن ‘ہر گھر
ترنگا’ مہم میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔ مہاراشٹر میں جب دیویندر فڈنویس
نائب وزیر اعلیٰ بنایا گیا بی جے پی مہاراشٹر کے صدر چندر کانت پاٹل نے کہا
تھا ہم نے دل پر پتھر رکھ کر یہ فیصلہ قبول کیا ۔ اب یہ دیکھنا ہے کہ سنگھ
نے اس بھگوا کو ترنگا سے بدلنے کی خاطر کتنا بڑا پتھر دل پر رکھا۔
آرایس ایس کے اس فیصلے سے جن لوگوں کو یہ غلط فہمی پیدا ہوگئی کہ پورے
ہندو سماج نے ترنگا کو اپنا لیا ہے تو اسے یوگی جی کے اترپردیش میں واقع
ڈاسنا دیوی مندر کے پیٹھادھیشور اور جونا اکھاڑے کے مہامنڈلیشور یتی
نرسنگھانند گری نے اپنی مخالفت سے دور کردی ۔ انھوں نے ہندوؤں سے اپیل کی
ہے کہ وہ ’ہر گھر ترنگا ‘مہم کا بائیکاٹ کریں۔ یتی نرسنگھا نند ایک ویڈیو
پیغام میں کہا ’’ترنگے کا بائیکاٹ کرو، کیونکہ اس ترنگے نے تمھیں ہی برباد
کر دیا ہے۔ ہر ہندو کے گھر پر ہمیشہ بھگوا پرچم ہونا چاہیے‘‘۔سرکاری مہم کے
خلاف مہامنڈلیشور فرماتے ہیں ’’اس ملک میں ترنگے کے نام پر ایک بہت بڑی مہم
چل رہی ہے۔ یہ مہم ہندوستان کی برسراقتدار پارٹی چلوا رہی ہے۔ ترنگے بنانے
کا سب سے بڑا آرڈر بنگال کی ایک ایسی کمپنی کو دیا گیا ہے جس کا مالک صلاح
الدین نام کا ایک مسلمان ہے۔‘‘ اس پر اپنی شدید ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے
موصوف نے کہا کہ دنیا کے سب سے بڑے پاکھنڈی ہندو ہیں۔ ہندوؤں کے دلال
مسلمانوں کے معاشی بائیکاٹ کی بات کرتے ہیں، وہ چیخ چیخ کر کہتے ہیں کہ
ہندوؤں کو مسلمانوں کا معاشی بائیکاٹ کرنا چاہیے، لیکن حکومت بننے کے بعد
وہ سرکاری ٹھیکے بھی مسلمانوں کو دے دیتے ہیں۔ یہ مہم ہندوؤں کے خلاف سازش
ہے۔ ہندوؤ! اگر زندہ رہنا ہے تو مسلمانوں کو پیسے دینے والی اس مہم کا
بائیکاٹ کرو۔گھر پر ترنگا لگانا ہے تو کوئی پرانا ترنگا لگا لو، لیکن اس
طرح سے صلاح الدین کو ایک پیسہ بھی مت دو۔‘‘
نرسنگھانند گری نے زہر افشانی کرتے ہوئے کہا کہ’’ان لیڈروں کو سبق
سکھاؤ‘‘۔ یہاں جن رہنماوں کو منافق کہہ کر سبق سکھانے کی ترغیب دی جارہی
ہے ان میں مودی ، شاہ اور یوگی سب شامل ہیں ۔ اس کے باوجود یتی نرسنگھا نند
کے اوپر نہ تو یو اے پی اے لگتا ہے اور نہ اس کے اکھاڑے پر بلڈوزر چلتا ہے
۔ سوال یہ ہے کہ اپنے آپ کو مہا شکتی مان سمجھنے والے کو نرسنگھا نند سے
اتنا ڈر کیوں لگتا ہے؟ قومی پرچم لہرانے کی مہم کا ایک اور دلچسپ موڑ
شرومنی اکالی دل (امرتسر ) کے نو منتخبہ رکن پارلیمان سمرنجیت سنگھ مان کے
حالیہ بیان سے آیا۔ موصوف نے سکھوں سے 15؍ اگست کو یوم آزادی کے موقع پر
