75 ؍ واں جشن: اچھل رہا ہے زمانے میں نام آزادی

حب الوطنی ایک فطری جذبہ ہے۔ انسان جس ملک میں رہتا ہے وہاں کے باشندوں سے محبت کرتا ہے۔ اس جذبے کو پیدا کرنے کے لیے کسی مہم کی چنداں ضرورت نہیں ہے لیکن جو لوگ اپنی ہی عوام کے دشمن ہیں ان کو جعلی حب الوطنی ثابت کرنے کے لیے ایسی مہمات کی ضرورت پیش آتی ہے۔ اس طرح کی علامتی سرگرمیوں سے ان کی ملک دشمنی پر پردہ پڑ جاتا ہے۔ اس ملک کے لوگ آزادی کہ جدو جہد کے دوران ہی ترنگا لہرانے لگے تھے۔ تحریک آزادی ہند کی ایک سرگرم کارکن ارونا آصف علی نے 1942 میں ہندوستان چھوڑ دو تحریک کے دوران گووالیا ٹینک میدان، ممبئی میں ترنگا لہرایا اور آزدی کے بعد انہیں دہلی کی پہلی میئر بننے کا شرف حاصل ہوا ۔ اس تحریک سے الگ تھلگ سنگھ پریوار چونکہ انگریزوں کا حلیف بنا ہوا تھا اور ساورکر انگریزی سرکار سے وفاداری کا عہد کرکے رہا ہوئے تھے اس لیے ان دونوں نے مجبوراً گیروا پرچم تھام رکھا تھا ۔ آزادی کے بعد بھی سنگھ کا اعتراض یہ تھا کہ تین ایک منحوس عدد ہے اس لیے پرچم میں تین رنگ مناسب نہیں ہے۔ یہ زبانی اعتراض نہیں تھا بلکہ 2001تک ناگپور میں واقع سنگھ کے دفتر پر قومی پرچم نہیں لہرایا گیا۔

قومی پرچم حکمرانوں کے فکری رحجانات کا غماز ہوتا ہے۔ ہندوستان کے قومی پرچم میں تین رنگوں سے متعلق ایک بات تو یہ کہی جاتی ہے سرخ رنگ انقلاب یعنی انگریزوں سے آزادی ، سفید رنگ امن اور سبز خوشحالی کی علامت ہے۔ اسی طرح یہ بھی سمجھا جاتا ہے کہ سرخ ہندووں ، سبز مسلمانوں اور سفید دیگر اقلیتوں کی علامت ہے۔ اس ملک میں مسلمانوں کے علاوہ عیسائی ، سکھ، پارسی ،بودھ، جین ، لنگایت ، قبائلی مذاہب جیسے کئی طبقات اپنے آپ کو ہندو نہیں مانتے اور یکساں اسحقاق رکھتے ہے۔ اس فکر کے برعکس ملک پر ہندووں کی اجارہ داری کا قائل آر ایس ایس کے جھنڈے پر صرف گیروا رنگ ہے ۔ اس کے بطن سے بھارتیہ جن سنگھ نکلی تو اس کا پرچم بھی خالص زعفرانی تھا ۔ سارے لوگوں کو قومی دھارے میں شامل کرنے کی جب بات ہوتی تو لوگ سمجھتے تھے کہ یہ مسلمانوں سے متعلق ہے حالانکہ وہ تو پہلے ہی موجود تھے ۔ اس کا مخاطب دراصل اپنی الگ ڈفلی بجانے والا سنگھ پریوار تھا ۔ ہر گھر ترنگا کے ذریعہ دانستہ یا نادانستہ اسے قومی دھارے میں شامل کرنے کی کامیاب کوشش کی گئی ہے۔
اس عمل کی ابتداء ایمرجنسی کے زمانے میں ہوئی جبکہ جنتا پارٹی میں جن سنگھ ضم ہوگئی ۔ ڈھائی سال بعد جب بھارتیہ جنتا پارٹی کے نام سے اس کا پونر جنم ہوا تو اس کے پرچم میں زعفرانی کے ساتھ سبز رنگ شامل ہوگیا تھا ۔ اٹل جی جب بر سرِ اقتدار آئے تو سنگھ نے اپنے صدر دفتر پر پہلی بار ترنگا لہرا کر اس عمل کو آگے بڑھایا مگر خلش موجود تھی ۔ وزیر اعظم مودی سمیت اکثر بی جے پی رہنماوں نے اپنے ڈی پی کو ترنگے سے بدلا تو حزب اختلاف نے سنگھ پر اعتراض کیا۔ اس کے دباو میں آکر 13؍ اگست کو آر ایس ایس نے اپنے ڈی پی پر بھگوا کو ترنگا سے بدل دیا ۔ مودی سرکار اگریہ اعلان کرتی کہ ہر گھر میں بھگوا پرچم لہرایا جائے تو یہ تاخیر نہیں ہوتی بلکہ سنگھ والے اس پر عمل کرتے خیر ’ہر گھر ترنگا ‘ نامی مہم کی بدولت سنگھ پریوار نصف صدی کے بعد بادلِ نخواستہ سہی قومی دھارے میں شامل تو ہوہی گیا ۔ یہی 75؍ویں یوم آزادی کے جشن کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔

