جمہوریت کے سینے میں چھپا خوف اور گلی محلوں کے الجھتے مسائل

ایک عرصہ طویل گزر گیا روتے دھوتے دیکھتے ہیں سیاسی جماعتوں کو کہ آمرانہ دور تباہ کرگیا ملک کو کوئی ترقیاتی کام نہیں ہوۓ عوام کے حقوق سلب ہوۓ بنیادی انسانی حقوق کی پامالی ہوتی رہی۔ اس واویلے اور راگ الاپنے کے پیچھے جو بنیادیسوچ ہے وہ صرف اس طرح فرق کرتی ہے کہ وردی آمرانہ انداز حکمرانی ہے اور شیروانییا سوٹ کا پہننے والا جمہوری طرز حکمرانی کا عکاس ہے۔ یہی ہم پوری قوم کو سجھاتے اور بتاتے رہتے ہیں۔ اس پروپیکنڈے میں سول سوسائٹی میڈیا وکلا برادری اور اشرافیہ سب شامل ہوتے ہیں۔ ویسے تو شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال کو قومی شاعر اور مفکر مانا جاتا ہے مگر جو وہ جمہوریت کے لیۓ خیالات کا اظہار کرتے رہے اس سے ہم صرف نظر کرتے رھے ہیں۔ اگر واقعی ہمارے ان جمہوریت کے دعوے داروں کے ذہن میں تھوڑا سا بھی جمہوریت کا وہ نقشہ ہوتا جس کی تقلید دنیا کے بیشتر جمہوری حکومتیں کرتی ہیں تو بھی ہم اس گرداب میں نہ پھنسے ہوتے جس میں اسوقت ہیں۔ مگر ایک بات جو سمجھ آتی ہے وہ یہ کہ آمرانہ نظام اپنی بقا اسی میں سمجھتا رھا ہے کہ وہ عوام کو یہ احساس دلاۓ کہ ہمیں ان کی فکر ہے اور اس نظرۓ کے تحت وہ گراس روٹ پر وہ کام کرتے ہیں کہ لوگوں کو مطمئین کرسکیں۔ سیاستدانوں کو وہ توڑ کر اپنی ٹیم میں شامل کر کے کام چلاتے ہیں اور اس حکمت عملی میں بہت کامیاب بھی ہیں۔ عوام بھی ان کے لیۓ بہت زیادہ برے جزبات یوں نہیں رکھتی کہ ان کا اقتدار میں آنا سبب بنتا ہے جمہوریت کے دعویداروں کی بد عملیوں اور عدم برداشت اور لڑائی جھگڑے ۔ اگر صرف پچھلے پچاس سال دیکھ لیں تو ہمیں اندازہ ہو گا کہ ضیاء دور مارشل لاء میں تین بار بلدیاتی حکومتوں کے لیۓ اتخابات ہوۓ اور اسی طرح مشرف کے دور میں دو بار یہ سلسلہ بنا۔ اور سچی بات یہ ہے کہ جب اس سطح پر کوئی نظام موجود ہوتا ہے تو عوام الناس کے بہت سے مسائل نہ صرف حل ہو جاتے ہیں بلکہ انکو محلے کی سطح پر اپنی نمائندگی کا احساس ہوتا ہے۔ انکو اپنے مسائل میں دلچسپی لینے والا محلے میں ہی مل جاتا ہے اور وہ ایک حد تک آپس میں واقف ہوتے ہیں۔ اس بات سے انکار نہیں کہ ان ادوار میں بہت سی بیضابطگیاں بھی ہوئیں ان حکومتوں میں مگر اس کے ذمہ دار ان سے اونچی سطح کی انتظامیہ رہی کہ جس نے احسن طریقہ سے ان کا احتساب کیوں نہ کیا۔ جب یہ احساس ختم ہوجاۓ کہ کوئی ہمارا پوچھنے والا ہے تو جرم کرنے والا بے خوف ہو جاتا ہے۔ یہی ان ادوار کامسئلہ رھا۔ اب جمہوری حکومتوں کے اعمال دیکھیں ان کے دور حکومت میں عدالتیں فیصلہ دے رہی ہیں کہ بلدیاتی انتخابات کراؤ ورنہ اپنی خیر مناؤ لہزا مرتا کیا نہ کرتا کے مصداق ان جمہوری حکومتوں کو انتخابات کروانے پڑتے ہیں۔ یہ بیدلی سے کۓ جانے والے اقدامات سب پر عیاں ہیں۔ کسی ایک صوبے یا شہر کی بات نہیں۔ کوئیمکینزم ہی نہیں وہ جو نظام کام کررھا ھوتا ہے تباہ کردیا جاتا ہے ترمیمات کرکے۔ ایسا ہوتا کیوں ہے؟ یہ ایک انجانا خوف ہوتا ہے جو ان براۓ نام جمہوری حکومتوں کو ہوتا ہے۔ اپنے غیر مقبول ہو جانے کا خوف اور یہ خوف کہ کہیں دوسری پارٹی کا ناظم یا مئیر منتخب نہ ہو جاۓ اور ہم سے بہتر کام کرجاۓ اور سراھا جاۓ۔ ایک خوف یہ کہ عوام کے سامنے ہماری کوئی وقعت نہیں رہے گی ہماری اہمیت کم ہو جائیگی ہمارے فنڈذ کم ہو جائیں گے کیونکہ ان کا ایک حصہ تو یہ نمائندے گے لیں گے۔ اس طرح کے نہ جانے کتنے اندیشے ان جمہوری حکومتوں کے کے دل و دماغ میں پل رہے ہو تے ہیں۔ یہ خوف ان کو دور رکھتا ہے اس نظام کو مظبوط بنانے سے۔ شہری سطح پر یا بلدیاتی نظام ان جمہوری حکومتوں کے لیۓ کتنا مفید ہو سکتا ہے ان کی سوچ وھاں تک پہنچتی ہی نہیں۔ ان کا کام کتنا آسان ہو جأئیگا اور کتنے مسئلے مسائل نیچے ہی حل ہو جائینگے اس پر یہ غور ہی نہیں کرتے۔ ایک گھر میں بھی ماں کام کر کر کے تھکتی ہے تو بیٹییا بہو کی صورت میں ایک مددگار دیکھتی ہے۔ اسی طرح دفتری نظام میں ہم کام کی زیادتی کو بہتر انداز سے سنبھالنے کے لیۓ کام کرنے والوں کی تعداد بڑھانے پر مجبور ہوتے ہیں اچھے نتائج کے لیۓ تو یہ تو کاروبار مملکت ہے اس نظام کو اور مربوط و مظبوط ہونا چاہیۓ۔ ایک بہترین نظام وفاقی صوبائی اور پھر نچلی سطح پر شہری حکومتیں کامیابی کی ضمانت ہوتی ہیں۔ ہماری جمہوری حکومتوں کو موازنہ کرنا چاہیۓ جو حقیقت پسندانہ ہو کہ کس طرز حکومت میںیہ نظام زیادہ کامیابی سے ہمکنار ہوا۔ صرف انجانے خوف ہمکو بہت نقصان پہنچارہے ہیں اتنی لمبی تمہیدیا گفتگو کا سبب بنی ہے اس وقت ناگفتہ بہ صورتحال پاکستان کے تمام شہروں خاص طور پر کراچی جہاں بارش کی وجہ سے تباہی پھیلی ہوئی ہے۔ اللہ کی رحمت کو زحمت میں بدلنے کے لیۓ ہم نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ سالوں سنتے رہتے ہیں نالے صاف ہو رہے ہیں تجاوزات ہٹ رہی ہیں سڑکیں بن رہی ہیں خوب بجٹ استعمال ہو رہا ہے مگر سب قلعی کھل جاتی ہے ایک بارش سے۔ شور شرابہ بہت کام کچھ نہیں۔ کام تو خود بولتا ہے۔ بہت سے لوگ بہت دیانتداری سے فرائض نبھا بھی رہے ہیں اس میں کوئی شک نہیں لیکن نظام کی اپنی اہمیت ہوتی ہے پورا سسٹم فالو اپ رکھتا ہے پروگراموں کا۔ اللہ ہمیں بے غرضی سے وطن کی خدمت کی توفیق عطا فرماۓ۔. آمین

 

Tariq Asif Siddiqui
About the Author: Tariq Asif Siddiqui Read More Articles by Tariq Asif Siddiqui: 7 Articles with 3320 views I am a 63 years old retired banker, who has a passion to write what he percieves about social and political issues of this country, also tries his bes.. View More