قومی پرچم ’ترنگا‘ کے بجائے اپنے گھروں پر کیسریا پرچم لہرانے کی اپیل کردی
۔ ملک کی مشہور خبر رساں ایجنسی ’آئی اے این ایس‘ کے مطابق انھوں نے اپنے
ایک بیان میں کہا کہ لوگ 14؍ اور 15؍ اگست کو اپنے گھروں پر کیسریا پرچم
یعنی نشان صاحب کی پرچم کشائی کریں۔ ں کیجریوال اور مان دونوں بھی 15؍ اگست
کے ساتھ 14؍ اگست کو بھی قومی پرچم لہرانے کی ترغیب دیتے ہیں جو اتفاق سے
پاکستان کا قومی دن ہے۔
یہ حسن اتفاق ہے کہ کسان تحریک کے دوران یوم جمہوریہ کے موقع پرسکھوں کی
یہی مذہبی علامت پرچم نشان صاحب کو کچھ لوگوں نے لال قلعہ پر لہرا دیا تھا
۔ خالصتان کا پرچم بھی چونکہ نشان صاحب سے مماثل ہے اس لیے اسے ابتداء میں
خالصتانی جھنڈا کہا گیا مگر بعد میں سرکاری ذرائع نے اس کی تردید کی۔ دراصل
اس سازش کا مقصد ہی کسان تحریک کو خالصتان کی حامی قرار دے کر بدنام کرنا
تھا ورنہ کیا مجال تھی وزیر داخلہ امیت شاہ کی دہلی پولیس کے ہوتے وہ سانحہ
رونما ہوتا ۔ یوم جمہوریہ کے موقع پر لال قلعہ کی فصیل کے اوپر خالصتانی
پرچم لہرا نے والے فلمی اداکار دیپ سدھو کے ساتھ حکومت کی نرمی اشارہ کرتی
ہے کہ وہ ان کا خاص آدمی تھا اور اپنے آقاوں کے ایماء پراس نے یہ حرکت کی
تھی ۔ ویسے دیپ سدھو کی تصاویر نہ صرف پنجاب کے بی جے پی رکن پارلیمان سنی
دیول بلکہ وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ بھی ذرائع ابلاغ کی زینت بن چکی
تھی ۔
دیپ سدھو کے علاوہ اس سازش کو بروئے کار لانے کی خاطر ایک پیشہ ور مجرم
لکھا سدھانہ کی بھی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔ دہلی پولیس کے مطابق لکھبیر
سنگھ عرف لکھا سدھانا پنجاب کا ایک گینگسٹر ہے۔ لکھاسدھانہ پر اشتعال انگیز
تقریر کرکے لوگوں کو اکسانے کا الزام بھی لگایا گیا۔ ان سنگین الزامات کے
باوجود اس قومی سانحہ کے پانچ ماہ بعد 17؍ستمبر کو خاموشی کے ساتھ دہلی کی
روہنی عدالت نے لال قلعہ تشدد کے اس مرکزی ملزم کی پیشگی ضمانت پررہا کردیا
جو سرکاری عنایت و سرپرستی کامنہ بولتا ثبوت تھا ۔ اس سے بہت پہلے 26؍
اپریل 2021کو دہلی کے میٹرو پولیٹن مجسٹریٹ دیپ سدھو کو 25 ہزار روپے کے
ذاتی مچلکے اور اتنی ہی ضمانتی رقم پر رہا کر چکے تھے۔ ایسے میں بی جے پی
کس منہ سے سمرنجیت سنگھ مان کی مخالفت کرسکتی ہے۔ مودی حکومت کا المیہ یہ
ہے کہ یہ بڑے طمطراق سے کسی قانون ، اسکیم یا مہم کا اعلان کرتی ہے اور بہت
جلد وہ تنازعات کا شکار ہوجاتی ہے۔
شہری قانون میں ترمیم اس کی سب بڑی مثال ہے ۔ اس کے تحت پڑوسی ممالک کے
