گجرات ڈویژن اور انسانی ہمدردی

گجرات پنجاب کا 10واں ڈیژن بن گیاجس سے وہاں کے لوگوں کو سہولیات ملیں گے اب انکا اپنا نظام ہوگا اس پر بات کرنے سے پہلے انسانی ہمدری پر چند لائنیں لکھنا چاہوں گا کیونکہ آج 19اگست کو انسانی ہمدردی کا عالمی دن منایا جاتا ہے اس دن کے منانے کا مقصد انسانیت کی بھلائی اور فلاح و بہبود کیلئے کام کرنے والے اداروں،انسان دوست افراد کی اہمیت و عظمت کا اعتراف اور ان کی انسانی ہمدردی کے متعلق عوامی شعور اجاگر کرنا ہے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے گیارہ دسمبر 2008ء کو دنیا بھر میں انسان دوستوں کی عظمت کے اعتراف کے طور پر 19اگست کو انسانی ہمدردی کے عالمی دن کے طور پر منانے کا اعلان تھا جس کے بعد پاکستان سمیت دنیا بھر میں انسانی ہمدردی کا عالمی دن 19اگست کو منایا جاتا ہیبغیر کسی مطلب اور لالچ کے ایک دوسرے کے کام آنا انسانی ہمدردی کہلاتا ہے ہمارا مذہب تو انسانی ہمدردی کے وہ مثال ہے جو کہیں اور نہیں ملتی پاکستان میں اس کی بہترین مثال دیکھنی ہو تو عبدالستار ایدھی ہیں جنہوں نے بے گور وکفن لاشوں کو اپنے ہاتھوں سے غسل دیا مگر آجکل ہم انتقام کی آگ میں بہت آگے نکل چکے ہیں دنیا کو بنے ہوئے کروڑوں سال ہو چکے ہیں یہاں پر بڑی بڑی باتیں کرنے والے ،قتل و غارت کابازار گرم کرنے والے اور ایک دوسرے کو نشان عبرت بنانے والوں کا آج نام ختم ہو چکا ہے اور نشان بھی مٹ گیا ہے اس مختصر سی زندگی میں ہم ایک دوسرے کو برداشت کریں اور کوئی ایسے کام کرجائیں کہ دنیا بعد میں یاد رکھے شہباز گل نے جو کیا اسے انسانی ہمدردی کی بنیاد پر بھلا دینا چاہیے کہیں ایسا نہ ہو کہ بچوں کی لڑائی میں بڑے کود پڑیں اور پھر بات کہیں سے کہیں نکل جائے گلی محلوں میں جب بچے کھیل ہی کھیل میں لڑتے ہیں تو پھر انکے بڑے رائفلیں نکال کر قتل و غارت شروع کردیتے ہیں دونوں طرف سے جانی نقصان کے بعد باقی بچ جانے والے جیل کی سلاخوں میں چلے جاتے ہیں اگر بچوں کو پیار محبت سے سمجھا دیا جائے تو وہ پھر کھیلنا شروع کردیتے ہیں اب اس شہر کی بات کرتے ہیں جو جرات و بہادری کا انمٹ نقوش چھوڑنے والے پاک فوج کے دلیر سپاہی راجہ عزیز بھٹی نشان حیدر کے ساتھ ساتھ اردو اور پنجابی کے مزاحیہ شاعر امام دین گجراتی کا شہر ہے اس شہر کے باسیوں کی عرصہ دراز سے تمنا تھی کہ انہیں ڈویژن کا درجہ دیا جائے پنجاب کا وزیر اعلی منتخب ہوتے ہی چوہدری پرویز الہی نے اپنے شہر کو ڈیژن کا درجہ دیدیا دو دریاؤں کے درمیان آباد یہ شہرآبادی کے لحاظ سے یہ پاکستان کا 20 واں بڑا شہر ہے سیالکوٹ اور گوجرانوالہ کے قریبی شہروں کے ساتھ ساتھ گجرات صنعتی شہروں کے سنہری مثلث کا حصہ ہے جس میں برآمدات پر مبنی معیشتیں ہیں گجرات کے آس پاس کا علاقہ مغلوں سے پہلے سوری حکمران شیر شاہ کے دور میں آباد ہوا تھا سوری کے روہتاس کے گورنر خواص خان کے اعزاز میں اس علاقے کا نام خواص پور رکھا گیا تھا گجرات اس علاقے میں تعمیر ہونے والا دوسرا قصبہ ہے جس کا پہلا شہر 1303 میں منگول حملوں سے تباہ ہوا تھا یہ شہر مغل سلطنت کے تحت آیا اور مغل شہنشاہ اکبر اعظم کے دور میں مزید ترقی ہوئی 1580 میں گجرات کا قلعہ تعمیر کیا اور مقامی پادری گجروں کو1596-97 میں شہر میں آباد ہونے پر مجبور کیا تب اس شہر کا نام گجر قبائل کے حوالے سے رکھا گیا تھا 1605 میں عبدالقاسم کو اکبر نے شہر کو جاگیر کے طور پر عطا کیا تھا شہنشاہ جہانگیر کے دور میں گجرات اس راستے کا حصہ تھا جسے مغل شاہی کشمیر کے دورے پر استعمال کرتے تھے گجرات کے سب سے مشہور سنت شاہ دولہ کو سکھ گرو ہرگوبند سے اس شہر کو بچانے کا سہرا دیا جاتا ہے گجرات کا سکندریہ پل دریائے چناب پر پھیلا ہوا ہے اور برطانوی دور میں بنایا گیا تھا۔