نظریہ پاکستان ہے کیا ؟

نظریہ یا آئیڈیالو جی وہ بنیادی تصورات ہوتے ہیں جن پرکسی نظام کی بنیادیں استوار ہوتی ہیں۔آئیڈیالوجی اپنے اندر شدید قوت محرکہ رکھتی ہے۔اس میں بموں سے ذیادہ طاقت ہوتی ہے۔جب ہم نظریہء پاکستان کی بات کرتے ہیں تو اس سے مراد وہ تصورات اور آئیڈیالوجی ہے جس کی بنیاد پر پاکستان حاصل کیا گیا تھا۔حصول مملکت کے لیے جس نظام کو منتخب کیا گیا تھا اور نظریہء پاکستان کی وضاحت بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے مارچ انیس سو چوالیس میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ میں تقریر کرتے ہوئے یوں کی کہ پاکستان کی بنیاد تو اسی دن پڑ گئی تھی جس دن ہندوستان کا پہلا شخص مسلمان ہوا تھا۔ظاہر ہے جو شخص مسلمان ہوا ہو گا وہ کلمہ طیبہ پڑھ کر اور اس پر ایمان لا کر اور دائرہء اسلام میں داخل ہو ا ہو گا۔چنانچہ پاکستان کی نظریاتی بنیاد کلمہ طیبہ ٹھہری یہی وجہ تھی کہ قیام پاکستان کے دنوں ہر طرف ایک ہی آواز گونجتی تھی کہ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اﷲ ۔ یہ کوئی بچوں کا نعرہ نہیں تھا بلکہ بانی پاکستان نے خود اس کی وضاحت کی تھی۔ پنجاب اسٹوڈنٹس فیڈریشن سے خطاب کرتے ہوئے قائد نے پھر کہا۔میں نہیں سمجھتا کہ کوئی دیانتدار آدمی اس بات سے انکار کر سکتا ہے کہ مسلمان بجائے خود ہندوؤں سے ایک الگ قوم ہیں۔ہم دونوں میں صرف مذہب کا فرق نہیں بلکہ ہماری تاریخ اوثقافت بھی ایک دوسرے سے الگ ہیں۔ایک قوم کے ہیرو دوسری قوم کے ولن ہیں۔مسلمان دیگر مذہب کے ماننے والوں سے الگ قوم ہیں۔اس کا عملی اعلان رسول پاک نے اعلان نبوت کے بعد کر دیا تھا۔کہ ابو جہل اور ابو لہب زبان و نسل ،وطن ثقافت اور کئی ایک جیسی چیزوں کے اعتبار رسول پاک سے الگ قوم کے افراد تھے۔جبکہ سلمان فارسی صہیب رومی اور بلال حبشی مختلف زبان و نسل اور کلچر رکھنے کے باوجود اسی قوم کے فرد تھے۔جس کے ابو بکر اور حضرت علی تھے۔اسی دو قومی نظریہ کا اظہار جنگ بدر کے موقع پہ ہوا۔اور یوم فرقان نے واضع کر دیا کہ دنیا میں قوم کی بنیاد رنگ نسل اور کلچر پہ نہیں بلکہ مشترکہ نظریات تصور حیات اور دین پر ہے۔ اسی تصور کو سر سید احمد خان نے بر صغیر میں واضع کیااور قیام پاکستان کی پہلی اینٹ انہوں نے 24 مئی 1875 میں رکھی ۔ پھرسرسید نے یہ شمع سیالکوٹ کے فرزند اقبال کے ہاتھوں میں دی۔یہ وہی اقبال تھا جو پہلے خاک وطن ہر ذرے کو آفتاب کہتا تھا۔اور اپنے نیشنلسٹ ہونے پر نازاں تھا پھر اسی اقبال نے اس نظریے کو رد کردیا اور کہا کہ
ان تازہ خداؤں میں سب سے بڑا وطن ہے جو پیرہن اسکا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
ور انہوں نے قومیت کا وہی واضع تصور دیا جس پر ایمان لا کر کوئی مسلمان کہلاتا ہے۔ انہں نے مزید کہا کہ
اپنی ملت سے قیاس اقوام مغرب سے نہ کر خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