ایک زمانے میں یہ مودی سرکار آزادی کا لفظ سنتے ہی چڑ جایا کرتی تھی ۔ کنھیا کمار اور عمر خالد وغیرہ کو آزادی کا نعرہ لگانے کے سبب نہ صرف گرفتار بلکہ عدالت کے اندر زدوکوب بھی کیا گیا ۔ اب یہ لوگ خود زور و شور سے آزادی کاا مرت مہوتسو( 75؍واں جشن ) منار ہے ہیں ۔ یہ علامتی حب الوطنی کورونا کو بھگانے کی خاطر تالی بجانے اور تھالی پیٹنے جیسی ہی ہے۔ اُس موقع پر جوش میں آکر مودی بھگتوں نے نہ صرف تالی اور تھالی پیٹی بلکہ گربا ناچ بھی کیا ۔ اس کے نتیجے میں کورونا کا اثر کم ہونے کے بجائے بڑھ گیا ۔ گھر گھر ترنگا کے بعد حب الوطنی میں اضافہ تو نہیں ہوگا ہاں پرچم بنانے والی ہندی اور چینی کمپنیوں اور اسے درآمد کرکے بیچنے والے تاجروں کی تجوریاں پھول کُپاّ ضرور ہو گئیں ۔ 15؍ اگست 1947 کو ہندوستا ن انگریزوں کی غلامی سے آزاد ہوگیا ۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو یوم آزادی کی 75 ویں سالگرہ پچھلے سال تھی لیکن حکومتِ وقت نے ایک دن کے بجائے پورا سال آزادی کا جشن یعنی ’آزادی کا امرت مہوتسو‘منانے کا اعلان کردیا ۔

یہ قدرت کی ستم ظریفی ہے کہ آزادی کے اس جشن کی قیادت ان نظریات کے حامل لوگ کررہے ہیں جنھوں نے انگریزوں کے خلاف جدو جہد سے گریز کیا اورآزادی کے بعد برسوں تک قومی پرچم لہرانے کے روادار نہیں تھے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی چونکہ جشن و تقریب ((event management کے شوقین ہیں اس لیے ہر مرتبہ کچھ نہ کچھ نیا کرنا چاہتے ہیں۔ گزشتہ سال لال قلعہ کی فصیل سے ترنگا لہرا نے اور قوم سے خطاب کرنے کے ساتھ پہلی بارجشن ِ آزادی کے دوران ہندوستانی فضائیہ کے دو ایم آئی-17 1 وی ہیلی کاپٹر نےتقریب گاہ کے اوپر پھول برسائے۔ اس سے قبل کورونا سے مقابلہ کرنے والے ڈاکٹروں اور طبی عملہ کے ساتھ بھی یہ کیا گیا تھا لیکن اس کے بعد ان لوگوں کو سڑک پر اتر کر ہڑتال کرنا پڑا کیونکہ انہیں کئی ماہ سے تنخواہ نہیں دی گئی تھی۔ اس مظاہرے کی ضرورت راجدھانی دہلی کے ڈاکٹروں کو بھی پیش آئی ۔ اس سے ان دکھاوے کے کاموں کی حقیقت کا پول کھل جاتا ہے؟

بی جے پی نے سنگھ پریوار کے دامن سے آزادی کی جدوجہد میں شامل نہیں ہونے کا داغ دھونے کی خاطر75 ہفتہ پہلے سے جشن آزادی کی تقریبات منانے کا فیصلہ کیا ۔ اس کے افتتاح کی خاطر وزیر اعظم نریندر مودی کو دہلی کا راج گھاٹ یاد نہیں آیا کیونکہ اس سے ہندوستان کے اولین سب سے بڑے دہشت گرد ناتھو رام گوڈسے کی تاریخ وابستہ ہے اور اسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ یہی وجہ ہے کہ انہوں نے آزادی کی 75 ویں سالگرہ کے جشن کا افتتاح کرنےکے لیے مارچ 2021 کوگجرات میں واقع احمد آباد کے سابرمتی آشرم کا انتخاب کیا اور یہ بتایا کہ یہ تقریب 15 اگست، 2023 تک جاری رہے گی۔ آزادی کے امرت مہوتسو کے آغاز میں کی جانے والی وزیر اعظم کی تقریر ان کے اندر موجود مسلم دشمنی کا کھلا ثبوت ہے۔ اسی تنگ نظری پر قابو پانے کے لیے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے مودی جی کو راج دھرم کا پالن کرنے کی تلقین کی تھی لیکن اس تقریر کو سننے کے بعد احساس ہوتا ہے کہ وہ مشورہ صدا بہ صحرا ثابت ہوا۔