1707 میں اورنگ زیب کی موت کے ساتھ ہی مغل سلطنت نمایاں طور پر کمزور ہونے لگی جو اختیار قائم رہا وہ مغل نوابوں کے ہاتھ میں رہا جنہوں نے دہلی میں مغل بادشاہ سے برائے نام بیعت کی تاہم 1739 میں طاقتور ترک ایرانی حکمران نادر شاہ نے مغلوں کو آخری دھچکا دیا جب اس نے ان کی راجدھانی دہلی کو برطرف کرتے ہوئے لوٹ مار کا آغاز کیا اپنی مہم کے دوران نادر شاہ نے گجرات کو راستے میں ہی توڑ دیا جو اس وقت ایک خوشحال شہر تھا۔ 1741 کے کچھ عرصے بعد راولپنڈی کے علاقے کے قریب سے ہونے والی افراتفری میں مقامی پنجابی گکھڑ قبائلیوں نے شہر پر قبضہ کر لیا۔ 1748 اور 1767 کے درمیان اپنے نئے پرجوش حکمران احمد شاہ درانی کے دور میں درانی افغانوں کے آٹھ حملوں سے شہر کو مزید نقصان اٹھانا پڑا۔1765 میں گجر سنگھ کے ماتحت سکھ بھنگی مل نے اس شہر پر قبضہ کر لیا جس نے مقرب خان کے ماتحت پنجابی گھاکروں کو شکست دی۔ سکھوں نے 29 اپریل 1797 کو گجرات کی لڑائی میں افغان فوج کو شکست دی۔ 1798 میں بھنگی لیڈر صاحب سنگھ نے رنجیت سنگھ کی سوکرچکیا مِل سے بیعت کی جس نے بعد میں 1799 میں سکھ سلطنت قائم کی 1810 میں رنجیت سنگھ کی فوجوں نے شہر پر بھنگی افواج سے قبضہ کر لیا اس طرح سکھ سلطنت کی حکمرانی شہر تک پھیل گئی۔22 فروری کو گجرات کی جنگ میں سکھوں کی شکست کے نتیجے میں سکھ سلطنت کے خاتمے کے بعد آخر کار 1849 میں گجرات برطانوی کنٹرول میں آ گیا جس سے دوسری اینگلوسکھ جنگ ختم ہوئی 1867 میں گجرات کو میونسپلٹی کے طور پر تشکیل دیا گیا تھا مردم شماری کے مطابق شہر کی آبادی اس وقت تقریبا پانچ لاکھ کے قریب ہے گجرات پاکستان کا ایک قدیم شہر ہے جو دو مشہور دریاؤں دریائے جہلم اور دریائے چناب کے درمیان واقع ہے اس کی سرحد شمال مشرق میں آزاد کشمیر سے ،شمال مغرب میں دریائے جہلم سے مشرق اور جنوب مشرق میں دریائے چناب کے کنارے سے ملتی ہے جو اسے گوجرانوالہ اور سیالکوٹ کے اضلاع سے الگ کرتا ہے مغرب میں منڈی بہاؤالدین ضلع ہے گجرات تین تحصیلوں سرائے عالمگیر، کھاریاں اور گجرات پر مشتمل ہے اور اس ڈویژن میں تین اضلاع گجرات،منڈی بہاؤالدین اور حافظ آباد شامل ہیں شامل ہیں گجرات سے تعلق رکھنے والی قابل ذکر شخصیات میں چوہدری پرویز الٰہی سابق نائب وزیر اعظم پاکستان، سابق سپیکر پنجاب اسمبلی ،سابق چیئرمین ضلع کونسل گجرات ، سابق صوبائی وزیر بلدیات و دیہی ترقی سابق اور موجودہ وزیر اعلی پنجاب ،چوہدری وجاہت حسین اوران کے بیٹے چوہدری حسین الٰہی ایم این اے ،چوہدری ظہور الٰہی (شہید) سابق رکن قومی اسمبلی قومی اسمبلی ،مونس الٰہی رکن قومی اسمبلی اوردو مرتبہ پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے۔
 
rohailakbar
About the Author: rohailakbar Read More Articles by rohailakbar: 830 Articles with 612471 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.