11 اگست 1947 میں قائد اعظم نے اقلیتوں کے حقوق کا کرتے ہو ئے ان کے تحفظ کایقین دلایا تھا مگر اسکا یہ مطلب ہر گز نہیں تھا کہ وہ اپنے اس نظریہ سے رو گردانی کر چکے تھے جس کے تحت انہوں نے جدو جہد کی۔بعض ناقدین یہ بھی کہتے ہیں کہ قائد اعظم نے حصول پاکستان کی خاطر اس نظریے کو اپنایا اور بعد میں اسے ترک کر دیا۔یہ بھی حقائق کے منافی ہے۔ چودہ اگست انیس سو اڑتالیس کو پاکستان کی پہلی سالگرہ کے موقع پر اپنے پیغام میں انہوں نے پاکستان کو دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کہا۔پھر اس سے پہلے جو لائی انیس سو اڑتالیس میں سٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر انہوں نے اپنے خطاب میں قرآن سے رہنمائی لے کر مملکت کا نظام چلانے کی پالیسی بیان کی اور یہ تقریر آج بھی اپنے الفاظ کے ساتھ محفوظ ہے۔سیکولر ازم کے پیامبروں سے میری یہ درخواست ہے کہ کیا وہ کوئی ایسی تحریر یا اسٹیٹ منٹ پیش کر سکتے ہیں جس میں جناح نے یہ کہا ہو کہ وہ ایک سیکولر اسٹیٹ کے لیے جدو جہد کر رہے ہیں یا یہ کہ پاکستان ایک سیکولر اسٹیٹ ہے۔ دراصل ان لوگوں کو سیکولرازم کے معنی ہی معلوم نہیں۔انہیں چاہیے کہ پہلے لغت میں سیکولرازم کے معنی پڑھیں۔ سیکولرازم میں وحی ، رسالت اور حدود اﷲ نہ کوئی تصور ہوتا ہے اور نہ ہی کوئی اہمیت تو پھر ایک مسلمان کیسے سیکولر ہوسکتا ہے۔ مشہور مسیحی رہنماء مسٹر جوشو افضل دین نے اپنے پمفلٹ Rational Constitution of Pakistan میں قائد اعظم کی گیارہ اگست انیس سو اڑتالیس کی تقریر پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ یہ کہہ دینا کہ تخلیق پاکستان کے بعد قائد اعظم نے کوئی ایسی بات کہہ د ی ہے کہ جس سے اس بات کا مکان ہے کہ پاکستان کی بنیاد مہندم ہو جائے گی بالکل پاگل پن ہے قائد اعظم نے صرف اتنا ہی کہا تھا کہ پاکستان میں بلا لحاظ مذہب و ملت ہر ایک کو مساوی حقوق حاصل ہوں گے۔مختصر الفاظ میں نظریہء پاکستان اور قائد کے اقوال کے مطابق ایسی مملکت تھی جس میں آزادی اور پابندی کی حدود قرآن کی رو سے معین ہوں گی۔جس میں کوئی قانون قرآن کے منافی نہ ہو اور نہ ہی مذہبی پیشواؤں کی اجارہ داری ہوگی اور نہ ہی تھیا کریسی۔مملکت کا جمہوری اور معاشی نظام سچے اسلامی اصولوں اور اسوہء حسنہ ؐ کے مطابق ہوگا۔ قوم کے جس تصور کی تشریح سر سید ، اقبال، چوہدری رحمت علی اور جناح نے کی اس کے مطابق قوم کی بنیاد خطہ زمین کی نسبت سے نہیں بلکہ مشترکہ نظریہ ء حیات کی بنیاد پر بنتی ہے۔ لہٰذا پاکستانی قوم کی اصطلاح بھی دو قومی نظریہ اور نظریہء پاکستان کے منافی ہے۔ پاکستان میں رہنے والے اس کے شہری ہونے والے اس کے حقوق اور مراعات تو لے سکتے ہیں۔وہ پاکستان کے شہری تو ہیں لیکن تمام پاکستانی ایک قوم کے فرد نہیں۔اگر ہم آج تمام پاکستانیوں کو ایک قوم مان لیں تو نظریہء پاکستان خود بخود ختم ہو جائے گا۔ اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ نوجوان نسل کو قومیت کی بنیاد اور مملکت خداد کے نظریہ سے آگاہ کیا جائے تاکہ ان عناصر کا سد باب کیا جاسکے جو حقائق اور تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش میں سرگرداں ہیں۔
 
Arif Kisana
About the Author: Arif Kisana Read More Articles by Arif Kisana: 276 Articles with 264492 views Blogger Express Group and Dawn Group of newspapers Pakistan
Columnist and writer
Organiser of Stockholm Study Circle www.ssc.n.nu
Member Foreign Pr
.. View More