وزیر اعظم نے آزادی کی جدوجہد کے اہم لمحات جیسے 1857میں ہندوستان کی آزادی کیلئے پہلی جنگ کا ذکر تو کیا مگر یہ بتانا بھول گئے کہ یہ جنگ بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں لڑی گئی تھی اور ان کے خاندان نے اس میں عظیم قربانیاں دی تھیں۔ گاندھی جی کی بیرون ملک سے واپسی کا ذکر تو کیا لیکن مولانا محمد علی جوہر کے عظیم کارنامہ کو نظر انداز کردیا ۔ لوک مانیہ تلک اور نیتا جی سبھاش چندر بوس تو انہیں یاد آئے مگر مولانا آزاد اور مولانا حسرت موہانی کا خیال نہیں آیا۔ بھکتی تحریک کو زبردستی آزادی کی تحریک قرار دینے والے مودی جی کو خلافت تحریک کی یاد نہیں آئی۔ تمل ناڈو کے ویلو ناچیارکے بارے میں انہوں نے بتایا کہ وہ برطانوی سامراج کے خلاف جنگ لڑنے والی پہلی مہارانی تھیں لیکن کرناٹک میں انگریزوں سے لوہا لینے والے ٹیپو سلطان کے کارنامہ کو وہ گول کرگئے۔ وزیر اعظم نے جھارکھنڈ میں ، برسا منڈا اور مرمو بھائی کی سنتھال تحریک کی پذیرائی کی مگر ریشمی رومال تحریک چلانے والے سیکڑوں مجاہدین آزادی کو خراج عقیدت نہیں پیش کرسکے ۔ اس طرح گویا یکطرفہ حقائق کو پیش کرنے کا جرم خود وزیر اعظم کی تنگ نظری سے سرزد ہوا۔ اس کے باوجود آر ایس ایس یا ہندو مہا سبھا کے ایک بھی فرد کا نام اپنی زبان پر نہیں لاسکے کیونکہ ان لوگوں نے تو انگریزوں کا بلواسطہ یا بلا واسطہ تعاون کیا تھا۔

وزیر اعظم ہر ماہ آل انڈیا ریڈیو پر اپنے من کی بات لوگوں کو سناتے ہیں ۔ اس بار انہوں نے فرمایا کہ ہندوستان کا قومی پرچم پورے ملک کے لیے قومی فخر کی ایک علامت ہے۔ وزیر اعظم کو یہ انکشاف کرنے کی چنداں ضرورت نہیں اس لیے کہ ملک کا ہر شہری اس سے واقف ہے۔ انہوں نے کہا ہمارے قومی پرچم کو اعزاز بخشنے کے لیے ملک بھر میں ’ہر گھر ترنگا‘ پروگرام کاانعقاد کیا جارہا ہے۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ اس سے پہلے قومی پرچم اعزاز سے محروم تھا حالانکہ یہ خلافِ حقیقت بات ہے۔ وزیر اعظم کے مطابق ملک کی آزادی کے 75 برس مکمل ہونے پر اپنے گھر ترنگا لگانے سے نہ صرف اس کے ساتھ ایک ذاتی رشتہ قائم ہوتا ہے بلکہ ملک کی تعمیر کی خاطر ہمارے عہد کا بھی ثبوت ہے۔اس طرح کے ظاہری عمل سے ہر بدعنوان ملک دشمن پچیس روپیہ کا پرچم اپنے گھر پر لگا کر خود کو دیش بھگت ثابت کرسکتا ہے۔ویسے دنگا کرنے والوں ہاتھوں میں ترنگا کچھ عجیب سا لگتا ہے۔ ہرہر مہادیو کا نعرہ لگانے والے جب ہر گھر میں ترنگا کی بات کرتے ہیں تو عوام کو حیرت ہوتی ہے۔ وندے ماترم گانے والے سنگھ پریوار کی زبان پراگر ’ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا‘ ہوتو یہ دیر آید درست آید کی مصداق ہے۔ بھگوا سے ترنگا کی جانب رجعت پر عندلیب شادانی کا یہ شعر سنگھ کی نذر ہے؎
دیر لگی آنے میں تم کو شکر ہے پھر بھی آئے تو
آس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا ویسے ہم گھبرائے تو
(۰۰۰۰۰۰۰۰۰جاری)

 

Salim
About the Author: Salim Read More Articles by Salim: 2124 Articles with 1449941 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.