مظلوم اقلیتوں کو شہریت دینے کی سہولت ایک اچھی چیز تھی لیکن اس میں ڈنڈی
مارنے کی کوشش نے سارا کھیل بگاڑ دیا ۔ اس خیال سے کہ کہیں مسلمان اقلیتیں
اس کا فائدہ نہ اٹھانے پائیں چین، سری لنکا اور میانمار جیسے پڑوسیوں کو
الگ کردیا گیا مگر افغانستان تک کو اس میں شامل رکھا گیا ۔ اقلیتوں کی
مذہبی فہرست جاری کرکے اس میں سے اسلام کوخارج کردیا گیا اور کرونولوجی
بیان کرکے شرارتاً این آر سی کو اس سے جوڑ ا گیا۔ سی اے اے میں ان تحفظات
کی چنداں ضرورت نہیں تھی کیونکہ جن ممالک کے نام تھے وہاں مسلمان اقلیت میں
نہیں تھے اوراگر دیگر ہم سایہ ملکوں کو شامل کیا جاتا تب بھی شاید ہی کوئی
مسلمان مودی یگ میں یہاں آنے کی حماقت کرتا ۔ اس کے علاوہ این آر سی کو
اس سے جوڑنے کا مقصد ہی شکوک و شبہات پیدا کرنا تھا حالانکہ ایک طرف وزیر
داخلہ اس پر زور دے رہے تھے اور دوسری جانب وزیر اعظم اسے کھلے عام نظر
انداز کردیا تھا۔ اس طرح ایک غیر ضروری تنازع پیدا کرکے حکومت نے اپنی
رسوائی کا سامان کیا جبکہ اس قانون کے نفاذ کی خاطر مطلوبہ ضابطے ہنوز وضع
نہیں ہوئے۔
یہ تو خیر مسلمانوں کا معاملہ ہے کسانوں کے معاملے میں ان لوگوں نے ان کے
نام نہاد فلاح و بہبود کی خاطر جو قوانین وضع کیے اس کے خلاف ایک ملک گیر
تحریک چل پڑی اور بالآخر حکومت کو رسوا ہوکر اسے واپس لینا پڑا۔ کسانوں کے
بعد جوانوں کو ناراض کرنے والی اگنی پتھ کے خلاف بھی متوقع اگنی ویروں کو
میدان میں اترنا پڑا۔ اس محض چار سال کی عارضی ملازمت اور پھر بغیر پنشن
اور کسی سرکاری سہولت کے بغیر 75؍ فیصد اگنی ویروں کو بیروزگاری کے دلدل
میں جھونکنے کی اسکیم پر ملک بھر میں احتجاج ہوئے۔ اس میں کروڈوں کی سرکاری
املاک کو نقصان پہنچایا گیا اور کئی نوجوان ہلاک ہوئے ۔ اس طرح کسانوں کے
ساتھ جوانوں کو بھی حکومت نے ناراض کیا ۔ اس تحریک کو چونکہ دوام نہیں مل
سکالہٰذہ حکومت اسے واپس لینے کی ہزیمت سے بچ گئی۔ اب یہ حکومت کا تیسرا
خود ساختہ تنازع ہے۔ ویسے لاکھ اختلاف کے باوجود سمرنجیت سنگھ مان کا یہ
ٹویٹ قابلِ توجہ ہے کہ : ’’ہندوستان کی ’75 ویں سالگرہ پر جھنڈا لہرانے سے
زیادہ بہتر خراج تحسین چین سے لداخ کو آزاد کروانا ہے۔ اس کے علاوہ غریبوں
کو کھانا اور رہائش فراہم کریں۔ اگر نینسی پیلوسی ایسا کر سکتی ہیں تو
سیاستداں اور جرنیل بھی کر سکتے ہیں۔‘‘ ہر گھر ترنگا مہم کی مخلافت کرکے
یتی نرسنگھانند اور سمرنجیت سنگھ مان نے آر ایس ایس کی حمایت کے اثرات کو
زائل کردیا ۔
(۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)
|